کیا کیا سوچ کے نہ گیا تھا !!!!
مگر جیسے ہی بھائی شاکر حسین شاکر نے مائیک دیا، آنسوؤں کا ایک سیلِ رواں جاری تھا جو سب خیالات کو تنکوں کی طرح بہا کر لے گیا اور صرف ایک ہی خیال ذہن پر مسلط رہا کہ میرے ابو نہیں رہے۔ پھر وہ سارے بند ٹوٹ گئے جنھیں 22 اکتوبر سے باندھ کر رکھا ہوا تھا۔
ایک ہفتہ قبل ہی ڈاکٹر عذرا لیاقت صاحبہ نے اردو کانفرنس کا دعوت نامہ بھی بھجوا دیا تھا اور فقط دو روز قبل ہی شاکر بھائی نے یاددہانی بھی کروا دی تھی۔مشاعرے کا وقت شام کے چھے بجے تھا اور مجھے شاکر بھائی نے پونے چھے تک پہنچنے کی تاکید کردی تھی۔ مگر وہی ملتان کی ٹریفک، کہ جس سے بچنے کے لیے ایک طویل چکر کاٹنا پڑا اور ٹھیک چھے بجے میں ویمن یونیورسٹی کے گیٹ میں داخل ہو رہا تھا۔
فاطمہ جناح ہال کے داخلہ دروازے میں داخل ہوتے ہی ذہن یک دم بند سا ہو گیا اور مجھے یوں لگا کہ میں ابو جان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں ہی سٹیج کی طرف لے کر جانا چاہ رہا ہوں، مگر ابو کہاں تھے؟ فقط ایک یاد؟؟؟؟
بھاری قدموں کے ساتھ شاکر بھائی سے ملا، الیاس کبیر صاحب سے ملا۔ لاہور سے آئے ہوئے میرے محبی ڈاکٹر خالد سنجرانی اور دیگر مہمانان گرامی موجود تھے ۔مگر ذہن پر بس وہی خیال چھایا ہوا تھا کہ ابو میرے ساتھ نہیں ہیں۔ اس پر مستزاد وقفے وقفے سے غلام عباس کی آواز میں چلنے والی غزل "میں نے روکا بھی نہیں” نے مجھ پر ایک ایسی خاص کیفیت طاری کر دی کہ میں اس محفل میں موجود ہوتے ہوئے بھی کسی اور عالم میں تھا۔
جب مشاعرے کی نشست کے لیے شاکر بھائی سب شعرائے کرام اور مجھے (ابو کے بغیر) سٹیج پر لے کر گئے تو ہال کے در و دیوار، یوں لگا کہ جیسے مجھے بہ آواز بلند کچھ کہنا چاہ رہے ہوں کچھ سنانا چاہ رہے ہوں۔ مگر میں جانتا ہوں کہ وہ بتانا چاہ رہے تھے کہ تم ڈاکٹر اسلم انصاری کی یاد میں منعقدہ محفل مشاعرہ کے مہمان خصوصی ہو اور تمھیں اپنے والد کے نام پر یہاں بیٹھنے کا اعزاز مل رہا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ وہ محفل میرے شہر کے بڑے بڑے ناموں کی محفل تھی، وہ محفل میرے ملتان کی پہچان والے لوگوں کی تھی، مگر میرے ابو کو جو عزت مل رہی تھی وہ بھی انھی بڑے لوگوں کا وہ اعتراف تھا جسے وہ آج کر رہے تھے۔
مجھے محترم ڈاکٹر امین اور قمر رضا شہزاد کے پہلو میں بیٹھنے کا اعزاز ملا تو آنکھیں بھر آئیں کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں ابو ہوتے تھے اور ابو کو ہونا تھا۔ جیسے شاکر بھائی فرما رہے تھے کہ اس مشاعرے کی صدارت کے لیے انھوں نے ابو جان سے کہنا تھا مگر آج ابو نہیں تھے۔
شعرائے کرام اپنا اپنا کلام سنا کر جاتے رہے اور میں نم آنکھوں کے ساتھ انھیں دیکھتا اور سنتا رہا۔ اور پھر وہ مرحلہ آیا جب شاکر بھائی نے ساؤنڈ پر بیٹھے صاحب کو اشارہ کیا اور انھوں نے ابو کی غزل انھی کی ریکارڈنگ میں چلوا دی ۔۔۔۔۔ کیا کہوں کہ کچھ کہنے کا یارا نہیں۔
ضبط کے بندھن وہیں ٹوٹ گئے۔
قدم من من بھر کے ہوگئے اور لڑکھڑاتے قدموں سے مائیک پر پہنچا، کرسی نشین ہوا، ابو کا منتخب کلیات اور اپنی ڈائری کانپتے ہاتھوں سے میز پر رکھیں اور صرف اتنا کہہ سکا:
"خیالات کا مجموعہ ہے جو باہر ابلنے کو تیار ہے، مجھے وہ منظر یاد آرہا ہے کہ جب ایسی ہی محفلوں میں ۔۔۔۔ میں ابو کا ہاتھ پکڑ کر انھیں سٹیج پر لے کر جاتا تھا اور پھر واپس بھی لے آتا تھا۔۔۔۔۔۔
اور یہاں وہ منظر زندہ ہو کر نگاہوں کے سامنے آگیا۔
میں کیا کرتا، وہ جو آنکھوں سے سیل رواں جاری ہوگیا وہ کہاں سے روکتا کیسے روکتا۔
چند لمحے لگے مجھے آنسوؤں کو ضبط کرنے میں،
پھر اتنا بول پایا:
ابو کی وفات کے پانچویں روز مجھ پر ایک غزل وارد ہوئی ۔۔۔۔۔ کسے خبر کہ یہ آرزو مری تو نہ تھی ۔۔۔ کہ رقص کر کے زمانے کو یوں دکھانا تھا ۔۔۔۔۔
اور پھر وہی لمحات کہ آنسوؤں نے چہرہ بھگو دیا اور بولنے کا یارا نہ رہا۔
شاکر بھائی نے اٹھ کر دلاسا دیا، اور پورا ماحول سوگواری سے معمور ہوگیا۔
فیس بک کمینٹ