سماج کی نظر سے دیکھیے تو میں غلط تھا بلکہ مجرم تھا، گنہگار تھا۔ میں نے اپنے اور اپنے طبقے کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ سماج میں میرے دوست، میرے ساتھ کام کرنے والے افراد اور میرا خاندان سب مجھے تنہا چھوڑ گئے۔ مجھے میرے ہی گھر سے نکال دیا گیا اور میرے بچوں کو مجھ سے متنفر کر کے انہیں مجھ سے الگ کر دیا گیا۔ لیکن یہ میری مظلومیت کی داستان نہیں بلکہ وہ سزا ہے جو سماج نے مجھے ان جرائم کے بدلے دی جن کا ارتکاب میں اپنی بیروزگاری کے بعد مسلسل کرتا رہا۔
میں ایک سعیء لاحاصل کرتا رہا کہ خود کو بدلے بغیر میں سماج میں دوبارہ وہی مقام حاصل کر سکتا ہوں جس کا میں مستحق تھا۔ میں نے قدم قدم پر مزاحمت ضرور کی لیکن ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ میں معاشرے کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہوں۔ میں اپنی بےروزگاری کے باوجود فارغ نہیں بیٹھا اور مستقل بچوں کے سرطان کے شعبے سے وابستہ رہا۔ نجی اور انفرادی طور پر میں سرطان کے بچوں کے لیے جو کچھ کر سکتا تھا، وہ میں نے کیا۔ شوکت خانم ہسپتال کے بعد انڈس ہسپتال سے بھی مجھے ناجائز طور پر نکال باہر کیا گیا۔ میں نے اس کے باوجود جب اور جہاں کہیں نوکری کے مواقع میسر آئے، وہاں درخواست دی۔ آغا خان ہسپتال جہاں سے میں نے تربیت حاصل کی مجھ سے بری طرح پیش آیا۔ میری اہلیت اور بچوں کے کینسر میں اعلیٰ ترین ہسپتالوں سے حاصل کردہ میرے وسیع تجربے کے باوجود آغا خان ہسپتال کے اہل اختیار نے مجھے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ میں وہاں کام کرنے کا مستحق نہیں ہوں۔ میں نے بچوں کے شعبہء سرطان میں کنسلٹنٹ ہی نہیں بلکہ میڈیکل افسر کے طور پر کام کرنے کی بھی درخواست دی لیکن اسے بھی مسترد کر دیا گیا۔ ملتان کے نجی ہسپتالوں بچ ہسپتال اور مختار شیخ ہسپتال نے بھی میری خدمات کا اعتراف نہیں کیا اور مجھے نظرانداز کر دیا۔ اس کے باوجود میں نے ملازمت کی کوشش جاری رکھی اور ساتھ ہی ٹیومر بورڈز اور میڈیا پر تحریروں اور ویڈیوز کے ذریعے بچوں کے سرطان پر کام کرتا رہا۔ لاہور کے ایک نجی ہسپتال سلیم میموریل نے مجھے وزیٹنگ کنسلٹنٹ کی تعیناتی کے اگلے ہی روز یہ کہہ کر نکال دیا کہ میں اس عہدے کا اہل نہیں ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میری تحریریں اور آگاہی کی ویڈیوز نجی اداروں کی ساکھ کو متاثر کر سکتی تھیں۔
آخر میں ہار گیا۔ میں نے اپنی مزاحمتی اور احتجاجی ویڈیوز اور اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس حذف کر دیے۔ میں نے اہل اختیار سے معافی بھی مانگ لی اور تائب ہو کر مثبت انداز میں کام کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔ میرے اس عمل سے میرے دوست، میرے خاندان کے افراد اور اہل اختیار خوش ہو گئے لیکن انہوں نے میری سزا معطل نہیں کی۔ مجھے اب بھی انتہائی سماجی تنہائی اور مالی مشگلات کا سامنا ہے۔ لوگ ضرورت پڑنے پر مجھ سے ذہنی کام لیتے ہیں اور فوائد اٹھاتے ہیں لیکن روزگار یا ساتھ دینے کی شکل میں مجھے اس کا صلہ بالکل نہیں دیتے۔ پچھلے دنوں میری پیش کردہ تجاویز مثلاً پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن کے انیس کینسر ہسپتالوں میں بچوں کے سرطان کو شامل کرنے کی میری اہم تجویز کو قومی ورکشاپ میں پیش کیا گیا لیکن نہ تو میرا نام لیا گیا اور نہ شکریہ ادا کیا گیا۔ مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے۔
میں اہل اختیار اور خدایان دوراں تک یہ بات پہنچانا چاہتا ہوں کہ اگر میری مزاحمت اور میری خاموشی، دونوں صورتوں میں میری شکست ہی ہے تو میں کیوں نہ مزاحمت کا راستہ ہی دوبارہ اختیار کروں ۔ مجھے کسی کی ہمدردی یا دعا نہیں بلکہ پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔ پچھلے دو سال سے میں اپنے بھائی کے گھر پر ایک بوجھ بنا بیٹھا ہوں اور اس کے مسائل میں اضافہ کر رہا ہوں۔ بہر حال میں اس کا بےحد احسان مند ہوں کہ وہ سودوزیاں کی دنیا میں کسی حد تک دردالفت کا ساتھ تو دے رہا ہے۔
میری یہ تحریر یقیناً میرے سماجی رشتہ داروں اور دوستوں پر گراں گزرے گی جس پر میں ان سے معذرت خواہ ہوں۔
فیس بک کمینٹ