دور حاضر میں پہلے سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ارتقا کی منازل طے کرتی ہوئی انسانی فکر اوہام کے پردے بھی دن رات چاک کر رہی ہے۔ پچھلی کچھ صدیوں سے سرمائے کی یزیدیت محنت کی حسینیت پر حاوی رہی ہے۔ آج ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جس میں اس یزیدی نظام میں وہ اہلیت بتدریج ختم ہو چکی ہے جس سے یہ خود کو سنبھال سکے اور کسی بھی طور سے اسے چلا سکے۔
میں بحیثیت ایک کینسر کے معالج کے بہت صاف دیکھ رہا ہوں کہ اس خوبصورت قدرتی سیارے کا مالک و مختار انسان اپنے ہی گھر کا نظم و نسق چلانے میں کس قدر بےبس ہو چکا ہے۔ میں یہاں سرطان کے مرض کی مثال دوں گا۔ پچھلی دو دہائیوں میں انسان نے طبی سائنس میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ کچھ عشروں پہلے ناقابل علاج اور قدرتی آفت سمجھا جانے والا یہ مرض آج 80 فیصد تک اس کے قابو میں آ چکا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا بھر کے طبی سائنسدان اس علاج کو دکھی انسانیت پر لاگو کرنے کے لیے سرمائے کے محتاج ہیں۔ وہ اپنی بنائی ہوئی ادویات محض اس لیے لوگوں تک نہیں پہنچا سکتے کہ ان پر سرمایہ لگانے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں انہیں کھل کر ایسا کرنے سے روک دیتی ہیں۔ اس ظالمانہ عمل میں دنیا کے چند فیصد افراد شامل ہیں، جن کا واحد مقصد سرمائے کا حصول ہے۔ ان بےحس پیسے کے پجاریوں کے نزدیک انسان کے دکھ درد اور اس کی زندگی سے بڑھ کر اہمیت ان کی بھری ہوئی تجوریوں کی ہے۔ یہ تجوریاں ان مٹھی بھر افراد نے اکثریتی محنت کش طبقے کا خون پسینہ نچوڑ کر بھری ہیں۔
پاکستان ان غریب ممالک میں سے ایک ہے جہاں مریض نمونیا اور اسہال جیسی انتہائی عام اور قابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ نجی ہسپتال جگہ جگہ انسان کی مجبوری سے فوائد اٹھانے کے لیے اژدہوں کی طرح اپنے منہ کھولے بیٹھے ہیں۔ بہت سے مریض سرکاری ہسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث ان کے باہر فٹ پاتھوں، ایمبولینسوں اور رکشوں میں ہی جان کی بازی ہار بیٹھتے ہیں۔ اس صورتحال میں ان مریضوں کو سرطان کے انتہائی مہنگے علاج سے روبصحت کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔کینسر کے لفظ میں بہت درد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ عام قابل علاج بیماریوں سے زیادہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ صرف وہ جسمانی دکھ نہیں جو اس سے منسلک ہے۔ بلکہ اس کا سبب وہ سرمایہ ہے جو اس کا شکار ہونے والے افراد کو جیتے جی مار دیتا ہے۔ اس مرض کے شکار ہونے والے افراد کے علاج کی خاطر ان کے والدین اور عزیز و اقربا ہزاروں میل کا سفر کرتے ہیں۔ وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر شفا کی امید لیے پردیس میں آن بستے ہیں۔ بہت سے افراد اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یوں وہ دو وقت کی روٹی تک کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ سرطان صرف مریض کو بیمار نہیں کرتا بلکہ اس کے لواحقین اور اس خاندان کے بچوں تک کو بہت سی نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایسے عالم میں سرمایہ دار "مخیر حضرات” بن کر ان انسانوں کی حالت زار پر رحم کھاتا ہے۔ دور جدید میں خیرات اور چیریٹی کا بہت چرچا ہے۔ چالباز سرمایہ دار نے غریب مریضوں کی امداد کی خاطر چندہ اکٹھا کرنے لیے کارپوریٹ ایجنسیاں کھول رکھی ہیں۔ ہمارے ملک کے تمام بڑے خیراتی ہسپتال صدقہ خیرات اکٹھا کرنے کے لیے ان ایجنسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جمع شدہ خیرات کا ایک مقرر کردہ فیصد حصہ ان کو منافع کے طور ادا کیا جاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی مکروہ اور بدبودار دھندا ہے جس سے بہت سے لوگ واقف ہی نہیں ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں جسمانی سرطان براہ راست اس معاشرے کے بڑے معاشی ناسور یعنی سرمایہ داری سے جڑ جاتا ہے۔ اس معاشی سرطان کا علاج محض ڈھکوسلوں اور حیلوں بہانوں سے ناممکن ہے۔ بہت سے جسمانی سرطان ایسے ہیں جن کا علاج سرجری یعنی آپریشن سے کیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو شعاعوں اور کیمیائی ادویات کی مدد لی جاتی ہے۔ سرمایہ داری کے معاشی سرطان کے علاج کے لیے بھی مارکس اور اس کے قبیلے کے افراد نے کچھ حل پیش کیے ہیں۔ ان طریقہ ہائے علاج کا مقصد دنیا کا معاشی نظم و نسق چلانے کا اختیار ان محنت کشوں کے ہاتھوں میں دینا ہے جو دنیا کا نظام چلانے کی اپنی مخلصانہ انفرادی اور اجتماعی جدوجہد میں اپنی جانوں تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جس کے لیے فیض نے کہا تھا کہ "ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے”۔ سوشلزم معاشرے میں رائج پرامن مذاہب، رسوم و رواج اور عقائد کا بےحد احترام کرتا ہے، لیکن یہ دھیان بھی رکھتا ہے کہ عہدحاضر کا یزید ان سب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے۔
کوئی برپا کرے اس کا بھی ماتم
یہ جو اس عہد کی کرب و بلا ہے
فیس بک کمینٹ