گلگت : دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے پاکستانی کوہ پیما علی سد پارہ کی لاش کے ٹو پہاڑ کے ’بوٹل نیک‘ کے قریب مل گئی ہے۔ریڈیو پاکستان کے مطابق وزیر اطلاعات گلگت بلتستان فتح اللہ خان نے تصدیق کی ہے کہ محمد علی سدپارہ اور جان سنوری کی لاشیں مل گئی ہیں۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا ہے کہ لاشوں کو فوج کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے منتقل کیا جائے گا۔
بتایا جا رہا ہے کہ محمد علی سد پارہ کی لاش کے ٹو کے ’بوٹل نیک‘ سے 300 میٹر نیچے جبکہ پہلی لاش ’بوٹل نیک‘ سے 400 میٹر نیچے ملی ہے (کے ٹو کے کیمپ فور سے اوپر ڈیتھ زون میں 8200-8400 میٹر کے درمیان ایک راک اینڈ آئس گلی موجود ہے، کیونکہ اس کی شکل بوتل کی گردن کی طرح دکھتی ہے لہذا اسے بوٹل نیک کہتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے کےٹو سر کرنے کی کوشش کرنے والے کوہ پیماؤں کو ہر حال میں گزرنا پڑتا ہے، اس کا کوئی متبادل راستہ موجود نہیں ہے اور یہ کے ٹو کا سب سے مشکل ترین حصہ ہے)۔
یاد رہے کہ پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کو پانچ فروری کو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر کے ٹو کی چوٹی کے قریب آخری مرتبہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے دیکھا تھا جو آکسیجن ریگولیٹر کی خرابی کی وجہ سے مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ اس مہم میں بطور ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر شریک تھے۔تقریباً دو ہفتے تک زمینی اور فضائی ذرائع کا استعمال کرنے کے بعد حکام نے 18 فروری کو علی سدپارہ سمیت لاپتہ ہونے والے تین کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی تلاش کے لیے جاری کارروائی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
ساجد سدپارہ اپنے والد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کی لاشوں کی تلاش کے سلسلے میں اس وقت کے ٹو پر موجود ہیں اور ان کے ہمراہ کینیڈین فوٹو گرافر اور فلم میکر ایلیا سیکلی اور نیپال کے پسنگ کاجی شرپا بھی ہیں۔یاد رہے کہ پہلے دو لاشوں کے ملنے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں لیکن کے ٹو پر مہمات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں نے تیسری لاش ملنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ساجد سد پارہ کی ریسکیو مہم کے انتظامات کرنے والی کمپنی جیسمن ٹورز کے بانی اور پاکستان میں ہیڈ آف ریسکیو مشن فار پاٹو (پاکستان ٹور آپریڑ ایسوسی ایشن) اصغر علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تین لاشیں ملنے کی تصدیق کی ہے۔ ان کے مطابق یہ تینوں لاشیں لاپتہ کوہ پیماؤں علی سدپارہ، جان سنوری اور جان پابلو موہر کی ہی ہیں۔ان کے مطابق آرمی کی طرف سے ان کے لئیزن آفیسر جن کا بذریعہ ریڈیو ساجد سدپارہ سے رابطہ ہے، تصدیق کی ہے کہ یہ لاشیں علی سدپارہ، جان سنوری اور ہوان پابلو موہر کی ہیں۔اس سے پہلے کے ٹو پر مہمات کا انتظام کرنے والی کمپنی مہاشا برم ایکسپیڈیشن کے مالک محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علی سدپارہ کی لاش ملنے کی تصدیق کی تھی۔مہاشا برم ایکسپیڈیشن کے مالک محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ٹیم میں شامل رسیاں لگانے والے شرپاؤں کو ’بوٹل نیک‘ کے قریب دو لاشیں ملی ہیں جن میں سے ایک کی شناخت کر لی گئی ہے اور وہ محمد علی سد پارہ کی لاش ہے جبکہ دوسری لاش کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔
محمد علی کے مطابق ان کی مختلف ممالک کے 19 کوہ پیماؤں پر مشتمل ٹیم کے ٹو کی جانب رواں دواں تھی اور اس دوران سات شرپا (جن میں ان کی ٹیم کے چار شرپا) بھی شامل ہیں، سب سے پہلے رسیاں فکس کرنے اوپر جا رہے تھے۔ جب یہ سات افراد سمٹ کی جانب رسی فکس کرنے گئے تو کیمپ فور سے آگے بوٹل نیک کے قریب پہنچنے پر انھیں پہلے ایک لاش ملی اور گھنٹے بعد تقریباً سو میٹر اوپر جا کر دوسری لاش ملی۔ کچھ دیر بعد انھوں نے بتایا کہ تیسری لاش بھی مل گئی ہے۔
محمد علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کو پیش آنے والے حادثے کو تقریباً پانچ ماہ گزر چکے ہیں۔اس سوال کے جواب میں کہ اتنا عرصے گزر جانے کے بعد ان شرپاؤں نے محمد علی سدپارہ کی لاش کیسے شناخت کی؟محمد علی کے مطابق جس وقت ان کی ٹیم بیس کیمپ سے نکل رہی تھی اس وقت محمد علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ نے انھیں کچھ تصاویر اور نشانیاں بتائیں تھیں جن کی بنا پر علی سد پارہ کی لاش کی شناخت کی گئی ہے۔محمد علی نے بتایا تھا کہ ان کی ٹیم نے ساجد سدپارہ تک یہ خبر پہنچا دی ہے اور لاشوں کو نیچے لانے کے متعلق فیصلہ ساجد ہی کریں گے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )