کیا زمانہ تھا کہ استاد”بڑے استاد "نہیں صرف ،استاد ہوا کرتے تھے ،وہ استاد جنہیں زندگی کا شعور تھا ،جنھیں بندگی کی آرزو تھی ۔۔۔مر کھپ گئے ۔۔۔۔۔۔اور اکیسویں صدی تک آتے آتے ،دیدہ وروں نے دیکھا کہ استادوں کے روپ بدل گئے ، شاگرد اور استاد کا رشتہ ، معلم ،متعلم کی بجائے روپ اور بہروپ کے کھیل کی نذر ہوگیا ۔۔۔ڈنڈے مار کر ،دہشت پھیلانے والے استاد ،اور شاگردوں پر بھری کلاس میں اپنی خانگی لڑائی کا غبار جھاڑ نے والی استانیوں کے "انداز رہنمائی” بھی بدل گئے ۔۔
مگر آج برا ہو۔۔۔۔ان سی سی ٹی وی کیمروں اور انٹرنیٹ کی سہولیات کا کہ کوئی مہا استاد ،استاد نہ رہ سکا ۔۔۔کوئی ۔۔۔۔۔خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہوتے ہوئے اپنی دوسری ،تیسری شادی کے خمار میں خود کو خفیہ سمجھ کر ،خفیہ نہ رہ سکا اور پہلی بیگم کی بدعا اور دوسری بیگم کی جاسوس، بدنظری کا شکار ہوا تو کوئی اپنے باروچی کے توے سے منہ کالا کرکے آخری عمر میں بڑے ہی پہنچے ہوئے "استادوں "پر سے اعتبار اٹھا کر رفو چکر ہوا ۔۔۔
تانیثیت کے جلو میں شور مچاتی حقوق کے حصول کی خواہش میں کم طاقت ور ،گھرہستنوں ،بے خبر عورتوں کے گھر اجاڑتی ہنی ٹریپ بچھاتی ہنیاں ،جادو گرنیاں اس ہبڑ دھبڑ میں تعلیم سے کھلواڑ کرتی رہیں اور اس تمام منحوس چکر میں۔۔۔۔۔۔تعلیم اپنے پاوں پھیلاتے پھیلاتے سمٹ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔۔اب ایک ڈرامے میں استاد کا ایک نیا کردار ،جسے زبردستی ادھیڑ عمری میں محبت کا سبق پڑھایا جارہا ہے یا عوام کو بتلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جاگیر دار ،طاقت ور گھرانوں کی لڑکیاں ، ایک اچھے بھلے تعلیمی ادارے کے ماحول کو کس طرح برباد کرتی ہیں ۔۔۔۔جنھوں نے یہ ڈرامہ دیکھا نہیں وہ اچھے رہے اور جنھوں نے دیکھ لیا وہ ان فلاسفر غنڈوں کی نگری میں پھنس گئے ۔۔۔۔سمجھ نہیں آر ہا ہے کہ کس کو لعنت کریں اور کس کو ملامت ۔۔۔۔
"میں منٹو نہیں ہوں "ڈرامے کی "خاص” باتوں میں صرف یہی کافی نہیں ہے کہ اس پورے ڈرامے کی مقبولیت کا بوجھ تین بڑے فلمی اداکاروں نے اٹھا رکھا ہے جن میں پاکستان فلم انڈسٹری کے کمال اور زوال دونوں کا سبب بننے والے بہتر سالہ ڈائریکٹر کی باسٹھ سالہ حسین و جمیل بیگم جن پر زوال پذیر انڈسٹری کی اکلوتی حسین و فطین ہیروئن کے علاوہ رخسانہ نور جیسی باہمت رائٹر کی وفات کے صدمے کا بوجھ بھی ہے
ان کے مجاجن نما پھو پھو کے رقص نے مرتے ہوئے ڈرامے سے بور ہوتی ہوئی ، سکرین تکتی ہوئی قوم کی روح میں جان ڈال دی بلکہ ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ ہمایوں سعید جیسے سپر اسٹار ،اپنی زندگی کی بدترین پرفارمنس پیش کرتے ہوئے ،استادوں کی اس نئی قسم کو نبھاتے ہوئے ،ہیرو ہوکر بھی زیرو ہی بنے رہے ۔۔۔۔اب اذان سمیع خان جیسے کم عمر اداکاروں نے واہیات فلسفے سے بھرپور ڈائلاگ بازی کے باوجود سکرین کنڑول کرلی ہے ۔۔۔۔۔سجل علی اور صائمہ نور امرتسری فلاسفکل غنڈوں کے گھرانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ،لکھنو کی امراو جان ادا کی پھوپھی بھتیجی بنی رہیں یا ایک بہت بڑی یونیورسٹی آف اکنامکس اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے مسخرے مگر اصول پسند پرنسپل اور چھ فٹ کی ایک قابل استانی اور ایک ہینڈ سم مگر بھول پن سے چور ، استاد محترم ، مگر جامعہ کے تعلیمی مسائل سے مبرا دونوں فارغ ترین اساتذہ کرام ایک قاتل گھرانے کی چنٹو بٹنو ،چھٹنکی سی نکمی بیٹی مگر ان کی شاگرد عزیز کی دل جوئی کے گرد گھومتے رہیں ،۔۔۔۔۔
ڈرامہ دیکھا جارہا ہے ۔۔۔۔ ۔اور آفرین ہے ان فلاسفر غنڈوں کی چھنکومنکو بیٹی کے منگیتر، چھوٹے حضرت صاحب کی اداکاری پر جو ،اپنے رائٹر ابا حضور کے لکھے ہوئے مکالموں کو ۔۔۔”بولے تو ایسا لگا ،تولے تو ایسا لگا "۔۔۔۔۔ تولے بولے کی مصنوعی دنیا سے نکل کر ،منگیتر صاحبہ کی طرف ان کا منہ شریف توڑنے کی دھمکیاں سنتے ہوئے بھی، نیچرل انسانی سٹائل میں بول کر ایلین نہیں لگ رہے ہیں ۔۔۔پورے ڈرامے کو ندیم بیگ جیسے شاندار ڈائریکٹر نے سنبھالنے اور نبھانے کی کوشش میں اب تک ثابت کردیا کہ وہ ڈرامے کے مصنف سے اس قدر دبے ہوئے ہیں کہ کہیں اپنی عقل استعمال کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتے، انہیں اگلے پراجیکٹ میں رائٹر بدل کر دیکھنا چاہیے ۔۔۔۔کہ وہ کہانی کے نام پر کھوکھلے جذبات کو پیش کب تلک کرتے رہیں گے۔۔۔۔آخر میں کریڈٹ کے ڈر سے ، جان بوجھ کر "میرے پاس تم ہو "جیسا تھیم سونگ بھی نہیں رکھا گیا ہے جو منٹو جیسے ہزاروں ڈالرز کا چیک رکھنے والے مگر امرتسریوں کی "ہیول” میں گھومنے پھرنے والے ،استاد محترم کے فوت فرمانے پر پلے بیک کے طور پر چلا کر قوم ۔بے وقوف کا سر دھنا جاسکے ۔۔۔ڈرامے کو ڈرامے کی نظر سے دیکھتے ہوئے بس یہی خیال بار با ر آرہا ہے کہ سعادت حسن منٹو جیسے نڈر اور شاندار افسانہ نگار کا نام استعمال کرکے ،استادوں کی ایک نئی قسم یا تیسری قوت متعارف کروانے پر ایک خبط عظمت میں مبتلا ڈرامہ نگار سے ،سوال جواب کرنے عالم ارواح سے منٹو کی روح اب تک حرکت میں آ چکی ہوگی
فیس بک کمینٹ

