امریکا میں مقیم عاشقانِ عمران خان کے اثرورسوخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں کبھی کبھار یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتا کہ نہایت ضد اور تن دہی کے ساتھ وائٹ ہائوس لوٹنے والے ڈونلڈٹرمپ بانی تحریک انصاف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دے سکتے ہیں۔ ان کی جانب سے ممکنہ دعوت نامہ یہ سوچنے کو بھی اُکساتا کہ اس کے حوالے سے ریاست وحکومت پاکستان کا کیا رویہ ہوگا۔
ٹرمپ کی شخصیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے خیال مگر یہ بھی آیا 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران موصوف نے نہایت رعونت سے یہ تڑی لگائی تھی کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی حکومت پاکستان کو فون کرے گا۔ اسے سنتے ہی حکومت پاکستان اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک گھر میں موجودگی کی تصدیق کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جیل سے رہا کرکے امریکا جانے والے جہاز میں بٹھادے گی۔ اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں ٹرمپ کو لیکن شکیل آفریدی کبھی یاد ہی نہیں آیا۔ ترجیح موصوف کی ا فغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء تھی۔ مذکورہ ہدف کے حصول کے لیے وائٹ ہائوس نے لینڈسے گراہم نامی سینیٹر کو پاکستان بھجوایا۔ اس کے ذریعے عمران خان کو امریکا آنے کی دعوت دی گئی۔ ہمارے ان دنوں کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ بھی وزیراعظم پاکستان کے ہمراہ امریکا روانہ ہوگئے۔ موصوف نے اس امر کو یقینی بنایا کہ عمران حکومت کے وزیر دفاع جو سابق وزیر اعظم کے ایچی سن کالج کے دنوں سے قریب ترین دوست بھی تھے امریکا جانے والے وفد میں شامل نہ ہوں۔
وزیر دفاع کی عدم موجودگی میں قمر جاوید باجوہ پینٹاگون تشریف لے گئے۔ موصوف کا وہاں توپوں کی سلامی سے سربراہان حکومت جیسا استقبال ہوا۔ اپنی پذیرائی سے خوش ہوکر باجوہ نے پاکستان کے لیے ٹھوس اعتبار سے کچھ حاصل کیے بغیر طالبان کو قطر کے شہر دوحہ میں مذاکرات کی میز پر بٹھانے کو رضا مندی کا اظہار کیا۔ افغانستان کے حوالے سے دسمبر1979ء سے شروع ہوئی گیم کا اہم ترین کردار ہوتے ہوئے بھی پاکستان باجوہ کے فدویانہ رویے کی بدولت طالبان کو امریکا کے ساتھ ’تھرو‘ کروانے کا باعث ہوا۔ فاتح بن کر کابل لوٹے طالبان اب اپنے دوحہ دفتر کے ذریعے ہی واشنگٹن سے معاملات طے کرتے ہیں۔ مذکورہ دفتر کا خرچہ بھی امریکا ہی ا دا کرتا ہے۔
عمران خان کو کائیاں ٹرمپ نے یہ جھانسہ دیا کہ بھارتی وزیراعظم نے جاپان کے شہر اوساکا میں ہوئی ایک ملاقات کے دوران امریکی صدر سے درخواست کی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرے۔ ہمارے بھولے وزیراعظم نے موصوف کی کہانی پر اعتبار کیا۔ پاکستان لوٹتے ہی دعویٰ کردیا کہ ٹرمپ کی بات سننے کے بعد وہ ویسی ہی طمانیت ا ور فخر محسوس کررہے ہیں جیسی پاکستان کے لیے ورلڈ کپ جیتنے کی وجہ سے کبھی محسوس کی تھی۔ بھارتی حکومت نے محتاط ترین الفاظ میں ٹرمپ کے دعویٰ کی تردید کی۔ 2021ء کے اگست کا آغاز ہوتے ہی مگر بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ کر اپنا اٹوٹ انگ بنالیا۔ کئی مہینوں تک براہ راست دلی سے چلائی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ تک رسائی کو ناممکن بنائے ر کھا۔ افغانستان میں طالبان کی امریکا سے صلح کرواتے ہوئے ہم اپنی ’شہ رگ‘بچانے کو کچھ بھی نہ کرپائے۔ اپنی معیادِ ملازمت میں مزید اضافے کی تمنا میں باجوہ اپنے پسندیدہ صحافیوں کے ذریعے بلکہ قوم سے یہ پوچھنا شروع ہوگئے کہ بھارت اور پاکستان کب تک ’ساس اور بہو‘ کی طرح ایک دوسرے سے جھگڑتے رہیں گے۔ یہ فرماتے ہوئے موصوف کو یاد ہی نہ رہا کہ آزادیِ کشمیر کا کاز ہی ان کے ادارے کو وطن عزیز کا طاقتور ترین ادارہ بنانے کی بنیادی وجہ رہا ہے۔
باجوہ کی کہہ مکرنیوں میں الجھ گیا تو اصل موضوع سے ہٹ جائوں گا۔ مجھے گمان تھا کہ امریکا میں مقیم عاشقانِ عمران خان وہاں کے طاقتور حلقوں تک رسائی کی بدولت عمران خان کے لیے امریکی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ یقینی بنائیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں ۔ امریکا کے پچھواڑے میں لاطینی ا مریکا کا ایک بڑا ملک ہے۔ نام ہے اس کا برازیل۔ اس کا صدر 2022ء میں صدارتی انتخاب ہار گیا تھا۔ اپنی شکست کو مگر اس نے ٹرمپ کی طرح تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اپنے مخالفین پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے اس نے برازیل کی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز چند افراد کو ترغیب دی کہ وہ نئی حکومت کا قیام روکنے کے لیے فوجی بغاوت کردیں۔ بغاوت کی کوشش مگر ناکام ہوگئی تو الیکشن ہارا ہوا سابق صدر بول سونارو (Bolsonaro) تھوڑے دنوں کے لیے امریکا چلا گیا۔ اپنی دانست میں ’طوفان تھم جانے‘ کے بعد برازیل لوٹا تو وہاں کی حکومت نے اس کے خلاف متعدد الزامات کے تحت تفتیش شروع کردی۔ اس کے مکمل ہونے تک مگر اسے گرفتار نہیں کیا جائے گا ۔
فوجی بغاوت کے سنگین الزام کے علاوہ دیگر کئی مقدمات کے حوالے سے تفتیش کا سامنا کرتے سابق برازیلی صدر کو تاہم ٹرمپ نے باقاعدہ دعوت نامہ دے کر اپنی حلف برداری کی تقریب میں بلالیا۔ بول سونارو یہ دعوت ملنے کے بعد بہت خوش ہوا۔ بہت فخرسے اعلان کیا کہ ٹرمپ کا دعوت نامہ ملنے کے بعد وہ خود کو جوان محسوس کررہا ہے اور اسے وہ دوائی استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہی جو مرد حضرت اپنی مردانگی برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بڑھکیں لگاتے ہوئے سابق برازیلی صدر کو یاد ہی نہ رہا کہ اس کا پاسپورٹ تو سپریم کورٹ نے ضبط کررکھا ہے۔ ٹرمپ کی حلف برداری میں شرکت کے لیے اس نے برازیل کے سپریم کورٹ سے پاسپورٹ وصول کرنے کی درخواست کی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مگر اسے پاسپورٹ دینے سے انکار کردیا۔ قصہ مختصر سابق برازیلی صدر اب ٹرمپ کی دعوت پر اس کی حلف برداری کی تقریب میں شریک نہیں ہوپائے گا۔
برازیل کے سابق صدر پر جو گزری وہ میری پریشانی کا باعث نہیں۔ گلہ مجھے امریکا میں مقیم عاشقانِ عمران سے ہے۔ وہ اپنے اثرورسوخ کو عمران خان صاحب کے لیے ٹرمپ کی حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے میں ناکام رہے۔ رچرڈ گرنیل کی کئی دنوں تک جاری رہی چمچہ گیری بھی نظر بظاہر کسی کام نہیں آئی ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ