علم اور حق کا طالب اچھا سامع بھی ہوتا ہے ۔ اچھی بات مومن کے دل میں جذب ہو جاتی ہے ۔ حکمت ، دانائی اور دل کو چھو لینے والی باتیں کہیں سے بھی نصیب ہوں ، پلّے باندھ لیں ۔ ایسی باتوں میں تاثیر کی بڑی خوشبو ہوتی ہے ۔ دل ان پر ایمان لے آتا ہے ۔ قرانی آیات ، احادیث مبارکہ ، اللہ والوں کے اقوال ہوں یا صوفےانہ فکر اور دانشوروں کی باتیں ، ان میں زبردست گہرائی ، سچائی ، تاثیر ، تجربہ مشاہدہ اور ریاضت سبھی کچھ گُندھا ہو تا ہے ۔ بات سمجھانے کے لیے بعض اوقات ، تماثیل ،کہاوتیں اور ضرب المثال بھی کام میں لائی جاتی ہیں ۔ مقصد بات کو سمجھانا اور عام فہم بنانا ہوتا ہے ۔ ایسی تمام تماثیل اور کہاوتیں ، کتابوں اور رسائل میں تلاش سے نہیں ملتیں، سو جب کچھ جاننے بوجھنے کی تمنا ہو تو پہلے طالب بننا پڑتا ہے ۔ طلب رکھنے والے ، بحث منطقی دلائل ، سائنسی تو جیہات درمیان میں لائے بغیر ، فقط سماعت کا کشکول کھلا رکھتے ہیں ۔ جستجو جاننے اور کچھ پانے کی ہو تو وقت کے ساتھ ساتھ ہر بات اور ہر سوال کا جواب بھی خود پر منکشف ہونے لگتا ہے اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے کہ ہونٹوں پر چُپ کے تا لے لگ جاتے ہیں ۔۔۔۔ چُپ میں بڑے بھید پوشیدہ ہیں ۔ بس آنکھیں کھلی رکھےے اور زبان بند ۔
عشق کی پہلی منزل چُپ
سب سے پہلے کسی ( مرشد ، استاد ، رہنما ) کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے ، یقین کی راہ اختیا ر کر نی پڑتی ہے طالب کا یہی کام ہے
یقیں پیدا کر اے ناداں یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
بعض اوقات جو کچھ سامنے رونما ہو رہا ہو تا ہے اور جو کچھ دکھائی دیتا ہے ، حقیقت اس کے بر عکس ہوتی ہے ( حضرت موسٰی اور حضرت خضر ؑ کی ملاقات کو دھیان میں لائیں )
آپ بھلے عالم فاضل سہی لیکن ۔۔۔۔۔ابھی اپنی پہچان سے بہرہ ور نہیں ہیں تو کسی اور کا سہارا لینا پڑے گا ۔۔۔۔ گاڑی بھلے نئی زیرو میٹر ہو، پٹرول ڈیزل گیس سے بھری ہو،چلنے کو بالکل تیار ہو لیکن اسے چلانے کے لیے بہرحال ایک ڈرائیور کی ضرورت ہوا کرتی ہے ، سو انسان کتنا ہی پڑھا لکھا ، عالم فاضل ، نیک وپارسا ہو، اُسے ایک ہا دی درکار ہو تا ہے ۔ بقول وارث شاہ
بناں مُر شد راہ نہ ہتھ آوے
دودھ باہجھ نہ رجھدی کھیر سائیں
اس راہ پر لگن سچی رکھنی پڑتی ہے اور ہمیشہ راہ پر رہنا پڑتا ہے ۔۔۔ لیکن پہلے خود پر نگاہ ڈالیں ، اپنے آپ پر غور کریں کیا آپ جاگا ہوا دل رکھتے ہیں ؟ خود کو ٹٹولیے کیا آپ حواس بیدار ہیں ؟
دل بیدار فاروقی، دل ِ بیدار کراّری
مسِ آدم کے حق میں کےمےا ہے دل کی بیداری
دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری
دل ہمارا بہترین دوست ہے ، بہترین مشیر ہے ، بروقت آگاہ کرنے والامشورہ دینے والا ، ہمارا محسن ،درد مند ۔۔۔ رفیق ،یہ دل ہمارا سب کچھ ہے ۔ ا ٓقائے دو جہاں رحمت للعا لمین حضرت محمد فرماتے ہیں :
”کہ انسانی جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر یہ سلامت رہے تو سارا جسم سلامت رہتا ہے اور اگر یہ خراب ہو جائے تو سارا جسم ہی خراب ہو جاتا ہے اور جان لو کہ یہ دل ہے“
مجھے یہ ڈر ہے دل ِ زندہ تُو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
زندگی دل کے جینے سے عبارت ہوتی ہے مگر اس دنیا میں دل کے مشوروں پر دھیان نہ دے کر ہم اسے ہمیشہ کے لیے زنگ آلود کر لیتے ہیں ، دل کی آواز ضمیر کی صدا ہے ، دل کی دھڑکن کیا ہے ؟ دل پر دھیان دینے سے راز ِ حیات تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے ۔
آئیے دیکھیں دل میں درد اور جذبہ رحم کی کو ئی رتّی بھی موجود ہے کہ نہیں ، دل کا امتحان لیں اسے درد کی کسوٹی پر پرکھیں ،پھر ارادہ کریں سچی لگن کا ، راہ ِحق پر چلنے کا ۔۔۔۔ راستہ خود بخود آپ کو تلا ش کر ے گا ۔ کیاکسی پر ظلم ہوتا دیکھ کر آپ کے دل میں رحم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں؟کیاکبھی کسی کے دکھ پر آپ کا دل بھرآیا ہے ؟۔ ۔۔ کسی کو دُکھی دیکھ کر کبھی آپکے آنسو نکلے ہیں ؟اگر ایساہے تو آپ کے دل میں ایمان کی وہ رتّی بھر چنگاری موجو د ہے ، جو کسی وقت بھی شعلوں کا روپ دھار سکتی ہے ۔
بقول میاں محمد بخشؒ :
جس دل اندر ہو وے بھائی ہک رتّی چنگاری
ایہہ قصّہ پڑھ بھانبڑ بنسی نال ربے دی یاری
ایسے ہی دلوں میں خوف خدا ، دوسروں کا احساس ، درد ، رحم اور نیک جذبات جنم لیتے ہیں ۔ ایسے ہی قلوب شفاف ہوا کرتے ہیں ۔ انہی قلوب کے لیے کہا گیا ہے ۔
قلب المومن عر ش اللہ تعالیٰ! ( مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عر ش ہے )
یہی وہ شیشہ ہے جو جس قدر صا ف ہو کائنات اور اپنا آپ اتنا ہی واضح اور شفاف دکھائی دیتا ہے ۔
آ تش فر ماتے ہیں ؛
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو پھر آئینہ خانہ کےا
دل کی کھیتی زرخیز ہو تو اس میں اچھی بات کے بےج ضرور اُگ آتے ہیں اور بات اپنا اثر اور رنگ دکھاتی ہے ۔ سچی کھری بات کا بیج پودا بنتا ہے ، شاخیں نکلتی ہیں، پھول کھلتے ہیں اور خوشبو دور دور تک پھیل جاتی ہے ۔ حکمت ، دانائی سے معمور کلام دل کو چھُو لیتا ہے گویا کلا م کی یہ خوشبو اند ر جذب ہو جاتی ہے یعنی لہو میں گھل جاتی ہے ۔۔۔۔ اور پھر اس کی تا ثیر اپنا کام دکھاتی ہے۔ واقعتا پھر باتوں سے خوشبو آیا کرتی ہے ۔ جس انسان کو بات کا اثر نہیں ہو تا یا جسے بات نہیں لگتی ، اسے اپنے دل پر توجہ دینی چاہیے، علاج کرانا چاہیے ۔۔۔۔ دراصل جیسے ہوا لگتی ہے ویسے ہی بات لگ جاتی ہے یعنی جو ں سرد اور گرم ہوا کا اثر ہوتا ہے بات بھی اثر رکھتی ہے ۔ مگر اس کے لیے سننے والے کا دل وہی درد تڑپ اور کسک رکھتا ہو جو اوپر بیان کی گئی ہے ۔ اگر بات دل کو چھُو جائے تو سمجھیں آپ کا دل کارآمد ہے، ابھی اسے زیادہ زنگ نہیں لگا، ابھی اس پر زیادہ گرد نہیں جمی ، اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے ،اس میں ایمان کی وہ رتّی موجود ہے جس کا تذکرہ حضرت میاں محمد بخشؒ صاحب نے اوپر کیا ۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ فرماتے ہیں :
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ اللہ تو کیا حاصل
دل ونگاہ مسلماں نہیں کچھ بھی نہیں
دل صاف و شفا ف ارادہ پختہ ، نیک اور ضمیر روشن ہو تو پھر راستہ بھی روشن ہو جاتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ