پاکستان ایک پسماندہ معاشرہ ہے۔ یہاں بے شمار ایسی روایات ہیں جن کا نشانہ پسے ہوئے طبقات بنتے ہیں۔ ان روایات کے پاسدار نہ صرف بالائی طبقات ہیں بلکہ خود مظلوم طبقے بھی انہیں جائز سمجھتے ہیں اور ان سے انحراف کو ناممکن خیال کرتے ہیں۔ پچھلی ایک دہائی میں دنیا انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ایک "گلوبل ویلیج” بن چکی ہے۔ اگرچہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ان روایات کو توڑ رہی ہے، لیکن آبادی کی اکثریت اب بھی فکری جِیٹ لیگ کا شکار ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ان متنازع روایات پر کھل کر بات کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ بالائی طبقہ انہیں برقرار رکھنے پر بضد ہے اور ان کے لیے من گھڑت عذر تراش رہا ہے، لیکن ان پر ہونے والے مباحثے خود ان کے خاتمے کا نقطۂ آغاز ہیں۔
کل میں نے اپنے ایک پرانے دوست سے فون پر اپنی بیماری کے بارے میں مشورہ کرنے کے لیے کچھ وقت لیا۔ وہ اپنے شعبے کے ماہر ہیں۔ اس بلاگ کا مقصد قطعی طور پر ان کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔ میں ان کی عزت کرتا ہوں اور ان کے مشوروں اور وقت کے لیے بے حد شکر گزار ہوں۔ لیکن کنسلٹیشن کے دوران انہوں نے ایک ایسی بات کی جس نے مجھے چونکا دیا۔
میں نے ان سے اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے مسائل پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ آپ کو آپ کا پورا جسم جوان حالت میں واپس مل جائے گا۔ میں حیران ہوا کہ شاید پاکستان میں ایجنگ (Aging) کو ریورس کرنے والی کوئی نئی دوا آ گئی ہے۔ میں نے ان سے وضاحت چاہی تو انہوں نے کہا، “کیا آپ کو موت کے بعد کی زندگی پر یقین نہیں ہے؟” پھر مزید فرمایا، “اگر آپ کو یقین نہیں ہے تو مرنے کے بعد آپ کو ایک سرپرائز ملے گا۔”
یہ کنسلٹیشن اگرچہ خفیہ تھی، لیکن میں اپنی مرضی سے اس گفتگو کا یہ حصہ منظر عام پر لا رہا ہوں۔ باقی تفصیلات میں ظاہر نہیں کروں گا اور نہ کوئی ایسا اشارہ دوں گا جس سے معالج کی شناخت ہو سکے۔ ایک مریض کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنی اس نجی گفتگو کے متعلق بات کرنے کا حق حاصل ہے۔
ایسا ہی ایک تجربہ چند سال پہلے بھی ہوا۔ ہسپتال کی ایک سینئر ماہرِ نفسیات (سائیکالوجسٹ) نے سٹریس مینجمنٹ پر ایک ورکشاپ کروائی۔ یہ سیشن ہسپتال کے عملے کے لیے ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ لیکچر کے دوران انہوں نے کہا کہ ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے لو لگانی چاہیے، پانچ وقت نماز پڑھنی چاہیے اور روزے رکھنے چاہییں۔ یہ ان کا ذاتی تجربہ ہو سکتا ہے، لیکن ان کے لیے زیادہ مناسب ہوتا کہ وہ روحانیت یا "مائنڈفلنیس” کے عمومی تصور پر بات کرتیں۔ وہاں مسیحی نرسز اور دیگر عملہ بھی موجود تھا جو ظاہر ہے نماز نہیں پڑھتا۔
اسی طرح ایک اور ورکشاپ میں ایک اسپیکر نے شراب نوشی سے ہونے والی بیماریوں کے علاج سے گریز کی تجویز دی تاکہ شراب نوشی کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بننے والی ریاست ہے اور یہاں مسلمانوں کی اکثریت 95 فیصد سے زیادہ ہے۔ مگر بطورِ معالج ہمیں اپنے ذاتی مذہبی عقائد کی تبلیغ یا ان پر عمل نہ کرنے والوں کو سزا دینے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ یہ بنیادی طبی اخلاقیات (Medical Ethics) کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ہمیں مریضوں کے ساتھ مذہبی گفتگو کرنے یا ان پر کوئی نظریہ مسلط کرنے کا حق نہیں۔
اسلام پر عمل کروانے کا حق اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ ریاستِ پاکستان ہے، جو پہلے ہی اپنا یہ فریضہ انجام دے رہی ہے۔ ہم صحتِ عامہ کے کارکن نہ قانون نافذ کرنے والے ہیں، نہ قاضی۔یہ بات بہت سے افراد کے لیے ناگوار ہو سکتی ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سچ بولنا بحیثیت معالج میرا فرض ہے۔
عوام کو اپنے حقوق کا علم ہونا چاہیے۔ اگر کوئی مذہبی رجحان رکھنے والا معالج ان سے اس نوعیت کی گفتگو کرے، تو انہیں حق حاصل ہے کہ وہ متعلقہ اداروں کو شکایت درج کرائیں۔
ہر انسان اپنے مذہبی عقائد میں مکمل طور پر آزاد ہے۔ اسے "خود مختاری” یا انگریزی میں Autonomy کہا جاتا ہے۔ ذاتی آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور شاید دین میں بھی یہی اصول مووضوع ہے کہ "دین میں کوئی جبر نہیں۔”
فیس بک کمینٹ

