محسن نقوی پیپلزپارٹی سے وابستہ تو رہا ،مساوات میں روزانہ قطعہ بھی لکھتا رہا مگر عملی سیاست کی پہلی صف میں نظر نہ آیا،اس کے تایا سسر کی کاٹن فیکٹری تو پہلے سے تھی،آہستہ آہستہ اس کے اپنے تمول میں بھی اضافہ ہوتا گیا،مشترکہ دوست یا دشمن بتاتے تھے کہ وہ کراچی میں کنسٹرکشن کا بڑا کام کرتا ہے،پھر ڈیرہ غازی خان میں شیوخ کے محلات جیسے ایک قصر کی خریداری ،کوئی نئی شادی،ایک دو مقدمے ،اور شاید ایک قتل کی سنسنی خیزی میں بھی اس کا نام آیاجو ہر مشہور آدمی کی حفاظت کرنے والے رومانوی تخیل کی پیداوار بھی ہو سکتا ہے ۔
بے نظیر بھٹو کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ایک مختصر سا وقفہ روشن خیال ادیبوں کی زندگی میں بھی فخر زمان کی بدولت اس خمار کا آیا کہ وہ قومی تاریخ لکھنے یا ثقافت اور سیاست کی پالیسیوں کے سلسلے میں کم ازکم اپنی رائے دے سکتے ہیں۔اور جسے بیوروکریٹ بھی سننے اور نوٹ کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔اس وقت ادیبوں کا ایک اجتماع اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام ہوا ،جن کے اعزاز میں ایک عشائیہ ایوان صدر میں دیا گیا۔محسن نقوی وہاں مجھے ملا ،پہلا صدمہ تو مجھے اس وقت ہوا جب اس نے کہا کہ فخر زمان سے کہہ کر تہمیں ادبی کتب پر انعام دینے والی کمیٹی کا جج بنواتا ہوں اور تم میری کتاب کو پہلا انعام دے دو۔میں نے اس سے نہیں کہا کہ میں پہلے سے اس کمیٹی کا رکن ہوں اور نہ ہی یہ کہا کہ فخر زمان نے تو مجھے ہمیشہ عزت واحترام دیا۔حالانکہ اس سے پہلی ملاقات 1986ء میں سبط حسن مرحوم کی کوششوں سے ہونے والی ترقی پسند کانفرنس کی گولڈن جوبلی تقریبات میں ہوئی تھی۔میں ٹکر ٹکر اسے دیکھتا رہا۔بہر طور جب اس نے پوچھا اپنا حال سناﺅ تو میں نے کہا کہ ہماری یونیورسٹی کے اساتذہ کی تحریک کے نتیجے میں اب یونیورسٹی میں ایک ترقی پسند قیادت آنے کو تھی۔مگر نتیجہ خیز مرحلے پر ڈاکٹر اے بی اشرف ،ڈاکٹرکرامت علی اور ڈاکٹر غلام مصطفٰی کی باہمی ناپسندیدگی یا رقابت میں مَیں الجھ کر رہ گیا ہوں۔محسن نقوی مجھے ایوان صدر کے تالاب کے کونے میں لے گیا اور کہنے لگا کہ میں تمہیں فاروق لغاری سے ملواتا ہوں اور کل تمہاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے آرڈر نکل آئیں گے بشرط کہ تم میرا نام پیش کر کے کہو کہ تمام اساتذہ اس نام پر متفق ہیں۔میں ہنس پڑا اور کہا کہ محسن مجھے خوشی ہے کہ تمہاری حس مزاح باقی ہے ،مگر اگلے لمحے ہی مجھے افسردگی نے گھیر لیا کیونکہ وہ سنجیدہ تھا۔
نومبر1995ء میں، مَیں انقرہ یونیورسٹی سے وابستہ ہو کر ترکی چلا گیا ،وہاں سے میں نے غالباً جنوری کے پہلے ہفتے میں اصغر ندیم سید کے نام خط میں یہ باتیں لکھیں اور کہا کہ یار،محسن جب 27 سال پہلے ہمیں ملاتھا کئی باتوں میں ہم سے آگے یا ہم سے بہتر تھا،پھر اس نے شہرت اور دولت کی وہ منزلیں پائیں جو ہم سے یا کم ازکم مجھ سے بہت دور ہیں،پھر وہ ایسی باتیں ،حرص والی باتیں کیوں کر رہا تھا،وہ جلدی میں کیوں ہے؟ 15 جنوری 1996ء کی سہ پہر اصغر ندیم سید کا فون آیا ۔وہ رو رہا تھا کہ گولیوں کے برسٹ نے ہم میں سے سب سے زیادہ زندہ کو مار دیا ہے، میرے لیے یہ ناقابل یقین بات تھی اور ہے کہ زندگی کی بے انت مسرتوں کو چھونے کی تمنا کرنے والا کسی کی نفرت کا نشانہ کیسے بن سکتا ہے؟ اتنی بے پایاں زندگی کو نفرت کس طرح مسل سکتی ہے؟
(ڈاکٹر انوار احمد کی کتاب ”یادگارزمانہ ہیں جو لوگ “سے اقتباس)
فیس بک کمینٹ