بلوچستان کا معاملہ اب ”اگر مگر، چونکہ چنانچہ“ سے آگے نکل چکا ہے۔ کس نے ہتھیار اٹھائے، کیوں اٹھائے، پنجاب استحصال کرتا ہے یا نہیں، بلوچ سردار کس مرض کی دوا تھے، بلوچستان کا ترقیاتی بجٹ کتنا ہے، لاپتا افراد کے مسئلے کا کیا حل ہے، بی ایل اے کا بیانیہ درست ہے یا غلط، گوادر پر کس کا حق ہے، خان آف قلات کے معاہدے کی قانونی حیثیت کیا ہے، علیحدگی پسند لیڈروں کو قومی دھارے میں شامل کیوں نہیں کیا جاتا، بلوچستان کے معدنی وسائل پر کون قابض ہے۔ ؟ اِن سوالات پر بحث پہلے بھی ہوتی رہی ہے، آئندہ بھی ہوتی رہے گی، لیکن ایسی کسی بحث کی آڑ میں دہشت گردوں کو اب مزید رعایت نہیں دی جا سکتی۔ یہ جملہ اصولی طور پر تو مجھے لکھنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ دنیا میں کسی بھی دہشت گرد کو ایک لمحے کی رعایت نہیں ملتی مگر لکھنا اِس لیے پڑا کہ بلوچستان کی محرومیوں کے حوالے سے بہرحال ایک بیانیہ تو موجود تھا اور اُس بیانیے میں بہت حد تک جان بھی تھی، کوئی بھی باضمیر دانشور یا لکھاری یہ نہیں کہتا تھا کہ بلوچستان میں احساس محرومی نہیں یا وہاں لاپتا افراد کا مسئلہ نہیں، اسی لیے جب بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے تو یہ لکھاری اُس احساسِ محرومی کے بیانیے کو بجا طور پر بیان کرتے تھے، گویا ایک طرح سے وہ ہمیں وجہ بتاتے تھے کہ سیکورٹی اداروں پر حملے کیوں ہو رہے ہیں، ہوش کی دوا کرو اور اِس درد کا درماں کرو۔ لیکن اب اگر کسی کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، یا کسی نئے معاشی پیکج کا اعلان کر کے انہیں لبھایا جا سکتا ہے، یا کسی اور سیاسی شعبدہ بازی کی مدد سے دہشت گردوں کو تنہا کیا جا سکتا ہے تو اُس کا وقت گزر چکا۔
دنیا میں ایسی کسی مسلح جدوجہد کی کوئی حمایت باقی نہیں رہی جس میں چار سو مسافروں کی ٹرین کو ہائی جیک کرنے والوں کو حریت پسند سمجھا جائے اور نہتے، غریب اور بے بس لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں گولیاں مارنے والوں کو نیلسن منڈیلا کہا جائے۔ یہ کھلی اور ننگی دہشت گردی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اِس بات میں اگر کسی کو کوئی ابہام ہے یا کوئی دہشت گردوں کو اُن کے بیانیے کا ’مارجن‘ دینا چاہتا ہے تو یہ وہی کام ہو گا جو ماضی میں طالبان کے عذر خواہ کرتے رہے ہیں۔ دس سال پہلے جب اِس ملک میں اسی طرح دہشت گردی کا دور دورہ تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم اِس عفریت کو اتنی جلدی شکست دے پائیں گے، سچ کہوں تو خود مجھے بھی یقین نہیں تھا، لیکن جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کی وہ جنگ جیتی، وہ ایک کیس سٹڈی کے طور پر پڑھائی جانی چاہیے۔ اصل میں ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہو چکا ہے کہ اپنی جائز تعریف کرتے ہوئے بھی جھجکتے ہیں کہ کہیں ہم پر کوئی ’لیبل‘ نہ لگ جائے، شاید اِس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آج کل خود مَلامتی بہت بِکتی ہے، بے شک ہم میں کئی خرابیاں ہیں مگر ہم اپنے آپ پر کچھ زیادہ ہی لعن طعن کرنے لگ گئے ہیں، خیر یہ ایک الگ بات ہے، موضوع پر واپس آتے ہیں۔
دنیا بھر میں علیحدگی پسند مسلح تنظیموں کا وجود کوئی نئی بات نہیں۔ دور کیوں جائیں، بغل میں سری لنکا ہے، وہاں تامل ٹائیگرز نے کئی سال تک علیحدگی کی تحریک چلائی جس کا مقصد سری لنکا کے شمالی اور مشرقی حصوں میں تامل ایلام کے نام سے ایک آزاد ریاست کا قیام تھا۔ تامل باغیوں نے سری لنکا کے شہر جافنا پر قبضہ کر رکھا تھا اور اسے عملاً اپنا دارالحکومت بنایا ہوا تھا، یعنی سری لنکن حکومت کی رِٹ وہاں نہیں تھی۔ تامل ٹائیگرز نے کئی دہائیوں تک مسلح جدوجہد کی اور خودکش حملوں سمیت تمام پرُتشدد طریقے اختیار کیے جنہیں عالمی سطح پر امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین سمیت متعدد ممالک نے دہشت گردی قرار دیا۔ بالآخر 2009 میں تامل باغیوں کو سری لنکن فوج کے ہاتھوں مکمل طور پر شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اِس طرح اُن کی جدوجہد ناکامی پر مُنتج ہوئی۔ سری لنکا یہ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟
اب کچھ بات بلوچ قوم پرست بیانیے کی بھی ہو جائے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں انتہا کی غربت ہے، صوبے کے معدنی وسائل کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچے، سوئی سے گیس نکال کر پنجاب کے آخری ضلع تک کو دے دی گئی مگر بلوچوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے رہے اور اِس قسم کی بہت سی باتیں جن میں بہرحال سچائی ضرور ہے، ۔ اگر کسی نے اِس بلوچ بیانیے کا خلاصہ جاننا ہو تو ایک قوم پرست لیڈر کا خط ٹویٹر پر دیکھ لے جو انہوں نے جعفر ایکسپریس کے ہائی جیک ہونے کے بعد پوسٹ کیا۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، دوسرا رُخ یہ ہے کہ بلوچستان کی آبادی کو اگر صوبے کے کُل بجٹ پر تقسیم کیا جائے تو جواب بارہ ہزار روپے آئے گا جبکہ یہی فارمولا اگر پنجاب پر لگایا جائے تو جواب پانچ ہزار تین سو روپے آئے گا، یعنی بلوچستان میں ایک شخص کے لیے جتنا بجٹ ہے پنجاب میں اُس کا نصف بھی نہیں ہے۔
اب جغرافیے کے دعوے کی بھی کچھ پڑتال ہو جائے۔ جن قوم پرست لیڈر نے بیانیے کا خط پوسٹ کیا ہے انہوں نے ایک اور پوسٹ میں گوادر کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پہلے دن سے گوادر بلوچستان کا حصہ تھا لہذا کسی کو یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان نے عمان سے گوادر خرید لیا تو وہ بلوچستان سے علیحدہ کوئی حصہ ہے۔ آنجناب 1783 سے شروع ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ کس طرح تخت کی لڑائی کی وجہ سے وقتی طور پر گوادر عمان کے ایک حکمران کے پاس چلا گیا تھا اور انگریزوں نے بھی اس صورتحال کو نہیں چھیڑا، بعد ازاں پاکستان نے محض اسے واپس لے لیا اور کچھ نہیں۔ وہ محترم یہاں بھی تاریخ خلط ملط کر گئے۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ بات 1783 سے ہی کیوں شروع کی جائے، ساڑھے تیرہ ارب سال پہلے سے کیوں نہ شروع کر لیں جب بگ بینگ سے کائنات وجود میں آئی تھی! اور اگر 1783 سے ہی شروع کرنی ہے تو ڈیڑھ سو سال تک تو گوادر عمان کے پاس ہی رہا، اُس عرصے میں تو کسی بلوچ سرمچار نے بندوق کے زور پر اُس مادرِ وطن کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، اور جب پاکستان بن گیا تو اُس کے بعد بھی کسی سردار کو خیال نہیں آیا کہ عمان سے معاملات طے کر کے اپنی زمین واپس لے لی جائے، یہ کام وزیر اعظم فیروز خان نون نے کیا۔ مدعا فقط اتنا ہے کہ بلوچستان کے احساس محرومی میں ہر پاکستانی بلوچ قوم کے ساتھ ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ حقائق مسخ کیے جائیں اور بلوچستان کے جغرافیے سے متعلق وہ سوال کیے جائیں جو بھارت بھی نہیں کرتا۔ بلوچستان میں دہشت گرد یہی بیانیہ پروان چڑھا رہے ہیں جس کی کوئی تاریخی سند نہیں۔ اور اِس تمام بحث سے قطع نظر، جس قسم کی بہیمانہ کارروائیاں یہ دہشت گرد بلوچستان میں کر رہے ہیں، اُس کے بعد مظلومیت کا وہ بیانیہ بھی ختم ہو جائے گا جس کی وجہ سے انہیں میڈیا میں ہمدردی ملتی تھی۔ بلوچستان پر علمی بحث ہوتی رہے گی، فی الحال ہم نے بلوچستان کے ایک ایک اِنچ پر ریاستی رِٹ قائم کرنی ہے، اور اِس کا طریقہ یہ ہے کہ اُسی طرح دہشت گردی کی یہ جنگ لڑی جائے جس طرح ہم نے ماضی میں لڑی تھی۔ بلوچستان میں دہشت گرد ہیں جنہوں نے حریت پسندوں کا نقاب اوڑھ رکھا ہے، اِنہیں بے نقاب کریں۔
( گردو پیش کے لیے ارسال کیا گیا )
فیس بک کمینٹ