مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے کہ جب مجھے میری ماں پہلے دن سکول روتا چھوڑ آئیں۔ شاید اس دن کے بعد سے آج تک مجھے کبھی وہ دن نصیب نہیں ہوا ،جس کی تلاش میں سکول چھوڑا گیا تھا۔ ہر رات مشکل میں کاٹی ، دن رات محنت کی میٹرک ہوگیا۔ اس کے بعد ایف ایس سی کا مشکل ترین مرحلہ آیا، پہلے ہی دن صرف ایک آواز کان میں پڑی ،یہ دو سال محنت کرنی ہے، اس کے بعد آگے پوری زندگی بن جائے گی۔ میڈیکل کی ایف ایس سی، آگ کے دریا میں تیرنے جیسا تھا، اکیڈمیوں کا رواج تھا، چنانچہ اپنے کالج کے پرنسپل کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ ہمیں پرائیوٹ ٹیوشن کے لیے مناسب وقت دے دیں۔ ہم میں سے چند لڑکوں کو فری کردیا گیا،ان میں ایک میں بھی تھا، بس پھر کب کہاں اور کیسے، دو سال ستر سی سی کی ایک موٹر سائیکل پر گزر گئے۔ ٹیوشن کے معاملے میں بہت احتیاط برتنی پڑتی تھی کیوں کہ داخلے کے لیے ہر مضمون میں بہترین نمبر درکار تھے، نہیں تو میڈیکل کالج میں داخلہ ناممکن تھا۔ اکثر فجر کے وقت ٹیوشن کے ٹیسٹ ہوا کرتے تھے اور یوں رات بھر جاگ کر ان کی تیاری اور پھر صبح جا کر وہ ٹیسٹ دینے پڑتے تھے، زندگی صرف جہد مسلسل بن گئی تھی۔ کچھ ٹیوشن چھوٹے کمروں میں ہوتیں ، وہاں ایک کمرے میں ستر ستر طالب علم ہوتے تھے اور بعض اوقات جوتیوں والی جگہ پر بیٹھ کر پڑھنا پڑتا تھا،یہ سب بہت ہی مشکل تھا۔ اردو کا شوق تھا اس لیے پہلے مشہور شاعر ڈاکٹر عاصی کرنالی اور پھر حفیظ الرحمن صاحب سے اردو پڑھی۔ حفیظ صاحب کا گھر ملتان کی ایک انتہائی تنگ گلی میں تھا اور وہ بیٹھک میں پڑھایا کرتے تھے، اس تنگ گلی کی بیٹھک میں پڑھنے والے کئی لڑکے آج نجانے امریکہ ،برطانیہ اور کہاں کہاں انجینئر ڈاکٹر ہیں۔ بہت مشکل سے ایف ایس سی ہوگئی، نمبر اچھے تھے، لحاظہ پوری امید تھی کہ داخلہ ہوجائے گا، مگر انٹری ٹیسٹ نے نظام سے ملاقات کرادی۔ اتنی اچھی تیاری کے باجود انٹری ٹیسٹ میں خاطر خواہ نمبر نہ آئے، ایک بہترین میڈیکل کالج کے ایڈمیشن کی امید سیلف فنانس پر لے آئی اور یوں مجھے اپنے ذور پر میڈیکل کالج داخلہ لینے کی ضد ایک سال کی دوری پر لے آئی۔ انتہائی تکلیف دہ سال گزارا۔اب کی بار اکیڈمیوں کے چکر لاہور کے تھے، پرائیوٹ ہاسٹل ، ہر طرح کی مشکلات اور ساتھ انٹری ٹیسٹ کی تیاری۔ بہت ہی مشکل سے وقت گزارا اور پھر انٹری ٹیسٹ میں اتنے نمبر آگئے کہ بہاولپور کے ایک سرکاری میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا۔ یہ ایک الگ مشکل زندگی تھی، سخت ترین پڑھائی، ساتھ ہاسٹل کی سختیا ں اور طرح طرح کے لوگوں کے ساتھ واسطہ، ہر وقت فیل ،سپلی کے بعد کالج سے خارج ہونے کا خوف۔ میڈیکل کے پانچ سالوں کے پانچ پروفیشنل امتحان ہوتے ہیں، ہر امتحان کی تیاری پانچ سے چھ ماہ کا مشکل ترین عرصہ مانگتی ہے،اس دوران آپ بند کمروں میں مکمل پاگل ہونے لگتے ہیں، کبھی کبھار کافی دیر دیوار کو تکتے رہنا بھی دنیا کی سب سے بڑی عیاشی ہوتی ہے۔ پانچویں سال ایم بی بی ایس کا امتحان ختم کیا تو رات بستر پر لیٹے مجھے مشہورمحقق ولیم جیمز کی وہ ریسرچ یاد آگئی ،جس میں وہ لکھتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی زندگی میں سب سے اہم تین سوال ہوتے ہیں ، میں کون ہوں؟ میں کیوں پیدا ہوا ؟ اور میں نے کونسے کام دنیا سے کر کے جانا ہے؟ دنیا کی تاریخ میں یہ سوال سب سے قیمتی ہیں۔ اس پر مجھے MASLOW کا وہ Pyramid یاد آگیا کہ جس میں انسان کی زندگی اور اس سے جڑی ضرورتوں کی ارتقاءکی منازل لکھی ہوئی ہیں۔ سب سے نیچے بنیادی جسمانی ضرورتیں روٹی، کپڑا اور جنس۔ یہ سب حاصل ہوجائے تو اگلی ضرورت شیلٹر،تحفظ۔ اس کے بعد انسان کے معاشرے سے تعلق کی ضرورت آتی ہے، دنیا کا کوئی انسان اکیلے زندگی نہیں گزار سکتا،اس لیے اگلی منزل یہی ضرورت ہے ۔اس کے بعد آتی ہے اپنی پہچان یعنی Self-Esteem کی ضرورت کہ انسان چاہتا ہے کہ وہ اور اس کے کام کو لوگ جانیں۔ تھرڈ ورلڈ ممالک میں رہنے والے اکثر لوگ بمشکل پہلی دو تین منزلوں میں ہی گھومتے رہتے ہیں، اور پوری عمر ان کی روٹی ، کپڑے مکان کے چکر میں نکل جاتی ہے۔ وہ کبھی اس سے اوپر جا ہی نہیں پاتے۔ تارے تکتے میں نے Maslow کے اسی Pyramid کی پانچویں منزل کو پڑھا، تو مجھے ایم بی بی ایس کے پانچ سالوں کے آخری دن اس بات کا شدید احساس ہوا کہ ابتک کی تمام زندگی ایک سراب میں گزاری۔ ایک ایسی زندگی کے جس میں مجھ میں اور کسی جانور میں کوئی خاص فرق نہیں تھا، یہ سب کس لیے تھے؟ وہی اچھا گھر، دو وقت کی روٹی، تحفظ،تھوڑے تعلقات اور زیادہ سے زیادہ یہ کہ تھوڑی پہچان۔ میری عمر بھر کی تمام محنت میں وہ اصل شامل ہی نہیں تھا۔ وہ پانچویں منزل تھی،Self-Actualization۔ یعنی خود شناسی، دوسرے الفاظ میں انہیں تین قیمتی سوالوں کا اصل جواب۔ جو ڈاکٹر بننے کے بعد میرے پاس نہیں تھا۔ میں کون تھا؟ کیوں تھا؟ اور دنیا سے کیا کر کے جانا ہے؟ مطلب سکول، کالج، میڈیکل کالج سب نے مجھے صحیح معنوں میں معاشرہ میں ایک ایسا بہترین شخص تو بنا دیا کہ جو بہترطریقے سے pyramid کی پہلی دو تین منزلوں میں پھرتا رہے ، مگر کبھی کسی نے مجھے اس کی منزل کے بارے میں نہیں بتایا نہ پڑھایا۔ اس منزل کی مزید تفصیل کھوجی تو اندازہ ہوا کہ اس منزل تک صرف پہنچنے کے لیے آپ کو پہلی منزل سے شروع نہیں ہونا پڑتا ۔ آپ دنیا میں سافٹ وئیر ہاﺅسز کے مالکان، فیس بک کے مارک زکر برگ، ایپل کمپنی کے سٹیو جابز سے لے کر ویران گلیوں میں گھومتے جون ایلیا میں سے کسی کو لے لیں، جس نے اس دنیا میں نام بنایا، یا کچھ حاصل کیا، اس کے سفر میں باقی چار منزلوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی، ان سب نے سفر کی پانچویں منزل سے شروع کیا، خود شناسی کی منزل سے۔ اقبال کی خودی کی منزل سے، امام غزالی کے اس قول سے ، جس نے خود کو پہچانا ،اس نے خدا کو پہچان لیا۔ کہیں اس منزل کا تعلق شاید اس لو سے بھی جڑتا ملا ،جسے دربار وں پر تبریزیت میں جھومتے رومی، عشق کا نام دیتے ہیں، یعنی یہ سب چکر ہی اور تھا، اور معاشرے نے صرف دماغ کی جگہ پیٹ رکھ کر، مجھے سب بھولنے پر مجبود کردیا تھا۔ مجھے پیٹ پڑھایا گیا، پیٹ سکھایا گیا اور پیٹ کے لیے ہی جینا سکھایا گیا۔ تیسرے درجے کے ملک کا باسی ہونے کے ناطے میں اور اس دلدل میں دھنستا گیا، میں شاید ڈاکٹر تو بن گیا، مگر وہ انسان نہ بنا کہ جس کے لیے مجھے تخلیق کیا گیا تھا۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ میری ماں مجھے جس نظام کے سانچے میں پہلے دن انگلی پکڑ کر چھوڑ آئی تھی، وہ سانچہ مجھے زندگی کے وہ چار سال لوٹانے کے لیے تھا، جو میں نے یہاں آنے سے پہلے گزارے تھے، یعنی اپنے پیر پر کھڑا ہوکر، خود اپنے دودھ،روٹی،کپڑے کا بندوبست کرنا اور پھر کسی اور ایسے کو ہی جنم دینا اور اس کی انگلی پکڑ کر اس کو بھی اسی طرح روتا اس نظام کے حوالے کر آنا کہ وہ بھی یہ سب کر سکے، مطلب وہی پہلی دو تین چار منزلوں کی کہانی، پھر یہ پانچویں منزل نے کہاں سے جنم لینا تھا؟ وہ منزل جو بڑے انسان پیدا کرتی ہے، یہ سلسلے تو ہر تہذیب میں ہزاروں سالوں سے جاری ہیں، ارسطو کے دور سے، موسیٰ کے دو ر سے، رومی کے دور سے، مگر کبھی ہمارے نظام میں اس منزل کو شامل کیوں نہیں گیا۔ اس سوال کی تلاش ایک روز مجھے رات کے آخری پہر گاڑیاں صاف کرتے ایک بچے کے پاس لے آئی، وہ بارش تھمنے کے بعد کسی کی گاڑی صاف کررہا تھا، پاس بلایا ،تھوڑی روداد سنی تو اس کی زندگی بھی انہی دو تین منزلوں تک تھی، باپ نشہ کرتا ہے، بہن بھائی چھوٹے ہیں، کھانا لے کرجانا ہے۔ مگر جاتے جاتے وہ مجھے اس سوال کا جواب دے گیا، میں نے پوچھا تم پڑھتے نہیں ہو، تو کہنے لگا پڑھتا ہوں، ڈاکٹر بنو گے؟ نہیں، میں پینٹنگ اچھی بناتا ہوں، مجھے مائیکل اینجیلو بہت پسند ہے، وہی بناؤں گا، میں مائیکل اینجیلو بنوں گا۔ اپنی پینٹنگز کے ذریعے سب کو بتاؤں گا کہ ہم کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ مطلب سات آٹھ سال کا گاڑیاں صاف کرتا بچہ، اس عمر میں اپنا ٹیلنٹ جانتا تھا؟ شاید دائرے کی وسعت زیاد ہ نہیں تھی، مگر وہ میرے بچپن کی طرح انگلی پکڑ کر ایک نظام میں ڈاکٹر یا ایجینئر بننے کا خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔ اسے پتہ تھا وہ کون تھا؟ اس کی پہچان کیا تھی اور اسے کیا کرنا تھا؟ ایم بی بی ایس کے بعد میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ڈاکٹر کے ساتھ اپنے اس ٹیلنٹ یاں شوق کو جاری رکھوں گا،جو دل میںہے ،اور وہ لکھنے کا شوق تھا۔ ڈاکٹر ی تو آج بھی پہلی جماعت کے بچے جیسی محنت طلب ہے، مگر پانچویں منزل کی تھوڑی سی روشنی نے زندگی روشن کردی۔ اپنی اولاد کو سرد برف کے مہنگے ترین سانچوں میں ڈال کر، معاشرے کا قابل انسان بنانے کی بجائے، دنیا کا قابل انسان بنائیں۔ انہیں شعور ،سوچ اور بیداریت کی ترغیب دیں۔ گرہن زدہ چاند کی تاریک راتوں میں اتنے دیے جلائیں کہ وہ اپنا آپ پہچان لیں۔ہو سکتا ہے وہ پہلی چار منزلوں سے پہلے ہی پانچویں منزل پر چڑھ کر دنیا فتح کرلیں۔ خودشناسی کی منزل۔ وہی خودی کی منزل کے جس کے بارے میں کہا گیا ہے ،
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
مجھے اس دن سے خوف آتا ہے کہ جب اپنی ماں کی طرح میں اپنی بیٹی کی انگلی پکڑ کر اسے روتا اس نظام کے حوالے کرکے آؤں گا جو ماسلو کے pyramid کی پہلی دو تین منزلوں تک ہی محدود ہے۔
فیس بک کمینٹ