بلاول بھٹو زرداری نے کل صبح ایوان صدر میں وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف لیا۔ بعد میں اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے انہیں وزیر خارجہ مقرر کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔ 33 سالہ بلاول پاکستان کے سب سے کم عمر وزیر خارجہ ہوں گے۔ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو 34 سال کی عمر میں اس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی شمولیت سے میثاق جمہوریت پر عمل درآمد اور ملک کے سیاسی بحران کو ختم کرنے کی ایک امید پیدا ہوئی ہے۔
ملک اس وقت بلاشبہ سنسنی خیز اور تکلیف دہ سیاسی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک طرف دہشت گرد ملکی سلامتی کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں تو دوسری طرف سابق وزیر اعظم ’قومی آزادی و خودداری‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے موجودہ نظام کو ناکام بنانے کی اپنی سی سعی کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں ایک جمہوری عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کا مضبوط ہونا ہی دراصل پاکستان کے لئے کامیابی اور سرخروئی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بطور وزیر خارجہ موجودہ حکومت کی عوامی قبولیت اور سفارتی وقار میں اضافہ کا باعث بنیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی زندگی کے چند برسوں کے دوران ہی بنیادی انسانی اصولوں سے وابستگی، جمہوری روایات کے احترام اور سیاسی افہام و تفہیم کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے مثبت اور ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2018 میں قومی اسمبلی کا رکن بننے کے بعد سے انہوں نے ایک ہوش مند پارلیمنٹیرین کے طور پر بھی خود کو منوایا ہے۔
ملکی سیاست میں چونکہ اصولوں کی بجائے شخصیت پرستی کا سکہ چلتا ہے، اس لئے نہ تو مخالف نقطہ نظر کو قبول کرنے کا رواج پایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان کی خدمات کا اعتراف مناسب سمجھا جاتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور کشادہ دلی کی وجہ سے ملک میں جو کثیر الجماعتی حکومت قائم ہوئی ہے، وہ سیاسی ماحول میں کشیدگی کم کرنے اور مل جل کر مسائل حل کرنے کی کاوشوں کو مستحکم کرے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر کے طور پر عہدے کا حلف لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک غیر معمولی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت کوئی عام سیاسی اشتراک نہیں ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن نے اقتدار سنبھالنے کا اقدام کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس لئے اس اتحاد میں شامل تمام عناصر کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ موجودہ صورت حال میں یک طرفہ فیصلہ سازی ممکن نہیں ہو سکتی۔ اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں کو مل جل کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا اور اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہو گا‘ ۔ملک کی بڑی اور تجربہ کار سیاسی پارٹی کے چئیر پرسن اور نوعمر وزیر خارجہ کی ان باتوں سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اتحادی حکومت کے تمام شرکا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سب مل کر اتفاق رائے سے قومی مسائل کا ادراک کریں اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ اس حوالے سے بنیادی ذمہ داری اتحاد میں شامل دونوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ان دونوں پارٹیوں کے قائدین نے اصولوں کی بجائے ذاتیات کو پیش نظر رکھا اور قومی مقاصد کے حصول کی بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کو ترجیح دی تو یہ اتحاد تو ناکام ہو ہی جائے گا لیکن قوم بھی ان دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کو معاف نہیں کرے گی۔
قیاس جا سکتا ہے کہ اتحادی حکومت میں شامل ہونے والی پارٹیوں کے اعلیٰ قائدین کو اس حساسیت کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ باہمی رابطوں اور گفت و شنید سے معاملات سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے شروع میں وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ نے حلف اٹھایا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری اس موقع پر موجود تھے لیکن انہوں نے وفاقی وزیر کے طور پر حلف نہیں لیا تھا بلکہ یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ بلاول مسلم لیگ (ن) کے رہبر اعلیٰ نواز شریف سے مشاورت کے لئے لندن جا رہے ہیں۔ اس خبر نے چہ میگوئیوں میں اضافہ کیا اور اتحادی حکومت میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگی تھیں۔ لندن میں نواز شریف کے ساتھ پریس کانفرنس میں جب ایک صحافی نے کابینہ میں شمولیت اور وزارتوں کی تقسیم کے بارے میں سوال کیا تو بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کیا کہ وہ وزارتوں کی تقسیم پر بات کرنے لندن آئے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ میثاق جمہوریت کی تجدید اور اس پر عمل درآمد کے طریقوں پر بات چیت کے لئے نواز شریف سے ملے تھے۔ اس جواب سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ 2006 میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والا میثاق جمہوریت ہی موجودہ اتحادی حکومت کو اکٹھا رکھنے اور ساتھ مل کر چلنے کی بنیاد ہو گا۔ یہ بات اتحادی حکومت میں شامل دونوں پارٹیوں کو خوب اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے۔
یہ میثاق درحقیقت ملک میں آئین کی بالادستی اور جمہوری روایت کو مستحکم کرنے کے لئے وسیع تر تعاون کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس معاہدے میں ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے پارٹی پروگرام کے مطابق سیاسی مہم جوئی کرتی رہیں گی لیکن بعض بنیادی قومی اہمیت کے معاملات میں انہیں ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ ان امور میں سیاست کو فوجی مداخلت سے پاک رکھنے کا عزم، عدلیہ کی خود مختاری اور میڈیا کی آزادی سر فہرست تھے۔ اس میثاق میں طے پانے والی حکمت عملی ہی کی وجہ سے اپریل 2010 میں اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور ہو سکی تھی جس کی بنیاد پر ملک کو ایک بار پھر مکمل پارلیمانی جمہوری نظام کی طرف گامزن کیا گیا اور اسمبلیاں توڑنے کا صدارتی اختیار سلب کر دیا گیا۔ اسی ترمیم کے تحت زیادہ صوبائی خود مختاری دینے اور وسائل میں صوبوں کے حصہ کے بارے میں رہنما اصول ترتیب دیے گئے۔یہ ایک شاندار کامیابی تھی جو دونوں بڑی پارٹیوں کے تعاون ہی کی وجہ سے حاصل ہو سکی تھی۔ اگر اس وقت یہ ترمیم پاکستانی آئین میں شامل نہ ہوتی تو سوچا جا سکتا ہے کہ عمران خان جیسا خود پسند اور اختیارات کے ارتکاز پر یقین رکھنے والا لیڈر کیوں کر ملک میں جمہوریت کا حلیہ بگاڑنے میں کامیاب ہوجاتا۔ تحریک انصاف نے 2018 میں حکومت سنبھالنے کے بعد تکرار سے صدارتی نظام کی خوبیاں گنوانے اور اٹھارہویں ترمیم کو ناجائز اضافہ قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ عمران خان خود متعدد مواقع پر یہ دعویٰ کرتے رہے تھے کہ اس ترمیم کے تحت قومی وسائل کی تقسیم کے لئے قائم ہونے والے این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے مرکزی حکومت کے ہاتھ میں وسائل نہیں رہتے، اس لئے اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ حالانکہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ صوبوں کو مطمئن کیے بغیر کوئی مرکزی حکومت کامیابی سے کام نہیں کر سکتی۔ صوبائی خود مختاری کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل ہی کی وجہ سے اس وقت بلوچستان میں بے چینی پائی جاتی ہے اور دیگر چھوٹے صوبے بھی شکوہ کناں رہتے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم نے کسی حد تک ان شکایتوں کا مداوا کیا تھا۔
اگر ملکی آئین میں اٹھارہویں ترمیم شامل نہ ہوتی تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی صورت میں تحریک عدم اعتماد کی آئینی کاوش کو ناکام بنانے پر تلے ہوئے عمران خان کا ’تابعدار‘ صدر اس موقع پر کیا اقدام کرتا۔ عمران خان نے تو اس معاملہ میں غیر آئینی اقدام تک سے گریز نہیں کیا۔ ان کی ہٹ دھرمی اور اقتدار تک واپس پہنچنے کی عجلت کا یہ عالم ہے کہ وہ ایک جھوٹ کے سہارے ملک میں گروہ بندی، ذاتی عقیدت و نفرت اور ہر ملکی مفاد کو روندنے پر آمادہ ہیں۔ ملک کو امریکی غلامی سے ’آزاد‘ کروانے کا نعرہ لگاتے ہوئے وہ دوبارہ وزیر اعظم بننے سے کم پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ بالک ہٹ ملکی سیاست میں تلخی اور پیچیدگی میں اضافہ کر رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان یہ جاننے کے بعد کہ انہیں اقتدار سے محروم کرنے میں بھی وہی عوامل کارفرما تھے جو پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا سبب بنے تھے، اور پھر انہیں عناصر نے نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا بلکہ ان پر تاحیات کوئی عہدہ لینے کی پابندی عائد کروا دی۔ خود ٹھوکر کھانے کے بعد عمران خان اگر درست سیاسی انتخاب کر سکتے تو وہ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی بنانے کی بجائے سیاسی پارٹیوں سے قربت پیدا کرتے تاکہ سب سیاسی طاقتیں مل کر ایسا آئینی انتظام کرسکیں کہ غیر منتخب قوتوں کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی کا حوصلہ نہ ہو اور ریاست کا ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں کام کرسکے۔
عمران خان کی ضد اور خطرناک سیاسی حکمت عملی ملک کی اتحادی حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ واضح ہے کہ پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کے لئے سب سیاسی قوتیں متفق نہیں ہو سکتیں۔ کوئی نہ کوئی لیڈر ذاتی اقتدار کے لئے اپنے تمام آپشنز کھلے رکھے گا جیسا کہ اس وقت عمران خان کر رہے ہیں۔ ایسے میں اتحادی حکومت میں شامل پارٹی قائدین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی اتحاد اور اشتراک عمل سے ملک کو ایسی آئینی بنیاد فراہم کریں کہ ملک میں حقیقی جمہوریت پھل پھول سکے اور سیاسی امور میں عدلیہ سمیت غیر منتخب اداروں کی مداخلت کا قلع قمع کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے وقتی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر کام کرنا ہی واحد راستہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ماضی شدید مقابلے بازی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں سے عبارت رہا ہے تاہم اب اگر انہوں نے ملک و قوم کے مفاد کے لئے مل کر کام کرنے کا عزم کیا ہے تو انہیں مشکلات کے باوجود یہ کام پورا کرنے کا قصد کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری کی کابینہ میں شمولیت اس مقصد کی طرف درست قدم ہے۔ دونوں پارٹیوں کی قیادت کو دہائیوں پر محیط نفرت اور پروپیگنڈا مہم کا بھی سامنا ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کی بہت بڑی تعداد عمران خان کی خوبیوں کی وجہ سے ان کا ساتھ دینے کی بجائے نواز شریف یا آصف زرداری سے ’نفرت و مایوسی‘ کی وجہ سے تحریک انصاف کو آخری امید سمجھنے کی غلطی کر رہی ہے۔ رائے عامہ کے اس حصہ کو ہر گز یہ ادراک نہیں ہے کہ سیاسی لیڈروں کے خلاف پھیلائی گئی باتیں بے بنیاد اور بلاجواز ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو عمران خان کی بجائے اس نفرت اور غلط فہمی کے خلاف لڑنا ہے جو دہائیوں کی کوششوں سے عوام کے دلوں میں راسخ کی گئی ہے۔ یہ کام محض ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے صرف قومی مقصد کے لئے کوشش کرتے رہنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
اتحادی حکومت میں شامل دونوں بڑی پارٹیوں پر واضح ہونا چاہیے کہ محض اسمبلیوں کی موجودہ مدت کے دوران اقتدار سنبھالے رکھنے سے اس گمبھیر اور مشکل چیلنج کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان نے قومی خود داری اور مذہبی شدت پسندی کے عناصر سے پاپولرازم کو ایک نئی جہت عطا کی ہے جو انہیں سیاسی میدان میں ایک خطرناک اور ناقابل اعتبار کھلاڑی بنا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو آئندہ انتخابات کے دوران مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ پاکستانی معیشت اور سیاست کو لاحق مسائل کسی ایک مختصر المدت ’قومی حکومت‘ سے حل نہیں ہوں گے بلکہ اس مقصد کے لئے آئندہ انتخابی مدت میں بھی اتحادی حکومت تشکیل دینا ضروری ہو گا۔اس طرح ایک تو مشترکہ طور سے بنائی گئی حکمت عملی کے نتائج ظاہر ہونے تک اسے جاری رکھا جا سکے گا، دوسرے جب تحریک انصاف کے علاوہ سب سیاسی قوتیں کسی وسیع تر قومی مقصد کے لئے ہم خیال اور ہم قدم ہوں گی تو عوام کے سامنے عمران خان کی حقیقت بھی آشکار ہونا شروع ہو جائے گی۔
(بشکریہ کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ