روس کے شہر کازان میں ترقی پزیر معیشتوں کی تنظیم برکس کے اجلاس میں چین کے صدر زی جن پنگ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات ہوئی ہے۔ پانچ سال بعد منعقد ہونے والے اس ملاقات کو دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے اہم سمجھا جارہا ہے۔ دوسری طرف یوکرین جنگ کی وجہ سے امریکی پابندیوں کی زد میں آئے ہوئے صدر پوتن نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دنیا میں تنہا نہیں ہیں اور امریکہ ، روس اکیلا کرنے یا اس کی معیشت تباہ کرنے کا خواب پورا نہیں کرسکتا۔
برکس کے اس سربراہی اجلاس میں پاکستان کے حوالے سے بھی معاملات زیر غور آئے ہیں۔ پاکستان اس گروپ میں شام ہونے کی خواہش ظاہر کرچکا ہے اور روس اور چین اس پاکستانی خواہش کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ برکس کے قواعد کے مطابق کسی نئے ملک کو گروپ میں شامل کرنے کے لیے تمام رکن ممالک کی تائید ضروری ہے۔ اس لیے پاکستان کی رکنیت کا معاملہ بھارت کی رضامندی کے بغیر طے نہیں ہوسکتا۔ خبروں کے مطابق روس اور چین نے برکس میں پاکستان کی شمولیت کا معاملہ بھارت کے ساتھ اٹھایا ہے لیکن اس حوالے سے مزید تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔ البتہ حالات اگر مثبت طریقے سے آگے بڑھتے ہیں تو بھارت کو پاکستان کی برکس میں شمولیت پر راضی ہونا پڑے گا۔ یوں پاکستان ایک ایسے عالمی گروپ میں شامل ہوجائے گا جس میں دنیا کی معیشت کے تقریباً تیس فیصد کے حامل ممالک شامل ہیں ۔ جبکہ درجن بھر کے لگ بھگ نئے ممالک اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
برکس 2006 میں قائم ہؤا تھا۔ برازیل، روس، انڈیا اور چین نے ترقی پذیر ممالک کی اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ اسی لیے اس کا پہلا نام ’برک‘ تھا۔ 2010 میں جنوبی افریقہ اس اتحاد میں شامل ہوا، تو یہ نام ’برکس‘ ہو گیا۔ اس تنظیم کا مقصد دنیا کے سب سے اہم ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کی سیاسی اور معاشی طاقت کو چیلنج کرنا تھا ۔ حالیہ برسوں کے دوران اس اتحاد کو وسعت ملی اور ایران، مصر، ایتھوپیا سمیت متحدہ عرب امارات بھی اس کا حصہ بن گئے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ بھی برکس کا حصہ بننے پر غور کر رہا ہے جبکہ آزربائیجان کی جانب سے شمولیت کے لیے باضابطہ درخواست دی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ بیلا روس، بنگلہ دیش، بولیویا، کیوبا، میانمار، نائجیریا، ترکی، شام اور سری لنکا نے بھی برکس میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس طرح یہ گروپ دنیا میں معاشی تعاون کے متبادل کے علاوہ سفارتی اور سیاسی طور سے بھی اہمیت اختیار کرے گا۔ گروپ میں شامل متعدد ممالک کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس گروپ میں شامل ہونا ضروری سمجھتے ہیں کیوں کہ معاشی احیا کے لیے اس متبادل گروپ کے ساتھ مل کر کام کرنے سے ان ممالک کو اپنا معاشی فائدہ دکھائی دیتا ہے۔
روسی صدر پوتن امریکی مخالفت اور پابندیوں کے باوجود اہم ممالک کے قائدین کو روس بلانے اور معاشی تعاون کے معاملات پر بات چیت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ کامیابی امریکہ کی طرف سے روس اور صدر پوتن کو کمزور اور تنہا کرنے کی کوششوں کا ٹھوس جواب ہے۔ اس اجلاس میں چین اور بھارت جیسے بڑے ملکوں کی شرکت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ تمام ممالک سیاسی بیانیہ کے باوجود معاشی اور علاقائی تعاون کو اہمیت دیتے ہیں اور یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے نئے اتحاد بنانے اور معاشی اہداف کے لیے کام کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ روس اور ایران کے ساتھ تعاون بھارت سمیت متعدد ممالک کو سستی انرجی کے علاوہ مواصلاتی سہولتیں فراہم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ جبکہ یہ دونوں ممالک سخت امریکی پابندیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے متبادل معاشی و سفارتی گروہ بندی کو اپنے مفاد میں اہم سمجھتے ہیں۔
برکس کی کامیابی سے دنیا میں معاشی ضرورتوں کی اہمیت اور اس مقصد کے لیے پرانے رشتوں کو نئی شکل دینے کی کوششیں خاص طور سے اہم ہیں۔ بطور خاص بھارت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی ترجیحات اور پالیسیاں قابل غور ہیں۔ یہ تینوں ممالک امریکہ کے قریبی حلیف ہیں اور چین کے معاشی اور اسٹریٹیجک ’گھیراؤ‘ کے لیے امریکہ خاص طور سے ان ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن شنگھائی تعاون تنظیم کے علاوہ برکس جیسے پلیٹ فارمز میں بھارت کی دلچسپی اور ان میں مسلسل شرکت اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اپنے ہمسایہ اور ریجن میں موجود ممالک کے ساتھ تعاون و اشتراک کو کسی عالمی جتھے بندی یا امریکی مفادات کے لیے قربان نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں بھی بھارت نے پاکستان کے ساتھ شدید کشیدگی کے باوجود اپنے وزیر خارجہ جے شنکر کو بھیجا تھا اور انہوں نے اجلاس کے دوران بھرپور تقریر کی تھی اور باہمی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔
یہ بھارتی رویہ اس حقیقت کے باوجود دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک طرف امریکی کمپنیاں بھارت میں کثیر سرمایہ کاری کررہی ہیں، بھارتی حکومت امریکہ کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اور دفاعی معاہدوں میں شریک ہے ۔ اور دوسری طرف امریکہ روس کو مہذب جمہوری دنیا کا سب سے بڑا دشمن قرار دینے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہا ہے۔ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ نے اس جنگ کو بند کرانے کی کوشش کرنے کی بجائے یوکرین کی بھرپور مالی و عسکری امداد کے ذریعے جنگ کو طول دیا اور روسی پیشقدمی کو کامیابی سے روکنے میں معاونت کی۔ روس کو سزا دینے کے لیے ہی امریکہ نے روس پر کڑی اقتصادی ہابندیاں عائد کی ہیں ۔ اسی پس منظر میں گزشتہ سال مارچ کے دوران انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے صدر ولادیمیر پوتن کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ۔یہ وارنٹ جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب ہونے کے الزام میں جاری کیے گئے ہیں۔ ان وارنٹس کی موجودگی میں صدر پوتن متعدد ممالک کا دورہ نہیں کرسکتے۔ امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود برکس کے پلیٹ فارم پر ممالک کے درمیان تعاون میں فروغ سے دنیا میں معاشی وسفارت کاری کا متبادل سامنے آرہا ہے۔
چینی صدر زی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات اور خوشگوار کلمات کے تبادلہ سے عالمی سفارت کاری میں اس فورم کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے جسےامریکہ سمیت طاقت کا کوئی مرکز بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ یہ ملاقات لداخ کے علاقے میں ہونے والے سرحدی تصادم کے بعد پہلی بار ہوئی ہے۔ اس سے دو روز پہلے چین اور بھارت نے لداخ کا سرحدی تنازعہ حل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ اس معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں تاہم کازان میں ہونے والے برکس اجلاس کے دوران زی مودی ملاقات سے تصدیق ہوتی ہے کہ دونوں ممالک معمولی تنازعات کو ان معاشی مفادات کی راہ میں رکاوٹ بنانے کے خواہاں نہیں ہیں جو باہمی تعاون سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اسی لیے اسی ملاقات کے تناظر میں یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ چین، بھارت میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرے گا۔ اسی طرح یہ امکان بھی پیدا ہؤا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی و سفارتی معاملات میں پیدا ہونے والی سرد مہری اب کم ہوگی۔
ہمارے ہمسایہ ممالک کا یہ رویہ پاکستان کے لیے بھی سبق آموز ہونا چاہئے۔ پاکستان کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی خاص معاملہ پر اختلاف کو دو ممالک کے درمیان مکمل تصادم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے۔ بعض معاملات پر اختلافات کے باوجود ممالک کو ایسے پہلو تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن کے ذریعے وہ دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دے سکیں ۔ البتہ پاکستان اور بھارت نے باہمی اختلاف کو دشمنی میں تبدیل کیا ہے اور کھیلوں و ثقافتی شعبوں سمیت ہر معاملہ میں ایک دوسرے کو نظرانداز کرنے کا چلن اپنایا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا اور نئی گروہ بندیوں کے اس دور میں یہ رویہ مفید نہیں ہوسکتا۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے وزیر خزانہ اورنگ زیب ان دنوں آئی ایم ایف سے نئے معاشی پیکیج کی تفصیلات طے کرنے کے لیے واشنگٹن میں ہیں ۔ وہاں ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ چین، پاکستان کے لیے قرضوں کو ری شیڈول کرنے میں مثبت ردعمل دکھا رہا ہے۔ اس بیان سے وہ دراصل عالمی مالیاتی ادارے کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ چین ، پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم کرنے کے علاوہ دیگر شعبوں میں دیے گئے قرضوں کے حوالے سے بھی نرمی کرے گا ۔ اس طرح متبادل فنانسنگ کے لیے آئی ایم ایف کے تقاضے پورے ہوجائیں گے۔ گو پاکستان ایک مشکل معاشی صورت حال کا شکار رہا ہے جس سے باہر نکلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ البتہ پاکستانی حکام کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ چین کے ساتھ دوستی کو ہمالیہ سے اونچی کہہ دینے سے قومی مفادات کا تحفظ نہیں ہوتا۔ اس کے لیے باہمی تعلقات کو ایک دوسرے کے لیے احترام کے اصولوں پر استوار کرنا چاہئے۔ اس تاثر کو خود اپنے لیے اور چینی لیڈروں کے سامنے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ پاک چین تعاون میں صرف پاکستان کا فائدہ ہے۔ چین اگر پاکستان میں سرمایہ لگاتا ہے تو اسے بھی اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سفارتی اور اسٹریٹیجک شعبوں میں بھی پاکستان، چین کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ تاہم دیکھنے ، سننے میں صرف یہی چرچا ہوتا ہے گویا پاکستان مجبور و ضرورت مند ہے اور چین فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدد فراہم کرتا ہے۔
اس تاثر کو تبدیل کرنے کے لیے پاکستانی لیڈروں کو خارجہ پالیسی میں اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ احسان مندی کی بجائے تعاون کی اصطلاح کا استعمال موزوں اور بہتر ہوگا۔ یہ پہلو بھی نمایاں ہونا چاہئے کہ چین ہو یا امریکہ باہمی تعاون میں دونوں ایک دوسرے کے لیے سود مند ہوتے ہیں۔ اسی طرح تعلقات آگے بڑھتے ہیں۔ پاکستان میں یہ مباحث بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ پاکستان کا حقیقی مفاد تو چین کے ساتھ وابستہ ہے لیکن یہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط رکھنا چاہتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسے ادارے اور رکن ممالک کے درمیان تعاون سے سیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے طاقت کے دونوں مراکز سے بیک وقت تعلقات بہتر بنائے جاسکتے ہیں اور قومی ضرورتیں پوری کی جاسکتی ہیں۔ کسی ایک دھڑے میں شامل ہونے کی سفارت کاری قصہ پارینہ ہوچکی ہے۔
یوں لگتا ہے پاکستان یہ حقیقت جاننے کے باوجود اپنی خارجہ پالیسی میں ا س کا اظہار کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ اسی لیے ممالک کے درمیان دوستی اور لین دین کو یوں بیان یا جاتاہے جیسے یہ دو افراد یا خاندانوں کے تعلقات کا معاملہ ہے۔ پاکستانی حکومت کو اس الجھن سے باہر نکلنے اور ممالک سے معاملات کرتے ہوئے اپنی قومی اہمیت و قوت کو مناسب طریقے سے سمجھنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے بھارتی حکومت کا طرز عمل ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔ چین اور امریکہ سے بیک وقت دوستی کی مثال دوکشتیوں میں پاؤں رکھنے کی طرح نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان ان کے درمیان ایم اہم نقطہ اتصال ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اس پہلو پر حکمت عملی تیار کرنے اور اسے مناسب سفارتی زبان میں بیان کرنے کی قدرت حاصل کرنی چاہئے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ