الیکٹرانک میڈیا کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ کوئی بھی ”ایشو“ ہو تو ہر چینل پر ایک ایک بقراط اینکر بیٹھا ہوتا ہے وہ دوتین لوگوں کو مدعو کرتا ہے اور انہیں آپس میں لڑاتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں اس روز کے ایشو پر ادھر اُدھر کی باتیں کرتے ہیں اور پروگرام ختم ہوجاتا ہے، یوں اینکر کی آج کی دیہاڑی لگ جاتی ہے۔ اس طرح کے ٹاک شوز کا قوم کو کیا فائدہ ؟
یہی کچھ ”ٹویٹر“ بھی ہوتا ہے۔ ہم نے ان ٹاک شوز میں کسی بھی ایشو پر سیریس تجزیہ نہیں دیکھا جہاں مدعو کئے گئے مہمان آپس میں سرجوڑ کر اس ایشو پر اپنی ماہرانہ رائے دے کر نتائج اخذ کریں اور ان نتائج کے لیے باقاعدہ پریشر گروپس کے ذریعے عملی صورت سامنے لائیں، یہاں ہمارے ٹاک شوز میں ہر سیاسی پارٹی کا ایک نمائندہ بلاکر ایک دوسرے سے الجھایا جاتا ہے اور بس ….آخر میں بحث کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آتا۔
ٹاک شوز ضرور ہوں مگر وطن عزیز کے اہم اور سنجیدہ ایشوز پر اس شعبے کے ماہرین کو مدعو کرکے ان کی تجاویز سے استفادہ کریں۔ سیاسی نمائندوں کی بحث برائے بحث سے کوئی فائدہ نہیں۔ الیکٹرانک میڈیا میں بعض غیرضروری ایشو بھی خبروں کی زد میں لائے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر خیال رکھا جائے کہ منفی قسم کے پروپیگنڈہ پر مبنی اور جھوٹی خبریں بھی نہ دکھائی جائیں۔
رات ہم پلاسٹک کے لفافے بنانے والوں کا احتجاج ٹی وی پر دیکھ رہے تھے، جس میں چند خواتین وحضرات، جن میں پلاسٹک یا پولی تھین کا کاروبار کرنے والے تاجر اور ان کے ملازمین شامل تھے۔ یہ سب لوگ اس بات پر احتجاجی مظاہرہ کررہے تھے کہ پلاسٹک پولی تھین کے لفافوں پر پابندی کیوں لگائی گئی ہے؟؟ ہمارا تو کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے “۔وغیرہ وغیرہ۔
اگر کوئی زہر کا کاروبار کرے بلکہ لوگوں میں زہر تقسیم کرنے کی تجارت کرے تو کیا حکومت اسے روکنے کی کوشش نہ کرے۔ صرف اس لیے کہ اُن کے بچے بھوکے مر جائیں گے؟۔ غور کرنے کی بات ہے کہ منشیات کا کاروبار کیوں منع ہے؟؟۔ اس لیے کہ اس سے انسانی صحت متاثر ہوتی ہے، معاشرتی بگاڑ جنم لیتا ہے۔ نجانے کاروبار کرنے والے اپنے لیے کوئی مثبت کاروبار کیوں نہیں کرسکتے۔
اب سندھ میں ممنوعہ پلاسٹک کے لفافے بنانے اور فروخت کرنے پر پابندی لگائی گئی۔ حکومت اس طرح کی مضرصحت اشیاءکے تاجروں کو لگام نہ ڈالے تو اور کیا کرے؟۔
اب اگر میڈیا اس طرح کے احتجاج کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا تو یہ ملک وقوم کی خدمت قرار نہیں دی جاسکتی۔
زندگی میں ہزاروں مسائل ہیں۔ انہیں میڈیا کا موضوع بننا چاہیے، یہی حال ٹی وی کے تفریحی پروگراموں کا ہے۔ کسی بھی چینل کے ڈرامے کو دیکھ لیں ایک ہی کہانی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ چل رہی ہوتی ہے۔ موسیقی بھی روبہ زوال ہے۔ ادب اور کتاب کلچر کو فروغ دینے میں بھی کبھی سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ہر نوجوان نے اپنا یوٹیوب چینل بنا لیا ہے۔ اس سے نوجوان چلتے پھرتے کیمرہ لیے، ویڈیو کلپ بناتے نظر آتے ہیں کئی ایک تو اس شوق کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لوگ سیلفی لیتے تو مررہے تھے اب ویڈیو بناتے حادثے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ آخر انسان کدھر جارہا ہے۔ یہ تفکر کا مقام ہے ۔ نئی نسل کا حال تو یہ ہے کہ ایک دن محلے کے بزرگ نے اپنے ناکارہ بیٹے کو ڈانٹ کر کہا :” کہ آئندہ تمہیں خرچ کرنے کے لیے ایک پائی بھی نہیں دوں گا۔ آج سے تم میرے لیے مرگئے ہو“۔ بیٹے نے عاجزی سے کہا :” اباجی : کفن دفن کے لیے کچھ دے دیں پلیز ….“
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)