ملتان میں حرم گیٹ کے عین سامنےوالا قدیم علاقہ اندرون شہر جیسا ہے۔ اس سڑک کے بائیں جانب کے علاقے کو بازارحسن یا چکلہ بھی کہتے ہیں۔ ایک روز میں اِسی سڑک پر تھوڑا آگے چلا گیا، ایک جانی پہچانی جگہ معلوم پڑی۔تنگ و تاریک گلیاں ، کسی کسی جگہ پر چھوٹے چھوٹے کوچے،چلتے چلتے روڈ کراس کیا اور سڑک کے دوسری جانب ایک کھلی جگہ پر آگیا،یہاں ایک چھوٹا سا میدان اوربزرگ شاہ رسالؒ کا دربار ہے،دربار کے دائیں جانب دیوار کے ساتھ ایک تھڑاہے،تھڑےکے ایک کونےپربیری کا درخت ہے،درخت سے کچھ فاصلے پر اکھاڑا ہے، پاس ہی تانگے کےٹوٹے ہوئے بمبو کے ساتھ نہایت بوسیدہ حالت میں کھڑے ہوئےپہیے ٹوٹ کر زمین میں دھنسے ہیں، بیری کے درخت کے نیچے تھڑے پر ایک بزرگ آدمی بیٹھاہے جو اب چلنے پھر نے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔یہ جگہ مانوس لگتی تھی مگر یہ طے تھا کہ پہلے مَیں یہاں سے کبھی نہیں گزرا۔ پھر کہاں دیکھی تھی یہ جگہ؟ بہت دیر دماغ میں اُلجھن رہی۔ آخر ایک اجنبی سے اِس جگہ کے بارے میں پوچھا، اُس نے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور کہا:’’ لے ،توں ایس بابے تے ایس تھاں نوں نی جاندا،اے مستو پہلوان دا کھاڑا اے، ایس بابے دی وی اک بڑی کہانی اے۔‘‘
ایک روز شام کے وقت پریس کلب بیٹھے ملتان کے سینئر صحافیوں سردار ظفر اللہ خان اور اعظم جہانگیر سے بات کی،دونوں کرائم کی بیٹ سے وابستہ ہیں،یہ مہربان مجھے ساتھ لے کر اسی اکھاڑے پر پہنچ گئے،مستو پہلوان پرجوش انداز میں ملے، اپنے ساتھ تھڑے پر بٹھا لیا۔ہم نے اپنی آمد بارے بتایا۔
مستوپہلوان نے دونوں ہاتھوں کی درمیانی انگلیوں سے اپنی سفید مونچھوں کو درست کرتے ہوئے گفتگو کی ابتدا کی:’’ میرا نام غلام مصطفی بٹ ہے،پہلوانوں کو عموماً بچپن میں پیار سے رکھے جانے والے ناموں سے ہی پکارا جاتا ہے،مجھے اسی وجہ سے ’’مستو ‘‘ کہا جاتا ہے،لاہور کے معروف گھرانے سے تعلق ہے ،چونا منڈی ہمارا آبائی علاقہ ہے، ن لیگ کے اسحاق ڈار کو تو جانتے ہوں گے؟ ان کے والد کا نام بودی ڈار تھا،وہ میرے سگے چچا تھے۔‘‘
تھڑے پر بیٹھے مستوپہلوان نے پیتل کے ایک مخصوص باریک پائپ میں سگریٹ ٹھونسی،ماچس سے ایک تیلی نکال کر سگریٹ سلگایا،قریب کھڑے لڑکے کو آواز دے کر کہا:’’ جا! نس کے جا، چار چاواں لے کے آ‘‘اپنےجسم کو تھوڑا چھنکایا پھر بولے:’’والد صاحب ایک نامی گرامی پہلوان تھے،محمد شریف عرفا شیفا امرتسریا۔وہ بھولو پہلوان کےتایا زاد تھے۔پاکستان کے ہر شہر میں کشتی کھیلنے جایا کرتے تھے،ان دنوں ملتان،لودھراں ،بہاول پور،ڈی خان میں بھی فن پہلوانی عروج پر تھا، بہت بڑے بڑے دنگل ہوا کرتے تھے،والد صاحب دنگل لڑنے ان علاقوں میں آیا کرتے تھے۔ انہوں نے سوچا دنگل کے ساتھ ساتھ کوئی کاروبار بھی ہونا چاہیے ۔لاہور میں ’’ آزاد پاکستان ‘‘کے نام سے ہمارے بزرگوں کا ٹرکوں کا اڈہ تھا،وچونکہ اکثر جنوبی پنجاب کے علاقے میں ہی رہتے تھے،اس لیے انہوں نے رحیم یار خان سے پہلے خان پور شہر آتا ہے،یہاں ’’ آزاد پاکستان ‘‘کے نام سے ٹرکوں کا اڈہ قائم کرلیا۔مجھے یہ سال تو یاد نہیں البتہ یہ معلوم ہے کہ وہ ایوب خان کادور تھا۔جب والد صاحب لاہور سے مستقل جنوبی پنجاب منتقل ہوئے،میں ان دنوں کم عمر تھا۔‘‘
سامنے اکھاڑے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’یہاں جس جگہ آپ میرے ساتھ بیٹھے ہیں یہ تین ،چار ہزار سال پرانی تاریخ کا حامل اکھاڑہ ہے،صدیوں سے فن پہلوانی کے شوقین یہاں زور کرتے چلے آرہے ہیں۔متحدہ ہندوستان سے جو بھی پہلوان کشتی کرنے ملتان کی طرف آتا تھا،اس کا قیام اسی اکھاڑے میں ہوتا تھا،وقت کے ساتھ اس اکھاڑے نے کئی نام تبدیل کیے،اس اکھاڑے کا نام اب ’’ اکھاڑہ مستو پہلوان‘‘ ہے۔یہ جو اکھاڑے سے ملحقہ دربار ہے یہ بھی 6 سو سال قدیم ہے۔اس بزرگ ہستی کا نام سخی شاہ رسال ؒ ہے۔
مستو پہلوان نےجیب سے کنگھی نکالی،سفید چاندی کی طرح چمکتے بالوں میں درمیان سے مانگ نکالتے ہوئے گفتگو کو آگے بڑھایا:’’اکھاڑے معروف پہلوانوں کے نام سے منسوب ہوتے ہیں،والد صاحب شیفاپہلوان اس کے سرپرست بنے،اس کے بعد اب اس اکھاڑے کی سرپرستی میرے ذمے ہے۔ملتان میں والد صاحب نے ’’ آزاد پاکستان‘‘ سے ایک ٹرک اڈہ بنا لیا۔زندگی کا پہیہ گھومتا رہا،کبھی خان پور چلے جاتے ،کبھی ملتان بیٹھ جاتے،کبھی لاہور ۔شاہ عالمی چوک میں ہمارے بھانجے ٹیپو کا ٹرکاں والاکا اڈہ ہوتا تھا،ٹیپو دشمنی میں قتل ہوگیا۔وہ بلے پہلوان کا بیٹا تھا۔ٹیپو کے اڈے کا نام ’’پاک انٹرنیشنل‘‘ تھا،ہمارے اڈے کا نام’’ آزاد پاکستان‘‘ ہے۔بابا حنفیا گروپ کے ساتھ ٹیپو کی دشمنی تھی، دونوں گروپ اس لڑائی میں مارے گئے۔‘‘
گفتگو جاری تھی ،مستو پہلوان اپنی یادیں کرید رہے تھے،ایک دم چہرے پر اداسی پھیل گئی ،کہنے لگے:’’دس ،گیارہ برس کی عمر میں والدصاحب نے مجھے اکھاڑے میں زور کرانا شروع کرادیا تھا،اسی اکھاڑے میں پہلوانی کی ابتدا کی تھی۔برا وقت پوچھ کرنہیں آتا،اچانک آفت آگر تی ہے،میں بھر پور جوان تھا،ملتا ن کانامور پہلوان تھا،بہت اچھی کشتیاں لڑیں۔پھر اچانک ملتان کے رہائشی سعادت بلوچ کے ساتھ میری دشمنی شروع ہوگئی۔سعادت بلوچ،جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کا بھائی تھا، بڑا اتھرا نوجوان تھا۔ سعادت کے والدین اور بھائی تو بہت اچھے تھے،اسےپتہ نہیں کیا ہوگیا تھا۔‘‘
پروفیسر صلاح الدین حیدر سعادت بلوچ کے بارے کہتے ہیں:’’ سعادت ایک خوبصورت نوجوان تھا، جہاں تک مجھے یاد ہے وہ کم گو تھا، کالج میں اس کی ایسی کوئی حرکت نہیں سنی،البتہ مارشل لاکیخلاف احتجاجی جلسوں میں اسے دیکھا کرتا تھا،سلجھا ہوا طالب علم تھا،ایک روز اخبار میں تصویر دیکھی کہ سعادت بلوچ نے کسی کوچوان کو قتل کردیا ہے،غالباً یہ اس کا پہلا قتل تھا۔‘‘
خلیل بھٹی بتاتے ہیں:’’ سعادت کی والدہ سکول ٹیچر تھیں، بچوں کو گھر پر دینی تعلیم دیتی تھیں،اس کے والد بشیر احمد خان ڈاکٹر تھے،سعادت خود بھی اچھا نوجوان تھا ، سعادت بلوچ اور لیاقت بلوچ کا گھر سوتری وٹ کے علاقے میں تھا، سمجھ نہیں آسکی ایک بیٹا مذہبی رجحان رکھتا تھا دوسرا غلط راستے پرکیسے چل نکلا،غلط سوسائٹی کسی کو اچھا نہیں رہنے دیتی،سعادت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔‘‘
مستو پہلوان نے الٹے ہاتھ کی چھوٹی انگلی سےسگریٹ کا گل صاف کیا،یادوں کی پٹاری کا منہ کھولتے ہوئے بتایا:’’یہ چار ،پانچ لڑکوں کا گروپ تھا،سعادت بلوچ، عرفان بلوچ، شمشیر بٹ،حمیدو خان اور ایک تھااقبال نیازی۔یہ سب لڑکے اکٹھے آتے اور اس علاقے میں ان کا جو جی چاہتا کرتے،ان کو کوئی روکنے والا نہیں تھا۔میں اس گروپ کو کھٹکتا تھا، انہو ں نے میری طر ف منہ کرلیا۔‘‘ سردار ظفراللہ خان کہتے ہیں:’’ بازار حسن کی ایک خاتون بلقیس مستو پر فدا تھی،اسی خاتون کو سعادت بھی چاہتا تھا،تصادم کی ابتدا بھی اسی بنا پر ہوئی۔‘‘
قدرت کو جو منظور ہوتا ہے ،ہو کر رہتا ہے،مستو پہلوان نے پہلی لڑائی کا قصہ کچھ یوں شروع کیا:’’ میرے اکھاڑے کے پیچھے جو ا کراتے تھے،یہ ملتان شہر کا ان دنوں بہت بڑا جوئے کا مقام تھا۔ملک نواز عرف نوازا،اس جوئے کے اڈے کا مالک تھا اور سعادت اس کا حصے دار تھا۔‘‘ صحافی اوراپنے بزرگ دوست سردار ظفر اللہ خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے:’’ خان صاحب کو سب معلوم ہے، انہوں نے اس دور میں اس جوئے کے اڈے کے بارے میں بہت لکھا۔‘‘
سردار ظفر اللہ خان بولے:’’ پولیس نے اس اڈے کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی، اس دور میں چودھری شفیع نامی ایک انسپکٹر ہوا کرتا تھا،جو ان کی سرپرستی کرتا تھا۔‘‘
مستو پہلوان نے اپنی یادوں کو آگے بڑھایا،کہا:’’ ایک روز سعادت بلوچ چار پائی سڑک کے درمیان ڈال کر بیٹھا تھا، عرفان، شمشیر بٹ،حمیدو خان اوراقبال نیازی اس کے پیچھے بیٹھے تھے۔میں بازار جار ہا تھا۔سعادت نے پیچھے سے آوازہ کسا:’’ اے پلوان تےپٹھیاں ماردے نے،اسی سدھیاں مارنے آں‘‘۔میں واپس مڑا،چار پائی کے قریب آیا،سعادت بلوچ سے کہا،میرا تیرا کوئی واسطہ نہیں پھر ’’سدھیاں پٹھیاں ‘‘سنانے کی کیا ضرورت۔سعادت کے چہرے کا رنگ سرخ ہوگیا،اسے میری طرف سے جواب کی توقع نہیں تھی، کہنے لگا:’’ہم نے بدمعاشوں کی ساری کہانیاں ختم کردیں،بس تم بچے ہو۔‘‘
قریب بیٹھے سینئر صحافی اعظم جہانگیر نے اثبات میں سر ہلایا،بولے:’’پہلوان نے درست کہا ،ملتان کا کوئی غنڈہ، بدمعاش ان کے آگے دم نہیں مار تا تھا،سب خوف کھاتے تھے، سعادت کے گروپ نے ملتان میں راج قائم کررکھا تھا۔سعادت کی پولیس سے کئی بارمدبھیڑ ہوئی وہ بچ نکلتا تھا۔‘‘
مستو پہلوان نےسگریٹ کا ایک لمبا کش لیا،دھوئیں کی ایک لمبی لہر چھوڑتے ہوئے بولے:’’ میں نے سعادت کے کندھے پر ہاتھ رکھا،کہا سعادت! میں بد معاش یاغنڈہ تو ہوں نہیں، پہلوان ہوں۔میری خواہش ہے تم مجھ سے دور رہو،یہ اچھی بات ہوگی۔سعادت نے پستول تان لیا،ٹو،ٹو کا سفید رنگ کا پستول تھا اس کے پاس،اس کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر مجھے غصہ آگیا، میں نے کہا:’’اس طراں دے پستول میں دبکا مار کے کھو لینا واں‘‘
مستو پہلوان دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں انگلیاں پھنسا کرہلایا، اور بولے:’’وہ جان میں کمزور نہیں تھا،پچاس پچاس چانپ کھا جایا کرتا تھا، ان دنوں دو روپے کی ایک چانپ ہوا کرتی تھی،پہلوان تو تھانہیں لیکن تھاسخت جان۔میری نظریں مسلسل اس کے چہرے پر تھیں، اس کےارادے خوفناک تھے،میں نے سعادت بلوچ سے کہا:’’ تیرے اس سفید پستول کی گولیاں میرے بدن میں نہیں گھس سکتیں۔‘‘
اتنے میں میرے والد شیفا پہلوان بھی آگئے،سعادت کو کندھے سے ہلاکر بولے:’’ کاکا ،تینوں کتھے درد اے،تیرا کتھوں علاج شروع کرئے،توں آئے دن کار سڑک وچ کھڑی کر کے بدمعاشی شروع کردینا ایں۔‘‘
سعادت کو اپنے دوستوں اور جوانی پر غرور تھا، مجھے حکم دینے کے انداز میں بولا:’’ مستو ،تیرے لیے بہتر ہے چکلے والے چوک میں ہاتھ اوپر کر کے کھڑا ہوجا،میری تیری بات ختم ، اس نے خود ہی میری سزا تجویز کرلی۔‘‘
والد صاحب سعادت کو سمجھانے کے انداز میں بولے:’’ بچیا! میں اپنے پتر نوں بن کے رکھیا اے،مجبور نہ کر میں اس دی رسی کھول دیاں۔‘‘
وہ کسی وحشی ناگ کی طرح شوکریں مار نے لگا،بولا:’’ مستو کی رسی کھول دو،بتا رہا ہوں،میں اسے مار دوں گا۔‘‘
والد صاحب نے اس کے سامنے ہی کہا:’’مستو! آج سے تمہیں کھلی چھٹی ہے،پھر سعادت سے کہا تمہیں بھی چھٹی ہے، دونوں آزاد ہو،جو جس کو مار سکتا ہے،ماردے۔‘‘
سعادت کار میں بیٹھ کر چلا گیا،ہم اکھاڑے میں آگئے،والد صاحب نے مجھے اپنے پاس بٹھایا،بولے:’’ مستو! اپنی جان کی حفاظت کرنا ہر کسی کا فرض ہے،تم زمین کے دس فٹ نیچے چلے گئے تو میں تمہیں لانہیں سکوں گا،(یعنی مرنے کے بعد دفن ہوگئے)،ہاں تم اگر جیل چلے گئے،دس قتل بھی ہوگئے تو تجھے لے آئوں گا۔‘‘
اتنے میں ہمارے لیے چائے آگئی، کپ میری جانب بڑھاتے ہوئے کہانی کی اگلی قسط شروع کی:’’پہلے دن منہ ماری کے بعد سعادت چلا گیا، اگلے دن حسب عادت پھر اسی چوک پر آگیا،سڑک کے درمیان میں اپنی گاڑی کھڑی کی، وہ گاڑی سے نکلا، اس کے ساتھ شمشیر بٹ اورعرفان بلوچ بھی تھا۔یہ پیدل چلتے ہوئے آئے،یہاں ایک لڑکا کھڑا تھا،میں یہاں پر ایک کمرے میں بیٹھا تھا،وہ چھپر نما کمرہ ہوتا تھا،میں لیٹا ہوا تھا،وہ لڑکا بھاگتا ہوا آیا ،بتانے لگا،پہلوان جی سعادت آرہا ہے،میں نے ابھی ناشتہ بھی نہیں کیا تھا، میں نے لاچا کھول کر دوبارہ سے اچھی طرح باندھا،تکیے نے نیچے پستول رکھا ہوا تھا،اسے ہاتھ میں تھام لیا۔چلتا ہوا میں بھی سڑک پر آگیا۔سعادت بھی اتنے میں پہنچ گیا۔میں نے اسے کہا:’’ نکال پستول،میں تیرے ڈرامے سن سن کے تنگ آگیا ہوں‘‘وہ اسلحہ نہ نکال سکا،خوف سے بھاگنا شروع کردیا۔سڑک پر بارش کا پانی تھا،وہ پھسل کر سڑک پر گر گیا۔اتنے میں بھاگتا ہوا میں بھی اس کے سر پر پہنچ گیا،میں نےپستول نکال کر سیدھا فائراس کے سینے میں اتار دیا۔وہ ہسپتال چلا گیا،اور میں جیل۔مجھے سنٹرل جیل میں بند کردیا گیا،دو ماہ بعد میری ضمانت ہوگئی،وہ بھی بچ گیا۔دوواپس اسی علاقے میں آگئے۔ان دو ماہ کے دوران اس نے اقبال نیازی نامی ایک اشتہاری سے دوستی لگا لی۔‘‘
اعظم جہانگیر اس کی تفصیل بتاتے ہوئے بولے:’’ اقبال نیازی نے سید نور شاہ کو قتل کیا تھا،وہ سب انسپکٹر اور درویش صفت پولیس افسر تھے۔ڈیرہ اڈہ کے قریب فرینڈز ہوٹل کے سامنے قتل ہوا تھا۔وہ ریڈ کرنے گئے تھے،نور شاہ کے ساتھ جو پولیس اہلکار تھے وہ موقع سے فرار ہوگئے،نور شاہ نہ بھاگے،اقبال نیازی نے نور شاہ کے پیٹ میں چھریاں ماریں۔نورشاہ اللہ کے پیارے ہوگئے،نیازی مفرور ہوگیا۔اس قتل سے پہلے بھی وہ سعادت کا دوست تھا۔‘‘مستو پہلوان بولے:’’میرا تو اس علاقے میں گھر ہے،اکھاڑہ بھی ادھر ہی ہے،جو آج تک ہے،سعادت دوسرے علاقے میں آکر بدمعاشی کرتا تھا۔جو بھی بدمعاشی کرتا ہے،اس کے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ ہوتاہے، اس کا بھائی لیاقت بلوچ ایم این اے تھا،اسی وجہ سے اس کا خوف اترا ہوا تھا۔‘‘
سعادلت بلوچ کی اقبال نیازی سے دوستی بارےبتایا:’’ اقبال نیازی کی علاقہ غیر میں اسلحہ کی دکان بھی تھی،’’پنجاب اسلحہ سٹور‘‘۔سعادت اس کے پاس چلا گیا،اسے کہا میرا اب ملتان میں کچھ نہیں بچا،مجھے مستو نے گولی ماری ،جب تک اسے قتل نہیں کروں گا ،شہر میں عزت نہیں بنے گی۔دونوں واپس ملتان آئے،ان کے ساتھ ’’آصف بچھ‘‘ بھی تھا۔آصف بچھ پیر مکی لاہور کا رہائشی تھا اس نے،تیس پینتیس لوگ قتل کیے ہوئے تھے،بڑا نامی گرامی بدمعاش تھا۔وہ اتنا دلیر تھا اس نے بھاٹی تھانے کے اندر داخل ہوکر ایس ایچ او کو قتل کیا تھا۔ایک چوتھا شخص بھی تھا،ادریس ٹھیلا بٹ وہ بھی بہت بڑا قاتل تھا،یہ سب اکٹھے ہوکر میرے خون کے پیاسے ہوگئے۔‘‘
خلیل بھٹی اس گروپ بارے تفصیل بتا تے ہیں:’’ یہ ملتان کا سب سے معروف اور طاقت ور گروپ تھا،سارا ملتان انہیں بھتہ دیتا تھا،کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی انکار کردے،سعادت بلوچ اپنا کڑا بھیجا کرتا تھا ،نشانی کے طور پر،جس چیز کی ڈیمانڈ کی جاتی تھی فوری پہنچتی ۔‘‘
عرفان بلوچ بارے خلیل بھٹی کہتے ہیں:’’اس سارے گروپ میں عرفان سب سے جی دار لڑکا تھا،مضبوط جسم کا مالک تھا،69 میں بلوچ رجمنٹ میں بھرتی ہوا،عرفان نے71 کی جنگ بھی لڑی،پھر وہ فوج سے بھگوڑا ہوگیا،اسے بھگوڑا ہونے پر دو ماہ سزا ہوئی،جیلیں مجرموں کی اصلاح کے لیے بنائی جاتی ہیں مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے،جیل میں عرفان کی نور گلی نامی14 نمبر چونگی کے رہائشی ایک بدمعاش سے دوستی ہوگئی جو اسے جرم کی دنیا میں لے گئی۔31 دسمبر1978 کو پولیس سے عرفان کاایک یاد گار مقابلہ ہوا،عرفان گھر کے چوبارے پر تھا، پولیس نے آنسو گیس کے بے تحاشا شیل پھینکے،عرفان با آسانی فرار ہوسکتا تھا،مگر نہیں بھاگا،ا س نے مقابلہ کیا،عورتوں نے اسے بھاگ جانے پر مجبور بھی کیا مگر اس نے ایسا نہیں کیا،عورتوں نے بتایا کہ جب آخری گولی بچی تو اس نے خود کو مارلی،وہ پولیس کے ہاتھوں نہیں مرا۔عرفان نے کچھ عرصہ زینتھ سینما پر بھی کام کیا،سینمائوں پر بھی بدمعاشی چلتی تھی،اقبال نیازی نے ایک دن سینما پر بدمعاشی کرنے کی کوشش کی،عرفان نے اسے خوب دھویا،اس نے بھانپ لیا کہ بہت بہادر لڑکا ہے،پھر اس نے عرفان سے دوستی لگالی اور اسے خوب استعمال کیا۔‘‘
ہم نے پوچھا ،کسی نے صلح کرانے کی کوشش نہیں کی؟۔مستو پہلوان بولے:’’ ان لوگوں نےمیرے قتل کا پروگرام بنایا،جب یہ سب لوگ اکٹھےہو کر ملتان آئے تو کوئی ایک ہفتہ بعد نوشاب سینما کے پیچھے خواجہ کالونی میں ایک ڈیرہ تھا،ملک مصطفی اس کا نام تھا،ملک مصطفیٰ کے ساتھ سعادت کی جھڑپ ہوئی تھی،ایک اور شخص یہاں رہتا تھا اس کا نام تھا’’ مینوں پہلوان‘‘وہ گامے کا بیٹا تھا، نعمت کدہ ہوٹل کا مالک تھا۔ یہ دیسی گھی کے کھانوں کے حوالے سے ملتان کا سب سے معروف ہوٹل تھا۔لوگوں نے قرآن پاک پر ان کی صلح کرادی۔سعادت نے لوگوں سے کہا ملک اور مینو ں سے تو صلح کرارہے ہو،مستو سے بھی کرائو،کچھ معتبر لوگ میرے پاس آئے،انہوں نےمیرے والد سے بات کی،میرے والد نےکہا’’پانچ منٹ سے پہلے اس جگہ سے چلے جائو‘تم لوگ چودھری بن کر آگئے ،نہیں جانتے وہ کیسا شخص ہے،بعد میں تم لوگ ذمہ دار نہیں بنو گے،چلے جائو اور جا کر سعادت کو بتا دو،کوئی صلح نہیں ہوگی۔‘‘
آپ کے والد نے صلح سے انکار کیوں کیا؟مستو پہلوان زیر لب مسکرائے اورکہا:’’اب سنو! وہ مجھے دھوکے سے قتل کرنا چاہتے تھے،میرے والد کا خدشہ بالکل درست ثابت ہوا، صلح کے چوتھے دن دونوں کومار دیا،مارنے والوں میں سعادت ،عرفان،اقبال نیازی اور آصف بچھ تھا۔ایک لڑکی بھی اس واقعے میں قتل ہوئی۔اس کیس میں یہ لوگ اشتہاری ہوگئے۔‘‘
سر دار ظفراللہ خان اس تہرے قتل بارے میں بتانےلگے:’’ اس دور میں یہ بات بھی مشہورہوئی کہ کسی نے مخبری کی کہ مستوپہلوان اس ڈیرے پر بیٹھا ہے،لیکن ایسا نہیں ہوا،مستو پہلوان کی جگہ ڈیرے کا مالک مصطفیٰ اپنے دوست سمیت قتل ہوگیا۔‘‘مستو پہلوان بولے:’’ اقبال نیازی یہ چاہتا تھا کہ سعادت میرے ساتھ اشتہاری ہو،کیونکہ ملتان میں دولت تو سعادت پیدا کرتا تھا،پھر ایسے ہی ہوا،ا ن سب نے مل کر ملتان سے بہت مال اکٹھا کیا۔
سنا ہے سعادت نے ایک بار بہت خوفناک حملہ کیا تھا آپ پر؟مستو پہلوان نے گہر ی سانس لی،دونوں ہونٹ دانتوں کے درمیان دبائے ،کچھ دیر خاموشی کے بعد بولے:’’ اس قتل کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا،اسی شاہ رسالؒ دربار پر قوالی کی محفل ہورہی تھی،عزیز میاں قوال آئے ہوئے تھے،وہ پان بہت کھایا کرتے تھے، انہوں نے مجھے پان لانے کیلئے کہا،کسی لڑکے کو بھیجنے کے بجائے میں خود ہی چلا گیا،ایک پان میں نے خود کیلئے بنوایا، کچھ پان عزیز میاں کیلئے پیک کرنے کو کہا،اسی دوران ایک موٹر سائیکل پر تین لوگ آئے، ٹھیلا بٹ،آصف بچھ اور نعیم خان،انہوں نے آتے ہی موٹر سائیکل روک کر دو تین منٹ میں مجھ پر 60 کے قریب گولیاں فائر کیں،لوگ خوف کے مارے پھٹوں کے نیچے چھپ گئے،بازارچند منٹ میں سنسان ہوگیا،وہ فائرنگ کرتے ہوئے واپس مڑے،میرا ہاتھ بھی پستول پر جا لگا،میں نے بھی فائرنگ شروع کردی،وہ فرار ہوگئے، سیدھے لاہور چلے گئے،جاتے ہی وہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔‘‘
وہ تو مارے گئے،سعادت کا کیا بنا؟’’ ہاں یہ بڑی دلچسپ اور تکلیف دہ با ت ہے،کہانی نے ایک نیا رخ اختیار کیا‘‘مستو پہلوان نے واقعہ شروع کیا:’’ سعادت تھوڑے عرصے بعدپکڑا گیا،نور اکبر بچہ کے ڈیرے سے،اختر بچہ اور نور اکبر بچہ معروف زمیندار تھے،بستی بچ میں رہتے تھے۔ان کے ساتھ سعادت کی دوستی تھی۔میری عدالت میں پیشی تھی سعادت والے کیس میں،اب میں نے تاریخ پر جانا تھا،ہفتے کا دن تھا،میراایک دوست مرزا وحید تھا،وہ مرزائی تھا،سعادت کو لاہور میں ملا،اس نے میرے خون کا سودا کرلیا،غدار دوست اسے اپنے ساتھ ملتان لے آیا،چوک فوارہ کے نزدیک باغ لانگے خان ہے اس کے سامنے جہاں یعقوب خان خاکوانی کی کوٹھی ہے اس کے ساتھ میاں خالدمڑل کی کوٹھی تھی وہ ایم پی اے بھی رہا ہے، یہاں پر لے آیا۔منصوبہ یہ تھا کہ یہا ں سے تانگے میں کچہری جانے کیلئے مستو گزرے گا،یہیں اپنا کام کرلینا۔اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا،اس کوٹھی کے ساتھ ہی ایک گھر تھا،میاں مشکور مڑ ل کا،وہ لوگ قصبہ مڑ ل کے زمیندار تھے۔ہفتے کو میری پیشی تھی،جمعہ کے روز اس گھر کے صحن میں بیٹھے میرے قتل کی منصوبہ بندی کررہے تھے،قدرت بہانے بناتی ہے،میاں مشکور کسی کام سے اپنے مکان کی چھت پر گئے، انہوں نے سعادت کو دیکھ لیا،وہ خاموشی سے نیچے اترے اور تلاش کرتے ہوئے سی آئی اے پولیس کے دفتر آگئے، چودھری شریف انسپکٹر ہوتے تھے،ان کو بتایا،چودھری شریف نے اپنے ایس ایس پی سعادت اللہ خان کو بتایا،یوں سمجھیں ملزم پولیس کے ہاتھ میں تھا،اب یہاں ان سے ایک غلطی ہوگئی،پولیس کی گاڑی کسی ایسی جگہ کھڑی کرتے جہاں اسے شک نہ گزر تا، انہوں نے عین دروازے کے قریب لا کر کھڑی کردی،پولیس کی دیگر گاڑیاں بھی تھیں،سعادت بلوچ نے دیکھ لیا،پولیس آگئی ہے۔چودھری شریف نے ایک جوان سے دروازے کو ٹانگیں مروائیں،دروازہ ٹوٹ گیا،اندر داخل ہونے لگےتو سعادت نےبرسٹ ماردیا،دوتین گولیاں چودھری شریف کو لگیں،وہ شدید زخمی ہوگئے،سعادت کو معلوم تھا اندر رہا تو موت یقینی ہے،وہ رسک لے کر فائر نگ کرتا ہوا باہر سڑک پر آگیا،پولیس اہلکار بھاگ گئے،وہ فائرنگ کرتاباغ لانگے خان سے دوسری طرف فرار ہوگیا،پولیس دیکھتی رہ گئی۔یہ 3 اکتوبر1980 کا واقعہ ہے۔وہ رکشے میں بیٹھا،سیدھا ملک نوراکبر بچے کے ڈیرے پر پہنچ گیا،ساری رات پولیس اسے تلاش کرتی رہی۔چودھری آصف ایک پولیس انسپکٹرہوا کرتا تھا،وہ گشت پر تھا،وہ نور اکبر کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔سعادت ایک نوکر سے چادر لے کر چار پائی پر لیٹا ہوا تھا،ایک گولی اس کی ٹانگ پر لگی ہوئی تھی۔ایک سپاہی چار پائی کے قریب آیا،سمجھا نو کر لیٹا ہوا ہے،ا س نے اس کے اوپر سے چادر کھینچی،سعادت کلاشنکوف سمیت لیٹا ہوا تھا، پولیس والے نے کلاشنکوف دیکھ کر چھیننا چاہی تو سعادت نے فائر کردیاجو سپاہی کے پائوں پر لگ گیا،اسی دھکم پیل میں دوسرے سپاہی بھی موقع پر پہنچ گئے،سب نے مل کر اسے پکڑ لیا اورمارتے ہوئے نشتر لے آئے۔پکڑے گئے شخص کے بارے میں چودھری آصف سمیت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ سعادت ہے۔نشتر میں سعادت اللہ خان ایس ایس پی بھی کھڑے تھے۔وہ اس لیے کھڑے تھے کہ چونکہ سعادت کو مقابلے میں ایک گولی لگی تھی وہ پٹی کرانے ضرور آئے گا۔ایک نیازی سپاہی تھا،اس کو چودھری آصف نےبتایاکہ میں نے نور اکبر بچہ کے ڈیرے سے ایک ملزم پکڑا ہے اس کے پاس کلاشنکوف بھی ہے،اس نے میرا ایک سپاہی بھی زخمی کردیا ہے۔میرا دل کرتاتھا اسے پار کردوں،دو بار ارادہ کر کے ہاتھ روک لیا۔سعادت ڈالے میں اوندھے منہ پڑا تھا،سپاہی نے آکر دیکھا،پولیس نے اسے مار مار کر نڈھا ل کررکھا تھا،سپاہی نے زور زور سے چلانا شروع کردیا،’’یہ سعادت ہے،یہ سعادت بلوچ ہے۔‘‘ایس ایس پی سعادت اللہ خان بھی آگئے،اسے تھانہ صدر لے گئے،مقدمہ درج کیا، اور جیل بھیج دیا۔سعادت کی یہ گرفتاری4 اکتوبر1980 کوپولیس مقابلے کے اگلے روز ہوئی۔سعادت کا کیس ٹرائل ہونا شروع ہوگیا،18 اپریل 1981 کو خبر آئی کے سعادت بلوچ جیل سے فرار ہوگیا ہے۔‘‘
ہم نے پوچھا،پھر پکڑا کیسے گیا؟بزرگی کے باوجود مستو پہلوان کی یاد داشت بہت اچھی ہے،کہا:’’ ملتان جیل سے فرار ہو کر وہ لاہور چلا گیا،وہاں شیخو پورہ کے ایک کنجر کے ساتھ اس کی دوستی ہوگئی،سعادت ہر وقت اسے اپنے ساتھ کار میں لے کر گھومتا تھا،اس کنجر کی ایک بھانجی تھی اس کا نام مسرت تھا،اس عورت کے ساتھ سعادت کی دوستی ہوگئی،سعادت نے ایک روز کار میں سفر کے دوران مسرت کو اسلحہ دکھایا اور بتایا :’’ میں ملتان کا رہنے والا اور اشتہاری ہوں،میرا نام سعادت بلوچ ہے۔‘‘مسرت اپنے گھر چلی گئی،سعادت بلوچ لاہور میں ایک ریٹائر پولیس انسپکٹرکے ڈیرے پر بھی ٹھہرا کرتا تھا۔مسرت نے اپنے ماموں کوسعادت بلوچ بارے فخر یہ انداز میں بتایاکہ میرا دوست بہت بڑا اشتہاری ہے،ا س نے ملتان میں تین قتل کررکھے ہیں۔مسرت کا ماموں شیخو پورہ سے لاہور آیا،ڈی آئی جی کے دفتر گیا، وہ ملزم گرفتار کرا کے انعام لینا چاہتا تھا،وہ جس سے بھی بات کرے ،کوئی اس کا یقین کرنے کو تیار نہ ہوا،سب اسے گالیاں دے کر بھگا دیتے کہ وہ تو لندن میں بیٹھا ہے۔ایک ڈی ایس پی تھا،وہ بعد میں میرا بہت اچھا دوست بھی رہا،اس کا نام چودھری احسن سلیم تھا،وہ بھی وہیں کھڑے تھے، انہوں نے اس کنجر کو اپنے پاس بلایا،کہا:’’ تم کل بھی آئے تھے،کیا کہنا چاہتے ہو،مجھے بتائو؟‘‘ اس نے ساری کہانی سنائی کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔چودھری احسن سلیم نے ڈی آئی جی کو بتایا،ڈی آئی جی نے انہی کے ذمے لگا دیا کہ آپ ہی اسے پکڑیں، چودھری احسن سلیم نے ہاں کردی۔وہ دو گاڑیوں میں پولیس لے کر شیخوپورہ روانہ ہوگئے۔سعادت رات کے 10 بجے اس مکان پر آتا تھا،جہاں اس نے پناہ لے رکھی تھی۔وہ کھیتوں کے اندر ایک ڈیرہ تھا۔پولیس اہلکار بغیر وردی کھیتوں میں چھپ گئے،سعادت اپنی کار پر آیا،تھکا ہوا تھا ،جلد ہی سو گیا،جو پنکھا لگا ہوا تھا وہ بہت شور کرتا تھا،جب وہ گہری نیند سو گیا تو مخبر کنجر نےپولیس کو گرین سگنل دے دیا،پولیس اہلکار آئے اور اسے لیٹے ہوئے دبوچ لیا۔پولیس اسے شیخوپورہ والی نہر پر لا کر مقابلے میں پارکرنے جار ہی تھی،سعادت بلوچ نے چودھری احسن سلیم سے کہا:’’ مر نے تو میں جارہا ہوں، اگر اجازت ہو تو میں دو نفل اداکرلوں۔‘‘اسے دو نفل پڑھنے کی اجازت دے دی گئی۔‘‘ چودھری احسن سلیم نے بتایا وہ نماز پڑھ رہا تھا اتنے میں وائرلیس پر پوچھا گیا کہ ملزم مقابلےمیں مرگیا یا زندہ پکڑا گیا، میرے منہ سے نکلا ،زندہ ہے۔ اس طرح وہ مرنے سے بچ گیا،پولیس سعادت کو لے کر ڈی آئی جی کے پاس پہنچ گئی۔سعادت بلوچ کو قلعے میں قید کردیا گیا۔دودن بعد اسے سنٹرل جیل ملتان منتقل کردیا ۔جس تہرے قتل کے کیس میں اشتہاری تھا اس کا ٹرائل شروع ہوگیا۔یہ ضیا الحق کا دور تھا،اس کیس کو سننے والے جج کا نام تھامیجر وکٹر۔ اسے سزائےموت سنائی گئی۔‘‘
سزا پر عمل کیسے ہوا؟
’’ سردار ظفر اللہ بولے :’’یہ میں بتاتا ہوں، کہا جاتا ہے سعادت بلوچ کی پھانسی رکوانے کی بہت کوشش کی گئی، سیاسی طورپر بہت دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی،صدر ضیاالحق سے رابطے اور معافی کی کوشش کی گئی،مگر صدر نے کوئی کال سننے سے انکار کردیا۔
خلیل بھٹی کہتے ہیں: 25 اکتوبر1982 کو جمعرات کے روز سعادت کو پھانسی دے دی گئی، وصیت تھی کہ اس کی موت کے بعد اس کی بیٹی اور بیٹے کو قر آن حفظ کرایا جائے، وصیت پر عمل ہوا،دوستوں اور عزیزوں کو بلا کر کہا، میں نے مستوکو معاف کردیا،میرے بعد کوئی دشمنی نہ رکھے۔‘‘
مستو پہلوان ایک سگریٹ مسلسل اپنی ہتھیلیوں میں گھما رہے تھے،میں ایک بار پھر ان سے مخاطب ہوا،پوچھا:’’پہلوان بابا،آپ نے شادی کی ؟‘‘
مستو پہلوان کی کڑک دار آواز اچانک سے بھرا گئی،گرجدار آواز میں گفتگو کرتے بزرگ کا حلق خشک ہوگیا،چہرے پراداسی چھاگئی،خاموشی طویل ہوگئی،آنکھوں سے دو چار آنسو جھولی میں آگرے،انتہائی نحیف آواز میں بولے:’’ ہاں کی تھی،جلد ہی ساتھ چھوڑ گئی،مجھے مار نے بہت سی کوششیں ہوئیں،مارنے والے سب مرگئے،میں تو ابھی تک زندہ ہوں،مگر اس بھاگوان کو پتہ نہیں کیا جلدی تھی دنیا سے رخصت ہونے کی،اس کی کوئی نشانی بھی نہیں ہےمیرے پاس،بے اولاد ہوں،اپنے بھتیجوں کو بیٹے بنایا ہوا ہے،بہت خیال رکھتے ہیں میرا۔‘‘
خلیل بھٹی پیر کے روز مجھے حسن پروانہ قبرستان میں سعادت بلوچ کی قبر پر لے گئے، قبر کے کتبے پر سورہ انبیا کی آیت نمبر87 کندہ ہے جس کا ترجمہ ہے:’’کوئی معبود نہیں اس کے سوا،وہ ذات پاک ہے،بے شک میں قصور وار ہوں۔‘‘
( بشکریہ : روزنامہ بدلتا زمانہ )