کئی روز سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی ہڑتال اور کلاسوں کے بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے پورا تعلیمی نظام متاثر اور مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور طلبہ و طالبات کی تعلیم کا شدید حرج ہو رہا ہے۔ یہ نقصان کیوں ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے۔ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
اساتذہ معاشرے کے وہ افراد ہیں جنہیں معمارانِ قوم کہا جاتا ھے اور کسی قوم کی ترقی اور فلاح کا راز اس کے تعلیمی نظام میں مضمر ہوتا ہے۔ یہ استاد ہی ہوتے ہیں جو ایک عام سے طالب علم کو اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے آسمان پر پہنچا دیتے ہیں۔ اپنے تعلیمی فرائض کے ساتھ ساتھ یہ اساتذہ دیگر فرائض انجام دینے کے لئے بھی ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ الیکشن کی ڈیوٹی ہو یا مردم شماری، پولیو کے قطرے پلانے ہوں یا بھل صفائی کروانی ہو، ڈینگی کا مسلہ ہو یا کرونا کے پھیلاؤ کو روکنا ہو، دن ہو یا رات، استاد ہر ڈیوٹی کو ادا کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
ان اساتذہ کو جب بھرتی کیا گیا تو انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کی ملازمت کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ آئین میں ان کی بھرتی اور حاصل فوائد کا نہ صرف بتایا گیا تھا بلکہ ایک قانونی دستاویز پر ان سے معاہدہ بھی کیا گیا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو لیو انکیشمنٹ اور پینشن کی سہولت حاصل ہو گی۔ اپنی زندگی کے عروج کے پینتیس چالیس ملک اور قوم کی خدمت کے لیے وقف کر کے جب وہ بوڑھا ہو جائے گا تو گورنمنٹ اس کا سہارا بنے گی۔ اساتذہ کی اپنی تنخواہوں سے ایک معقول رقم اس سلسلے میں کٹتی رہتی ہے جو پینشن اور لیو انکیشمنٹ کی صورت میں ریٹائر ہونے پر ملتی ہے۔
وہ یہ رقم کیوں کٹواتا رہتا ہے اس لئے کہ اسے پتا ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ پر اسے پینشن یا لیو انکیشمنٹ کی صورت میں جو رقم ملے گی اس سے میں اپنے بچوں کی شادیاں کروں گا یا اپنے مکان کی مرمت کرا لوں گا یا اپنا اور اپنے والدین کا تسلی سے علاج کروا لوں گا۔ موجودہ حکومت پنجاب نے اس لیو انکیشمنٹ اور پینشن کو کم کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ نگران حکومت کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے۔ یہ کام منتخب حکومت کے کرنے کے ییں۔ حالانکہ منتخب حکومت بھی اس طرح کے معاملات کو نہیں چھیڑتی کیونکہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ اس سے ملک میں انتشار و افتراق کی فضا پیدا ہو گی۔ پھر بھی اگر ملک کے معاشی حالات کے تناظر میں اگر کوئی ایسا فیصلہ کرنا پڑ جائے تو آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور اس کا اطلاق مستقبل سے ہو سکتا ے نہ کہ ماضی سے۔
اساتذہ کا احتجاج اور ہڑتال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہوں نے بار بار حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروانے کی کوشش کی مگر حکومت پنجاب نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی اور یک طرفہ فیصلے کرتی رہی۔ اب جبکہ پینشن اور لیو انکیشمنٹ میں کمی کے نوٹیفکیشن ہو چکے ہیں اور مستقبل میں سرکاری تعلیمی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کا سگنل بھی دیا جا رہا ھے تو اساتذہ کمیونٹی میں اس معاملے پر بہت بے چینی پائی جاتی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے زیادہ تر طالب علم سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ وہ مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ تعلیمی اداروں کی پرائیویٹائزیشن اور ان کی این جی اوز کو حوالگی کے بعد تعلیم اس قدر مہنگی ہو جائے گی کہ عام آدمی کی دسترس میں نہیں رہے گی۔
یہ مسئلہ صرف اساتذہ ہی کا نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا ان تبدیلیوں سے متاثر ہو گا اور اس کا شکار ہو جائے گا۔ پہلے اسکیل سے بیسویں اسکیل تک کے تمام ملازمین خصوصی طور پر ان تبدیلیوں سے متاثر ہوں گے اور آئین میں درج شدہ سہولیات سے محروم ہو جائیں گے۔ حکومت پنجاب کو ان ملازمین خصوصی طور پر اساتذہ کی بات سننی چاہیئے اور اس کا کوئی دیرپا حل نکالنا چاہیئے۔ تعلیمی بریک ڈاؤن سے طلبہ و طالبات کا بھی نقصان ہو رہا ہے اور حکومت بھی بدنام ہو رہی ہے۔ اساتذہ کی گرفتاریوں سے معاملہ اور سنگین ہو جائے گا۔ اس لیے گرفتار اساتذہ کو فوراً رہا کر کے حکومت کو مذاکرات کی میز پر آنا چاہیئے۔ اساتذہ سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنے کا فیصلہ حکومت پنجاب کو نہ جانے کس بیوقوف نے دیا ہے۔
فیس بک کمینٹ