ملکی سیاست پر تسلسل سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی دھمکی آمیز تقریریں اور انتباہ سے ملک میں جمہوریت کی طرف بڑھنے کی رہی سہی امید بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ اس میں شک نہیں ہونا چاہئے کہ آرمی چیف کا یہ طرز عمل وزیر اعظم شہباز شریف کی کمزوری اور نااہلی کی وجہ سے نمایاں ہورہا ہے۔ ان کے پیش نظر صرف اپنا اقتدار ہے لیکن وہ ایسا کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے بطور سیاسی پارٹی مفادات اور مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔
آج ایک بار پھر نوجوانوں کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے نوجوانوں کی آنکھوں میں چمک دیکھی اور اعلان کیا کہ یہی نوجوان ہمارے مستقبل کا قیمتی سرمایہ ہیں، انہیں ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ’ عوام کو سوشل میڈیا سے پیدا شدہ ہیجان اور فتنے کے مضمرات سے دور رکھے‘۔ اس انتباہ کو درحقیقت فوج کی طرف سے سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی آرا کے بارے میں ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کے تناظر میں پڑھنا اور سننا چاہئے۔ فوج اور آرمی چیف کا مؤقف ہے کہ سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف نفرت اور جھوٹا پروپگنڈا کیاجارہا ہے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اس حوالے سے متعدد گزارشات کی جاسکتی ہیں لیکن سب سے پہلے آرمی چیف کو آئین کے تحت ان کا حلف یاد دلاتے ہوئے یہ باور کرانا ضروری ہے کہ پاک فوج ملک میں نافذ آئین کے تحت حکومت کی ہدایت اور نگرانی میں کسی سول شعبے میں مداخلت کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ وہ اپنے طور پر ریاست نہیں ہے اور نہ ہی ریاست پاکستان کی ذمہ داری فوج کے کاندھے پر عائد ہوتی ہے۔ ملک کو بیرونی حملے سے محفوظ رکھنا ضرور فوج کا مینڈیٹ ہے لیکن جنگ کا اعلان کرنا بھی فوج کا حق یا اختیار نہیں ہے۔ یہ مینڈیٹ بھی ملک کی منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کی مرضی و منشا کا محتاج ہے۔ اس لیے آرمی چیف کو اس گمان سے باہر نکل آنا چاہئے کہ وہی پاکستان ہیں اور اگر وہ اسے بچانے کے لیے دھمکانے و ڈرانے سے کام نہیں لیں گے تو ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست اگر پاکستان کے عوام کو کسی علت سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو یہاں منتخب پارلیمنٹ کام کررہی ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائیندے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے قابل ہیں۔ وہ برے کاموں کے تدارک کے لیے قانون سازی اور اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت کے تعاون سے اقدام کرنے کے مجاز ہیں۔ اس طریقے کے علاوہ پاکستانی آئین میں ریاست کی اتھارٹی یا رٹ نافذ کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ حکومت بھی قانون سازی اور قواعد و ضوابط بنا کر بعض متنازعہ شعبوں کی نگرانی کرتی ہے تاکہ ایسا کوئی قدم اٹھاتے ہوئے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔ ملکی آئینی انتظام میں عدلیہ کا نظام موجود ہے جو کسی بھی حکومتی فیصلے کی نگرانی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اسی لیے شہری بعض حکومتی فیصلوں کے خلاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور عدالتیں ہی طے کرتی ہیں کہ کوئی قانون، فیصلہ یا معاملہ قانون و آئین کے مطابق طے پایا ہے یا اس میں کوئی کوتاہی دیکھنے میں آئی ہے۔
ان حالات میں مناسب طریقے سے سوشل میڈیا پر منفی رجحانات کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے ذریعے ہی اقدام ہونا چاہئے۔ اگر آئی ایس پی آر کے سربراہ کی درشت پریس کانفرنس یا آرمی چیف کی تقریروں میں ریاست کی حفاظت کے نام پر آزادی رائے پر حملے کئے جائیں گے تو اس طرز عمل سے آئینی عہد کی خلاف ورزی کے علاوہ کاؤنٹر چیک کا وہ طریقہ بھی نظر انداز ہوگا جو عدالتی نظام کے ذریعے حکومتی احکامات کا جائزہ لینے کے لئے آئین میں شامل کیا گیا ہے۔ اس حق کو یک طرفہ طور سے واپس لینے کا کوئی بھی طریقہ ناقابل قبول ہے اور اسے ہر قیمت اور ہر پلیٹ فارم پر مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف کے تازہ بیان کے علاوہ حال ہی میں کی گئی دیگر تقاریر سے یہی تاثر قوی ہوتا ہے کہ وہ آزادی رائے کے ہمہ قسم استعمال کو ’فتنہ اور ہیجان پیدا کرنے کی کوشش ‘ قرار دے رہے ہیں جس سے بچانے کی ذمہ داری ریاست یعنی فوج پر عائد ہوتی ہے۔ جنرل عاصم منیر کے یہ دونوں گمان غلط ہیں۔
فوج کو اس وقت سوشل میڈیا پر اپنے خلاف چلائی گئی مہم کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔ بعینہ جیسے تحفظات کا اظہار سانحہ 9 مئی کے حوالے سے کیا جاتا رہا ہے۔ پاک فوج ان دونوں معاملات کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور اپنی رائے میں توازن پیدا کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ یعنی فوج کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جب میڈیا، تجزیہ نگار ،کوئی محقق یا شہری فوج کے کسی فیصلہ سے اختلاف کرتا ہے تو س کا مطلب فوج کے خلاف جھوٹ پھیلانا نہیں ہوتا بلکہ اختلاف رائے سے تصویرکا دوسرا پہلو سامنے لانا مطلوب ہوتا ہے تاکہ فوج اور اس کی قیادت بھی اپنی اصلاح کرسکے اور انہی غلطیوں کا ارتکاب نہ کیا جائے جو ماضی میں ملک و قوم کے لیے مصائب و آلام کا سبب بنتی رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ فوجی قیادت کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانا اور مسلسل اسے ٹارگٹ کرنا کسی طور مناسب اور درست نہیں ہے ۔ لیکن اس کی روک تھام کے لئے علم و آگہی کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے کہ 9 مئی کے جرائم میں ملوث لوگوں کو ملکی عدالتوں سے سزائیں دلانا ضروری ہے۔ فوج اس معاملہ میں بھی بیان بازی کی بجائے حکومت سے کیوں نہیں پوچھتی کہ ایسے مقدمات پر عدالتوں سے فیصلے کیوں نہیں لیے جاتے؟
البتہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کےرجحانات دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے عام طور سے دو طریقے دیکھنے میں آتے ہیں۔ ایک وہی جس کا اشارہ آرمی چیف کی سخت بیانی سے ہوتا ہے کہ اختلاف کرنے والوں کا سر کچل دیا جائے تاکہ ریاست اپنے لوگوں کو ایسے فتنے سے محفوظ رکھ سکے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ آمرانہ نظام والے تمام ممالک میں آزادی رائے کو سختی سے دبانے کا طریقہ ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ریاست اور عوام کے درمیان خلیج پیدا ہوتی ہے۔ لوگ اپنے ہی ملک کے اداروں کے خلوص اور نیک نیتی پر شبہ کرنے لگتے ہیں۔ یوں بے چینی اور انتشار پیدا ہوتا اور کوئی بھی ایسا نظام دھیرے دھیرے زوال کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جمہوری ممالک میں اختلاف سننے کا حوصلہ پیدا کیا جاتا ہے۔ عوام کو مناسب ذرائع یعنی اسکولوں ، میڈیا یا حکومتی اقدامات کے ذریعے درست تصویر دکھائی جاتی ہے ۔ اس کے نتیجے میں وہ خود غلط اور درست میں تمیز کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ انہیں حکومتی دھونس سے رائے قائم کرنے پر مجبور نہیں کیاجاتا بلکہ خود اپنی رائے بنانے کی صلاحیت دی جاتی ہے۔
اس حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ادارے، حکومت یاتعلیمی نظام کس حد تک نوجوانوں میں شعور پیدا کرنے کے قابل ہے۔ پاکستانی نظام کے بارے میں ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس میں حدود قائم کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ حدود کا احترام بھی اسی وقت ممکن ہوتا ہے اگر وہ کسی علمی بنیاد پر استوار ہوں اور انہیں قانون کے ذریعے متعارف کروایا جائے۔ ریاستی ادارے اگر اس کے برعکس معاملات میں اپنی تفہیم عام کرنے کے لیے سوشل میڈیا جیسے ابلاغ کے مؤثر ذریعے ہی کو نشانہ بنانے پر تل جائیں گے تو اس سے نوجوانوں کے ذہن صاف ہونے کی بجائے مزید الجھیں گے۔ انہیں تو یہی پتہ نہیں ہوگا کہ کیا ماضی میں فوج کے سیاسی کردار اور اس کے منفی مضمرات کے بارے میں بات کرنا اور علم حاصل کرنا جائز ہے یا اسے بھی ایسا پروپگنڈا سمجھا جائے گا جسے فتنہ و فساد کہا جائے گا۔ پاک فوج کی قیادت کے علم میں ہونا چاہئے کہ اس وقت ملک میں جو بیزاری، پریشانی بے یقینی اور ذہنی افتراق موجود ہے اس کی بنیاد ی وجہ یہ ہے کہ فوجی اداروں اور لیڈروں نے ماضی قریب میں اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی معاملات طے کرانے کی کوشش کی۔ ملک پر نام نہاد ہائیبرڈ نظام مسلط کرنے کا اقدام کیا گیا اور جب یہ انتظام ناکام ہوگیا تو کسی طرف سے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان نہیں ہؤا ۔ بلکہ اختلاف رائے کی ہر قسم کو پروپیگنڈا اور فوج کے خلاف نفرت قرار دے کر مسترد کرنے کا نیا سخت گیر طرز عمل مشاہدہ کیا جارہا ہے۔
اس تناظر میں ماضی کے متعدد سانحات کا حوالہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ فوجی کمانڈروں نے بار بار ملک میں آئین شکنی کی اور منتخب حکومتوں کو کام نہیں کرنے دیا۔ یہ تاریخی حقائق جاننا نوجوان نسل کا حق ہے بلکہ انہیں جانے بغیر وہ نسل تیار نہیں کی جاسکتی جس کی آنکھوں میں امید کی چمک ہو۔ جنرل عاصم منیر نے یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’ آپ کی آنکھوں کی چمک دیکھ کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے‘۔ جنرل صاحب کو بتانا چاہئے کہ انہیں نوجوانوں کی آنکھوں میں کون سی چمک دکھائی دیتی ہے۔ تاریخ اور حقیقی علوم سے نابلد رکھی گئی نسلوں کی آنکھیں تو ویران ہوں گی جو ملک کے مستقبل سے مایوس ہوکر کسی بھی قیمت پر ملک چھوڑنے کو بے چین ہیں۔ پاک فوج یا جنرل عاصم منیر کی دیانت اور حب الوطنی پر شبہ نہیں کیا جاسکتا لیکن انہیں بھی دیکھنا چاہئے کہ وسیع تر پھیلی ہوئی مایوسی کو جھوٹی تسلیوں اور ’آزمائش‘ کی دھمکیوں سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ وہ خود ہی آئی ایس پی آر سے ملک میں پڑھائے جانے والے سلیبس کے بارے میں رپورٹ طلب کرلیں اور دیکھیں کہ نوجوانوں کو ملکی تاریخ کے ان پہلوؤں سے کیوں لاعلم رکھا جارہا ہے جن کی وجہ سے اس وقت ملکی معیشت، سیاست اور مستقبل کے بارے میں سوالات جنم لینے لگے ہیں۔
جنرل صاحب نے نوجوانوں کو آزادی کی نعمت و اہمیت کے بارے میں آگاہ رکھنے کے لیے لیبیا، شام اورعراق کی مثالیں دی ہیں۔ نوجوانوں کو سمجھانے سے پہلے آرمی چیف خود ہی دیکھ لیں کہ ان ملکوں میں موجودہ ابتری عوام کی آواز کو دبانے اور مسلسل آمریت مسلط کرنے کی وجہ سے دیکھنے میں آرہی ہے۔ اسی لیے حقیقی علم تک رسائی، اظہاری رائے کی آزادی، اور بنیادی حقوق کا تحفظ ہی کسی بھی جمہوری نظام کی بنیاد ہوتے ہیں۔ پاکستان کا آئین بھی یہ حقوق عطا کرتا ہے۔ انہیں سلب کرنے کی کوششیں بند ہوجائیں تو نفرتوں کا بڑھتا ہؤا سیلاب بھی تھم جائے گا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ