حکومت نے دہشت گردی کے خلاف یک آواز ہونے کے لیے قومی اسمبلی کی سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا تھا جس میں عسکری قیادت نے بھی شرکت کی ۔ تاہم تحریک انصاف اور متعدد دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی عدم شرکت سے قومی یکجہتی کا تاثر قوی نہیں ہوسکا۔ یہ ہی یہ واضح ہؤا کہ دہشت گردی کے خلاف سب سیاسی عناصر مل کر ایک ہی حکمت عملی اختیار کرنے پر تیار ہیں۔
تحریک انصاف نے ایک روز قبل اس اہم اجلاس میں شریک ہونے کا اعلان کیا تھا تاہم اجلاس سے پہلے اچانک اس فیصلہ کو تبدیل کرتے ہوئے بتایا گیا کہ عمران خان کو پیرول پر رہا کرکے اجلاس میں مدعو نہ کرنے کی وجہ سے تحریک انصاف اور اس کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں نے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی طور سے یہ غلط اور قومی مفاد کے برعکس فیصلہ تھا لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان ہر موقع کو اپنی رہائی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف منعقد ہونے والے اجلاس میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی عدم شرکت سے سیاسی تقسیم گہری ہوگی اور جمہوری ادارے کمزور ہوں گے۔
عمران خان کی مسلسل حراست ایک سنگین اور پریشان کن مسئلہ ہے لیکن تحریک انصاف کو ان کی رہائی کے سوال کو قومی سلامتی و سیاسی مفاہمت کے معاملات سے منسلک کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ اس سے پہلے عمران خان کی رہائی ہی کے سوال پر تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات کا بائیکاٹ کیا تھا ۔اور اب دہشت گردی کی سنگین صورت حال میں پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے تحریک انصاف نے قومی منظر نامہ پر خود کو مزید تنہا کیا ہے۔ اس دوران پارٹی سے منسلک عناصر فوج کے خلاف اور بلوچستان میں دہشت گردسی کا ارتکاب کرنے والے عناصر کی حمایت میں سوشل میڈیا پر بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ حکمت عملی ملکی سیاست کو جامد اور جمہوری راستہ مسدود کرنے کا سبب بنے گی۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان اب بھی کسی عوامی انقلاب کی امید کررہے ہیں جو نہ صرف ان کی رہائی بلکہ ان کی اقتدار میں واپسی کا راستہ ہموار کرے گا۔ تاہم اس مقصد کے لیے اگر فوج میں انتشار ڈالنے کی ویسی ہی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جو سانحہ9 مئی کے وقت کی گئی تھی تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
تحریک انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی تنہا پارٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ قومی سلامتی کے ان کیمرا اجلاس میں شریک ہوکر اس کے نمائیندے اپنا مؤقف پیش کرسکتے تھے اور اس تاثر کو بھی قوی کرسکتے تھے کہ حکومت کے تمام جابرانہ ہتھکنڈوں کے باوجود تحریک انصاف جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے اور کسی مشکل میں قوم کو اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ البتہ اس اجلاس میں شریک ہونے کااعلان کرنے اور بعد میں اسے تبدیل کرنے کے طریقے نے پارٹی کے اندر پائی جانے والی نظریاتی تقسیم کو بھی واضح کردیا ہے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ جھوٹ اور نفرت کی بنیاد پر محض سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے نہ تو کوئی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ملک میں جمہوری عمل کو مستحکم کیا جاسکے گا۔ جمہوریت اسی وقت مؤثر اور فعال ہوسکتی ہے جب عوام کے ووٹ لے کر ان کی نمائیندگی کا دعویٰ کرنے والے ارکان قومی اسمبلی اپنا پارلیمانی کردار ادا کریں اور اہم قومی مسائل میں مناسب فورم سے اپنی رائے سامنے لائیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے تحریک انصاف نے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ تحریک انصاف کا شمار انتشار پیدا کرنے والے گروہ کے طور پر کرکے، اس کے خلاف رائے ہموار کرنے کی کوشش کریں۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تحریک انصاف کی عدم موجودگی سے قومی اتحاد کی بجائے انتشار کا تاثر قوی ہؤا ہے۔ اس پر مستزاد عمران خان سے منسوب بیانات سے یہی تاثر ابھارنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ ایک طرف ملک کی سیاسی و عسکری قیادت ملک میں دہشت گردی کی موجودہ لہر کی ذمہ داری افغانستان سے متحرک گروہوں پر عائد کرتے ہوئے کابل حکومت سے تعاون کی مانگ رہی ہے تو دوسری طرف عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے آج اڈیالہ جیل میں بھائی سے ملاقات کے بعد بتایا ہے کہ بانی تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ’ افغانستان ہمارا دشمن نہیں ہے آپ اسے دشمن بنانے کی کوشش نہ کریں، کیوں بلاوجہ مسلمان بھائیوں سے لڑائی مول لے رہے ہیں‘؟ یوں ایک طرح سے دہشت گردی کے حوالے سے اس بیانیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو فوج اور حکومت مل کر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے قوم میں بے یقینی پیدا ہوگی اور ملکی مفادات ، عوام اور اداروں کے خلاف جنگ کرنے والے عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ البتہ عمران خان سے منسوب بیانات کی حقیقت کے بارے میں حتمی طور سے کوئی بات کہنا بھی آسان نہیں ہے۔ آج ہی عمران خان سے ملاقات کرنے والے پی ٹی آئی کے چیئرمین گوہر علی نے کہا ہے کہ آج بانی نے جعفر ایکسپریس سانحہ کی مذمت کی اور ’دہشتگردی کی نئی لہر کو ایک آواز سے ‘دبانے کی ضرورت پر زور دیا ۔ یہ بیان علیمہ خان کی طرف سے فراہم کی گئی اشتعال انگیز معلومات سے برعکس ہے۔ تاہم اگر عمران خان دہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد کی اہمیت کو مانتے ہیں تو انہیں اس معاملہ کو اپنی رہائی سے مشروط کرکے اپنے مؤقف کو کمزور اور غیر واضح نہیں کرنا چاہئے۔
اس دوران قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیہ میں ’مضبوط اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ دہشتگردوں اور سہولت کاروں کے خاتمہ کے لیے مربوط پالیسی کی تجویز بھی دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق دہشت گردی کی حمایت کرنے والے کسی بھی گروہ کے خلاف موثر کارروائی کی جائے گی۔ کمیٹی نے پروپیگنڈا کرنے، بے بنیاد بیانیہ گھڑنے اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں کی بھی مذمت کی۔ سوشل میڈیا پر دہشت گردی کے بیانیے کو فروغ دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی۔ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی نے کہا کہ پاکستانی اداروں کو قانون نافذ کرنے اور قومی سلامتی کے معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں‘۔
البتہ کمیٹی کے اجلاس میں سب سے اہم آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی بریفنگ تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’ملک کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا، تحریک اور شخصیت نہیں ہے۔ پائیدار استحکام کے لیے قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ہو گا،یہ ہماری اور آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے‘۔ آئی ایس پی آر نے بتایا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی میں آرمی چیف نے کہا کہ ’پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے ۔ہم گورننس کے خلا کو کب تک افواجِ پاکستان اور شہدا کے خون سے بھرتے رہیں گے۔ ہمیں بہتر گورننس کے ساتھ پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ بنانے کی ضرورت ہے۔ہم کب تک سافٹ سٹیٹ کی طرز پر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے‘۔ انہوں نے علما سے درخواست کی کہ وہ خوارج کی طرف سے اسلام کی مسخ شدہ تشریح کا پردہ چاک کریں۔
اس بیان میں آرمی چیف نے جن جو دو پہلو ؤں کا ذکر کیا ہے وہ ملک کے آئینی جمہوری نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ جنرل عاصم منیر ’ہارڈ اسٹیٹ‘ سے کیامراد لے رہے ہیں۔ لیکن اگر اس بیان اور اصطلاح کو عمومی تفہیم سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ شہری آزادیوں کو سختی سے کچلنے اور انسانی حقوق کی پرواہ کیے بغیر ریاستی حکم نافذ کرنے کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ ملک میں پہلے ہی سیاسی آزادیوں، انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی پر کڑی پابندیاں عائد ہیں لیکن اگر آرمی چیف کی رائے کے مطابق دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے رہی سہی شہری آزادیوں کو بھی محدود کیا جائے گا تو پاکستان جمہوریت کی بجائے مکمل آمریت میں تبدیل ہوجائے گا۔ حیرت ہے نہ جنرل عاصم منیر نے اپنے مؤقف کی وضاحت کی اور نہ ہی وزیر اعظم یا دیگر سیاسی لیڈروں نے اس حوالے سے کسی پریشانی کا اظہار کیا۔ بلکہ شہباز شریف نے تو عسکری اداروں کو مزید اختیارات دینے اور فیصلے کرنے میں خود مختار کرنے کی بات کی۔
وزیر اعظم نے آرمی چیف کے بیان میں بتائے گئے دوسرے پہلو پر بھی غور کرنے یا اس پر وضاحت دینے کی کوشش نہیں کی کہ ملک میں گورننس کے مسائل کی وجہ سے فوجی جوانوں کا خون ارزاں ہوتا ہے۔ جنرل عاصم منیر پہلے بھی اس بارے میں بات کرتے رہے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اگر فوج موجودہ حکومت کو نااہل سمجھتی ہے تو اس کے پاس اس کا متبادل کیا ہے۔ اور کیا وجہ ہے کہ ملک میں انتخابی دھاندلی کے الزامات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ آرمی چیف کا بیان درحقیقت موجودہ حکومت کی کارکردگی پر فرد جرم عائد کرنےکے متراد ف ہے لیکن شہباز شریف اس کمزوری کو دور کرنے کی بجائے خوشامد اور جنرل عاصم منیر کی توصیف سے یہ کمی پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ملک بلاشبہ گورننس کے مسائل سے دوچار ہے۔ البتہ اس کی سب سے بڑی وجہ ملکی آئین کو نظر انداز کرنا ہے۔ انتخابات کے بارے میں مسلسل شبہات موجود ہیں اور ملک میں یہ رائے مستحکم ہورہی ہے کہ موجودہ حکومت عوام نے منتخب نہیں کی بلکہ عسکری طاقت نے ’چنی‘ ہے۔ مرضی سے چنی ہوئی حکومت کے بارے میں فوج کے سربراہ کا عدم اطمینان ملک کے رہے سہے سیاسی استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ملک سے دہشت گردی کی بیخ کنی ممکن ہوگی یا نہیں لیکن جنرل عاصم منیر کے انتباہ سے یہ شبہ تقویت پکڑے گا کہ ملک کسی سخت آمرانہ نظام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر آرمی چیف اپنی ’پسندیدہ‘ حکومت کی نااہلی کا ذکر کرنے کے باوجود ملک کے علما سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فوج کے بیانیہ کو مضبوط کرنے میں معاونت کریں گے۔ آرمی چیف کو جاننا چاہئے کہ امن و امان کی بحالی اور ملک دشمن عناصر کے خلاف جنگ کی کامیابی کے لیے مخالفین کو ’دائرہ اسلام سے خارج‘ کرنے کے فتوؤں اور نفرت عام کرنے کی بجائے ملک کے ہر شہری کو احترام اور محبت دینے کی ضرورت ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ