یوں تو پاکستان میں تعلیم اپنے زوال کی انتہا کو پہنچ چکی ھے۔پرائمری جماعتوں سے لے کر کالجز کی سطح تک تو سب کچھ پہلے ہی سے تباہ ہو چکا تھا اب فضیلت کی اعلی سطح کے ادارے بھی موت کے دھانے پر ہیں۔ویسے تو پورے پنجاب کی جامعات میں شاید ہی کوئی جامعہ ہو جہاں سکالر وائس چانسلر اپنے فرائض_منصبی ادا کر رہا ہو۔مگر جنوبی پنجاب میں تو عجیب و غریب مائنڈ سیٹ کے وائس چانسلرز مضحکہ خیز حرکات سے باوقار عہدوں پر براجمان ہیں۔کچھ عرصہ پہلے میں ایک جامعہ کے وی سی سے ملنے گیا تو اپنے ساتھ کچھ کتب بطور تحفہ بھی لے گیا جنھیں دیکھتے ہی موصوف کا چہرہ متغیر ہو گیا اور گویا ہوا کہ مجھے تو کتابیں پڑھنے کا شوق ہی نہیں بڑی شوخی سے کتب بینی کا مذاق اڑانے لگا۔وہ وی سی عارضی چارج پر تعینات ہوا تھا اور اسے دو نیم خواندہ سیاست دانوں نے مقرر کرایا تھا،یہ تجربہ ایک نوزائیدہ یونیورسٹی میں کیا گیا تھا بعد میں اس کے چارج میں توسیع کی گئی تھی۔
اس تجربے سے اس یونیورسٹی کی چال میں ایک ایسی لکنت آئی ہے کہ اصلاح کی دور دور تک کوئی امید بھی نہیں،سنا ہے اسی یونیورسٹی کا موجودہ وی سی حکمرانوں کا خاص بندہ ہے جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ طالبعلووں کے اصل مسائل کیا ہیں بلکہ ابھی تک کلاس رومز کا انتظام تک نہیں ہو سکا سٹاف کی نئی بھرتیوں کے لیے جو اشتہار دیا گیا ہے اس میں بعض مضامین کے مستقل اساتذہ کا کوئی ذکر ہی نہیں ۔گذشتہ برس جامعہ بہاول پور کے وی سی نے اقربا پروری کی انتہا کر دی اور اتنے بندے تعینات کیے کہ ابھی تک معاشی طور پر جامعہ سنبھل ہی نہیں سکی اور اب تو کئی کئی ماہ تک سٹاف کو تنخواہ بھی نہیں ملتی،جامعہ کا تدریسی ماحول اتنا برباد ہوا کہ آئے روز ہراسمنٹ اور جنسی سیکنڈلز کے واقعات عام ہونے لگے،تحفظ دینے والا چیف سیکورٹی افیسر ان واقعات کا خود چیف نکلا۔
ملتان کی ایک یونیورسٹی کے وی سی نے کلاس فور کے ملازم سے "ازدواجی”مراسم بنا رکھے تھے،معلوم ہوا کہ موصوف ان تعلقات کا ماہر ھے اور کئی اداروں سے نکالا بھی جا چکا ہے ،اس کا تعلیم میں پیشہ ریسرچ اورینٹیڈ ہی نہیں تھا بلکہ وہ کلرک نما افیسر کا تجربہ رکھتا تھا۔مگر ارباب اختیار نے اس چاپ لوس کے سرپر علمی فضیلیت کی دستار رکھ دی۔اب ملتان ہی کی ایک اور جامعہ کے وی سی کی پھرتیاں دیکھیں کہ اس نے ذاتی انا کی بنیاد پر صرف اس لیے ایک لائق استاد کو اپنے عتاب کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنی ایک رائے رکھتا تھا۔اس کو نہ صرف عجلت میں عہدے سے ہٹایا گیا بلکہ پولیس میں مقدمہ درج کراکر لاک اپ میں بھی ڈلوا دیا گیا۔دریا کے اس پار کی ایک یونیورسٹی کے وی سی کے تو رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں،موصوف کے کسی تیور سے دانش کا تاثر دکھائی نہیں دیتا۔یار یہ لوگ آ تے کہاں سے ہیں؟۔ان جامعات کا تعلیمی کلچر کیوں نہیں بن رہا،داخلوں کا شرح روز بروز گھٹتی کیوں جا رہی ھے،نئی بھرتیاں ھو ھی نہیں رھیں،یہ تمام جامعات سفارشی وزیٹنگ فیکلٹیز پر چل رہی ھیں ناتجربہ کار اساتذہ بھرتی کر کے تعلیمی معیار کا بیڑا غرق کیا جارہا ھے۔وی سیز کو ٹورے پھیرے سے فرصت ہی نہیں،ارباب اختیار اور سیاسیوں کی چاپلوسیاں کرنا ان کی رسم خاص ہے ،ابھی تک کئی مضامین کے نصاب تک ترتیب نہیں دیئے گئے اور جامعات میں نصابی اور ہم نصابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے طلبا کی ذہنی تشکیل ناممکن ھے۔ان جامعات میں فرسودہ نظام ہائے تدریس رائج ہیں اور کسی بھی شعبے میں جدید ریسرچ کا ماحول دکھائی نہیں دے رہا۔skill based مضامین متعارف ہو ہی نہیں رہے ۔ان سب کمزور پہلووں کے عقب میں پنجاب کی سیاست،سرائیکی وسیب کے ساتھ "وانجھ”سفارشی اور ول سے عاری وائس چانسلروں کی تعیناتی اور تعلیم اور دانش دشمنی جیسے اسباب موجود ھیں۔ان کا تدارک جامعات کی سچی اور قیادت ہی سے ممکن ہے۔اس سچی قیادت کے لیے ارباب اختیار کو غیر متعصب اور غیرجانبدار ہونا پڑے گا،موجودہ حالات میں شاید یہ ناممکن ہے ۔
فیس بک کمینٹ

