سیاست کا گورکھ دھنداسمجھنے کے حوالے سے جب ہوش سنبھالا تو 1970ء کی دہائی کا آغاز ہوچکا تھا۔ اس کے شروع ہوتے ہی مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ میری نسل اس جدائی کے حقیقی اسباب سمجھنے میں ناکام رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو اس کے بعد سویلین ہوتے ہوئے بھی ’’چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘‘بنے۔ اس سے قبل یہ عہدہ جنرل یحییٰ خان کے پاس تھا۔ انہیں ’’ادارے‘‘ ہی نے استعفیٰ دینے کو مجبور کیا۔ بھٹو صاحب ان کی جگہ صدرِ پاکستان بھی تعینات کردئیے گئے اور ’’نیا پاکستان‘‘ تعمیر کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہوگئے۔
مشرقی پاکستان کی جدائی سے نظر بظاہر ہمارے دائمی حکمران اداروں نے سبق یہ سیکھا کہ ملک عوام کے منتخب کردہ نمائندے چلائیں گے۔ جمہوری اور آئینی جدوجہد کی بدولت پاکستان 1947ء میں آزاد ملک بنا تھا۔ یہاں کے باسیوں کو مگر بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوئے انتخاب سے 1970ء تک محروم رکھا گیا۔ اس برس وہ انتخاب ہوگئے تو کوئی ایک سیاسی جماعت بھی ’’ملک گیر‘‘ اثر کی حامل نظر نہیں آئی۔ مشرقی پاکستان بنگالی قوم پرستی کی حامی عوامی لیگ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔ پنجاب اور سندھ پیپلز پارٹی کی حمایت میں پیش پیش رہے۔ ان دنوں صوبہ سرحد کہلاتے خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت میں ابھری۔ مشرقی پاکستان کی جدائی کے بعد فیصلہ ہوا کہ باقی بچے پاکستان میں عوام کی جانب سے دئے ووٹ کا احترام ہوگا۔
اپنے ’’عہد‘‘ پر قائم رہنے کی ہمیں مگر عادت نہیں۔ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے سردار عطاء اللہ مینگل صوبائی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت کے نمائندے کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے۔ ان کے چند فیصلوں سے وفاقی حکومت ناراض ہوگئی۔ وہ ناراض ہوئی تو اس صوبے میں برطانوی دور سے مرکز کی اطاعت کو تیار کئے سرداروں کے چند گروہوں نے صوبائی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ ان کی برپا ’’شورش‘‘ پر قابو پانے کیلئے مینگل حکومت کو امن وامان برقرار رکھنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے برطرف کردیا گیا۔
مینگل حکومت کی برطرفی کے خلاف صوبہ سرحد کی حکومت کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود ازخود مستعفی ہوگئے۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ بنائی مخلوط حکومت کے سربراہ تھے۔ اس جماعت کے سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھ اپنے استعفیٰ کے ذریعے یکجہتی کا اظہار کیا۔ آج کی نوجوان نسل کو احتیاطاََ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا مفتی محمود جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے والد تھے۔ صوبہ سرحد کی حکومت اور اس کے وزیر اعلیٰ نے جس انداز میں ’’اصولوں کی بنیاد پر استعفیٰ دیا‘‘ اس سے میرا سیاسی اعتبار سے زرخیز ذہن بہت متاثر ہوا۔ جی میں خواہش ابھری کہ اٹک کے پار افغانستان کے ہمسایہ میں واقعہ صوبے کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کی بدولت خان عبدالغفار خان اور ان کی چلائی خدائی خدمت گار تحریک سے روشناس ہوا۔ اکثر یہ سوال بھی ذہن میں اٹھتا کہ پشتون قوم پرستی اور سیکولرازم کی دعوے دار نیشنل عوامی پارٹی نے جمعیت العلمائے اسلام جیسی مذہبی جماعت کے ساتھ اتحاد کیوں کیا۔ یہ سوال جب لاہور میں جید مانے دانشوروں کے روبرو رکھتا تو نہایت رعونت سے وہ مجھ کند ذہن کو یہ بتاتے کہ ’’نظریاتی اعتبار‘‘ سے دو مختلف جماعتیں ہونے کے باوجود نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کے اکابرین قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ اسی باعث خان غفار خان کو ’’سرحدی گاندھی‘‘ پکارا جاتاتھا اور علامہ اقبال دیوبند کے ایک جید عالم علامہ حسین احمد کے شدید ناقد رہے۔ بعدازاں چند سرکاری افسران نہایت فکر مندی سے مجھے یہ بھی سمجھاتے رہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یہ دونوں جماعتیں باقی بچے پاکستان کوبھی ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہ رہی ہیں۔ مبینہ علیحدگی پسندی کے رحجانات صوبہ سرحد میں بہت ’’تگڑے‘‘ بتائے گئے۔ دعویٰ یہ بھی ہوتا کہ افغان حکومت اس صوبے میں موجود قوم پرستوں کو پاکستان سے جدا ہوکر ’’پختونخونستان‘‘ بنانے کے لئے اُکسارہی ہے۔
وقت تیزی سے گزرگیا تو میں صحافت کے پیشے میں درآیا۔ سیاسی امور پر رپورٹنگ کرتے ہوئے مجھے صوبہ سرحد میں کئی بار جانا ہوتا۔ ضیاء الحق کی حکومت کے دوران مذکورہ صوبہ ’’افغان جہاد‘‘ کے مرکز میں تبدیل ہوا تو انگریزی اخبار کا رپورٹر ہوتے ہوئے میرے لئے وہاں مہینے میں کم از کم دو سے تین دن رہنا ضروری ہوگیا۔ پشتون سیاستدانوں سے بطور صحافی ملاقاتیں کرتے ہوئے میں ان کی مہمان نوازی سے کہیں زیادہ وضع داری سے بہت متاثر ہوا۔ اکثر یہ جان کر حیران ہوجاتا کہ ایک دوسرے کے ساتھ شدید ترین سیاسی اختلافات کے باوجود صوبہ سرحد کے سیاستدان سماجی اعتبار سے ایک دوسرے کا نہایت احترام کرتے ہیں۔ شادی غمی ان کی سانجھی ہوتی۔ پنجاب میں سیاسی اختلافات جبکہ اکثر ذاتی دشمنیوںمیں بدل جاتے ہیں۔ بطور نوجوان صحافی میں اس تناظر میں صوبہ سرحد کے سیاستدانوں سے بہت متاثر ہوا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے میں مدد ملی۔
مولانا مفتی محمود کی وزارت اعلیٰ سے 2024ء میں ہم ایک ایسے دور میںداخل ہوگئے ہیں جب مولانا مفتی محمود کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان ہی سے ابھرے علی امین گنڈاپور خیبرپختونخواہ ہوئے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ انہیں اپنے صوبے کی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت میسر ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جب بھی جائوں تو وہاں سے گھر لوٹنے کی جلدی نہیں ہوتی۔ ڈیرہ کے لوگوں کی مہمان نوازی سے زیادہ بول چال کا پُراخلاص لہجہ دل موہ لیتا ہے۔ علی امین مگر وکھری نوعیت کے مالک ہیں۔ گزرے اتوار کے دن ایک بہت بڑے کاررواں کے ساتھ اسلام آباد تشریف لائے تھے۔ ان کے ’’لشکر‘‘ کا راستہ صاف کرنے کے لئے کرینیں وغیرہ بھی موجود تھیں۔ محمود غزنوی جیسے دلاوروں کے لشکروں کی تاریخ کی نقالی کرتے کاررواں کے ساتھ علی امین اسلام آباد پہنچے تو تحریک انصاف کے حامیوں کے ایک بہت بڑے اجتماع سے ’’انقلابی‘‘ خطاب کیا۔ مجھ جیسے دو ٹکے کے صحافیوں کو ان کی اوقات یاد دلائی۔ پنجاب کی خاتون وزیر اعلیٰ کے خلاف غیر مہذب زبان استعمال کی۔ جوش خطابت میں مگر ریاست کے ایک طاقتور ادارے کو بھی ’’سیدھا‘‘ کرنے کے ارادے کا اظہار کردیا۔ ان کی دھواں دھار تقریر کے خاتمے کے دوسرے روز مگر اسلام آباد میں افواہ یہ پھیلی کہ وہ ’’غائب‘‘ ہیں۔ ٹیلی فون پر ان سے رابطہ ممکن نہیں رہا۔ ان کی عدم موجودگی سے تاثر یہ پھیلا کہ ریاست کے محافظوں نے غالباََ انہیں ’’غائب‘‘ کردیا ہے۔ کئی گھنٹے ہم سب کو اپنی گمشدگی سے پریشان رکھنے کے بعد منگل کے روز بالآخروہ پشاور پہنچ گئے۔ اپنی جماعت کو یہ کہتے ہوئے دلاسہ دیا کہ وہ ’’امن وامان‘‘ کے معاملہ پر ہوئے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک تھے۔ جس مقام پر وہ موجود تھے وہاں لگے ’’جامرز‘‘ کی وجہ سے ان سے رابطہ ممکن نہیں تھا۔ ’’ازخود بازیاب‘‘ ہوئے علی امین صاحب کی سنائی داستان پر میں دوٹکے کا رپورٹر اعتبار کرنا چاہتا ہوں۔سوشل میڈیا پرچھائے میرے کئی پیارے ساتھیوں کے بقول وہ مگر ’’زبردستی‘‘ ایک ’’حساس‘‘ مقام پر لے جائے گئے تھے۔ وہاں مبینہ طورپر ان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ اتوار کے روز ہوئے خطاب سے لاتعلقی کا اعلان کردیں۔میں اپنے دوستوں کے دعویٰ پر اعتبار کرنا چاہتا ہوں۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ علی امین اس ضمن میں دلاوری کیو ں نہیں دکھارہے؟
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ