تحریک انصاف نے رات گئے تک وزیر داخلہ محسن نقوی کی اس درخواست کا جواب نہیں دیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے بعد حکومت کسی صورت اسلام آباد میں احتجاج کرنے یا دھرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ البتہ اس بارے میں حکومت سمیت پاکستان کے کسی شہری کو غلط فہمی نہیں ہے کہ پی ٹی آئی احتجاج کی اپنی سی کوشش کرکے رہے گی۔
پارٹی کے بانی چئیرمین عمران خان کا ددو ٹوک پیغام ان کی بہنوں اور اہلیہ نے بار بار عوام تک پہنچایا ہے۔ بلکہ بشریٰ بی بی نے تو تمام ارکان اسمبلی کو ’بندے ‘ لانے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے یہ ’حکم‘ بھی دے رکھا ہے کہ اس بار گرفتار ہونے کا عذر نہیں سنا جائے گا۔ گرفتاری کی صورت میں ہر رکن اسمبلی اپنا نمبر دو اور نمبر تین مقرر کرy اور شامل ہونے والے لوگوں کی تصویریں گاڑیوں کے اندر سے لے کر پارٹی قیادت کو بھجوائی جائیں۔ دوسری طرف حکومت نے اسلام آباد اور راولپنڈی کو کنٹینروں اور دیگر رکاوٹوں سے ’قلعے‘ میں تبدیل کر دیا ہے ۔ نام نہاد حساس علاقوں میں موبائل اور انٹر نیٹ سروس بند رکھنے کا اعلان بھی ہوچکا ہے اور مختلف علاقوں کو ملانے والی موٹر ویز کل رات سے ہی ’تعمیر و مرمت‘ کے لیے بند کی جاچکی ہیں۔ وزیر داخلہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ احتجاج کے لیے گھر سے نکلنے والے کسی شخص کو نہ چھوڑا جائے ۔ ہر ایسے شخص کو گرفتار کرلیا جائے۔ تاہم اس بات کا جواب شاید وزیر داخلہ اور پوری حکومت کے پاس بھی نہیں ہوگا کہ اگر چالیس پچاس ہزار واقعی جمع ہوگئے تو ان میں سے کتنوں کو گرفتار کیا جاسکے گا اور کتنے لاٹھی چارج یا آنسو گیس کے خوف سے بھاگ جائیں گے۔
عمران خان کو یقین ہے کہ وہ اس بار اپنی رہائی کے لیے آخری ہلہ بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے اپنے پیغامات میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دو ہی بار حتمی کال دی ہے۔ ایک کال آٹھ فروری کو دی تھی جب لوگوں نے بڑی تعداد میں ووٹ دے کر تحریک انصاف کو شاندار ’کامیابی‘ دلوائی اور ایک فائنل کال اب دے رہے ہیں کہ اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے لوگ گھروں سے نکل آئیں۔ اس بار عمران خان نے احتجاج کی اپیل کو صرف تحریک انصاف کے کارکنوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے ہر پاکستانی سے کہا ہے کہ جسے اس ملک میں آزادی کی طلب ہے ، اسے گھر سے باہر نکلنا چاہئے۔ عمران خان کا خیال ہے کہ اگر بڑے بڑے شہروں میں چند ہزار لوگ بھی جمع کیے جاسکے تو اس سے میڈیا پر چھائے رہنے اور سوشل میڈیا مہم جوئی کا ایک نیا پرجوش موقع ہاتھ آجائے گا۔ اسی طرح ان کی خواہش ہوگی کہ تیس چالیس ہزار افراد اسلام آباد کی طرف آئیں اور کسی بھی طرح ڈی گراؤنڈ پہنچ کر عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کے لیے مظاہرہ کریں۔
اس میں تو شبہ نہیں ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی طرف سے اس بار سیاسی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے لیے پورا زور لگانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے لیکن یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان کی یہ خواہش کس حد تک پوری ہوتی ہے۔ البتہ تحریک انصاف نے اس وقت تو اپنی تمام توقعات اتوار کو ہونے والے احتجاج سے وابستہ کر رکھی ہیں۔ پارٹی قیادت حکومت کو گرانے اور اسٹبلشمنٹ کو پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر اقتدار میں حصہ داری کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ تاہم عمران خان ایک سال کے دوران اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اسٹبلشمنٹ یا فوجی قیادت سے کسی قسم کے ’مذاکرات‘ کی رعایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ سوال ہے کہ کیا چوبیس نومبر کو کوئی ایسا وقوعہ رونما ہوسکتا ہے جس میں ان کی یہ خواہش پوری ہوجائے ۔
عمران خان یا تحریک انصاف اس مقصد کے لیےکوئی واضح حکمت عملی پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں شدید شبہ موجود ہے کہ اگر پارٹی واقعی تمام تر پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود قابل ذکر تعداد میں لوگوں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ ہجوم اپنے اعلان شدہ مقاصد کیسے حاصل کرے گا۔ ان میں سر فہرست عمران خان سمیت تمام اسیران کی رہائی ہے۔ ان تمام لوگوں کے خلاف ملکی قانون کے مطابق مختلف نوعیت کے مقدمات قائم ہیں جن سے کوئی عدالت ہی انہیں رہائی دے سکتی ہے۔ حکومت کے پاس یہ اختیار ہی موجود نہیں ہے۔ احتجاج کے دباؤ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں تحریک انصاف کیسے عدالتوں کو قائل کرے گی کہ کسی قانونی بنیاد کے بغیر تمام گرفتار شدہ لوگوں کو رہا کردیا جائے؟ پارٹی کی واحد امید یہ ہے کہ سڑکوں پر ہونے والے ہنگاموں کی وجہ سے حکومت استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائے گی اور اس طرح جو سیاسی خلا پیدا ہوگا ، اس میں اسٹبلشمنٹ کو عمران خان کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ اس امکان کو نظر انداز نہ بھی کیا جائے تو بھی یہ قیاس کرنا مشکل ہے کہ شہباز شریف اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔ یا اسٹبلشمنٹ عمران خان کے نمائیندوں کے ساتھ بات چیر شروع کردے گی۔
دیگر مطالبات میں جعلی مینڈیٹ کی بجائے ’اصلی مینڈیٹ‘ والی پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع دینا شامل ہے۔ اس مطالبے کو بھی کسی ہجوم کے ذریعے پورا کرانا عملی طور سے ممکن نہیں ہے۔ پارٹی ضرور حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے عوامی احتجاج کا آپشن اختیار کرے لیکن اس قسم کے طریقے اسی وقت کامیاب ہوتے ہیں جب مطالبہ پورا کرانے کے لئے لائحہ عمل تیار ہو۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف ’تخت یا تختہ‘ کے سوا کسی دوسرے طریقے کو ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ حالانکہ لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے سے پہلے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھاری نمائیندگی کی بنیاد پر پارٹی کو سیاسی بنیاد تیار کرنی چاہئے تھی تاکہ جب دباؤ میں اضافہ ہو تو حکومت میں شامل پارٹیاں سیاسی رعایت دینے کے لیے پارلیمانی لیڈروں سے بات چیت کریں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت عمران خان جیل میں بند ہیں اور پارلیمنٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ دوسرے کسی لیڈر کو کوئی فیصلہ کرنے یا کسی حل پر متفق ہونے کا ’اختیار‘ نہیں ہے۔
عمران خان کا تیسرا مطالبہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منسوخی ہے۔ یہ کام بھی یا تو سپریم کورٹ کر سکتی ہے یا پھر پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے یہ مقصد حاصل کیاجاسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے پا س یہ اکثریت محض ’تصوراتی‘ طور سے موجود ہے۔ وہ مروجہ پارلیمانی طریقوں سے یہ مقصد حاصل کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ ورنہ وہ مخصوص سیٹیں لینے کے لیے اپنے ارکان کو سنی اتحاد کونسل کا رکن بننے کا حکم نہ دیتی یا چھبیسویں ترمیم کے موقع پر اپنی ساری پارلیمانی طاقت مولانا فضل الرحمان جیسے لیڈرکے ہاتھ میں نہ تھما دیتی۔ ان حالات میں عمران خان کی خواہش و حکم پر اگر واقعی چند ہزار لوگ اسلام آباد پہنچ کر حکومت کو ہراساں کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کوئی نہیں جانتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ بدترین قیاس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کوئی ایسا المناک تصادم ہوسکتا ہے جس میں انسانی جانیں ضائع ہوں اور بعد میں ان لاشوں پر سیاست کے ایک نئے باب کا آغاز کیا جائے۔
تحریک انصاف کے برعکس حکومت کے پاس بھی کوئی ٹھوس سیاسی منصوبہ نہیں ہے۔ پہلے تو تحریک انصاف کے احتجاج کو محض نعرے قرار دے کر مسترد کرنے کا رویہ اختیار کیاجاتا ہے۔ جب معاملہ سنجیدہ ہونے لگے تو شہر اور موبائل و انٹرنیٹ سہولت بند کرکے احتجاج ناکام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت کو خود ہی سوچنا چاہئے کہ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے کس وقت تک حکمرانی کا موجودہ طریقہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ فرض کرلیا جائے کہ اتوار کے روز راستے روکنے، سڑکیں بند کرنے، شہروں کے درمیان ٹریفک میں رکاوٹ ڈال کر احتجاج ’ناکام‘ بنا دیا جاتا ہے تو کیا حکومتی پالیسیوں سے ناراض عناصر کچھ عرصہ بعد اسی طرح دوبارہ دارالحکومت کی طرف دھاوا نہیں بول دیں گے؟ احتجاج کرنے والے لوگوں کے ساتھ آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ جاری رکھ کر تو کوئی حکومت فعال طریقے سے کام نہیں کرسکتی۔ موجودہ حکمران جمہوری طریقے سے منتخب ہوکر اقتدار سنبھالنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن ان کے سارے ہتھکنڈے غیر جمہوری اور عوام دشمن ہیں۔ شہبازشریف کی اس بات کو صدق دل سے مانا جاسکتا ہے کہ وہ خلوص دل سے ملکی معیشت بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن ایسی نیک نیتی کا دعویٰ تو ملک کے لاکھوں دوسرے لوگ بھی کرسکتے ہیں۔ تو کیا ان سب کو بھی وزیر اعظم بنا دیا جائے؟
اظہار رائے اور احتجاج روکنے کے حکومتی طریقوں سے نہ تو ملک آگے بڑھے گا اور نہ ہی اسے جمہوری بند و بست کے مطابق درست مانا جائے گا۔ اس وقت حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان 8 فروری کے انتخابات اور سانحہ9 مئی کا احتجاج و بنیادی اختلافی معاملات ہیں۔ بات بڑھانے کی بجائے ان دونوں معاملات پر یا تو مل کر کوئی سیاسی حل تلاش کر لیا جائے یا پھر انتخابات کی تحقیقات کے کسی قابل قبول طریقے پر اتفاق کیا جائے۔ اگر یہ دونوں کام ممکن نہیں ہیں تو حکومت اپنی سیاسی قوت کو لاٹھیوں، بندوقوں اور آنسو گیس سے ثابت کرنے کی بجائے، احتجاج اور مظاہرے کا حق تسلیم کرے اور یوں خود کو عوام کی نمائیندہ اور طاقت ور ثابت کرے۔ غیر جمہوری طریقوں سے اپنی طاقت یا مقبولیت کا دعویٰ درست ثابت کرنے کی کوشش کرنے والی کوئی بھی حکومت درحقیقت کمزور اور لاچار ہوتی ہے۔پاکستان میں طویل مدت سے جاری یہ ناقص حکمت عملی تبدیل کرنا ضروری ہے۔ اس کا راستہ یا تو نئے انتخابات کا انعقاد ہے یا سیاسی احتجاج کو اقتدار اور اتھارٹی کے لیے خطرہ سمجھنے کا وتیرہ تبدیل ہونا چاہئے۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ