دوستو! اس سیشن کے موضوع کی مناسبت سے بولنے کا ایک طریقہ تو وہ ہے جو ہم مدرسوں کو مرغوب ہے کہ کچھ فکر انگیز کتابوں سے بعض اقتباسات نکال کر آپ کی سمع خراشی کروں اور ترقی پسندوں کی اس کانفرنس میں ترقی پسند شرکاء کو ہی بتانے کی کوشش کروں کہ ترقی پسندی آخر کار ہوتی کیا ہے؟ اور اُن کے مقابل رجعت پسند قوتیں یا رویے کیا ہوتے ہیں؟ یہ اور بات ہے کہ آغاز ہی میں، میَں اپنی ایک رجعت پسندانہ کمزوری کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ آج (12مارچ کو) اوساکا یونیورسٹی کے میرے سابق رفیقِ کار پروفیسر سویامانے ،میرے اصرار پر اپنے بزرگ والدین کو ملتان لا رہے ہیں جنہیں میں اپنی زندگی کے تجربے میں دو غیر معمولی انسان یا صوفی خیال کرتا ہوں اس لئے ملتانی ہونے کے ناطے میں میزبانی کے لئے آج ملتان میں ہی رہ جانے پر مجبور ہوں، البتہ اپنے شاگردوں ڈاکٹرقاضی عبدالرحمن عابد، ڈاکٹر حماد رسول اور ڈاکٹر سجاد نعیم سے درخواست کر رہا ہوں کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت بھی کریں اور ہو سکے تو رات سے پہلے اپنے ان مہمانوں کی دیکھ بھال میں میرا ہاتھ بٹانے کیلئے ملتان لوٹ آئیں۔
دوستو!میری اپنی زندگی کسی مثالی شخص کی زندگی نہیں تاہم میں نے اپنے نظریات اپنی زندگی کے تجربات سے اخذ کئے ہیں یا پھر اپنے اُستادوں اور پسندیدہ مصنفوں کی تحریروں سے۔ اس زندگی کا خلاصہ اتنا ہے کہ اپنے والد کی وفات کے بعد میں اپنے سکول کے ہمسائے میں واقع گل ٹیکس کی چادریں اور تکیوں کے غلاف گھر لے کر آتا تھا اور اُس کے بارڈر سینے میں اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ ہمیں ایک چادر کے پلو کاڑھنے کے چار آنے اور تکیے کے غلاف کا ایک آنہ ملتا تھا۔ اُسی زمانے میں اپنے ایک اُستاد اور پھر ایک صاحب حیثیت ہم درس کی بدولت فیض کے کلام، پریم چند کے افسانوں اور ناولوں تک رسائی ہوئی اس کے بعد آنہ لائبریریوں سے ہر وہ ناول، افسانہ اور ڈرامہ چاٹ لیا گیا جو غریبوں سے ایسا وعدہ کرتے تھے کہ لوٹ مار کرنے والوں کا یوم حساب اسی دُنیا میں برپا ہوگا۔ میرے والد مرحوم کے محکمے کی طرف سے ایک تحریری وعدہ موجود تھا کہ میٹرک کے بعد محکمہ ڈاک مرحوم کے بیٹے کو سب پوسٹ ماسٹر بنا دے گا مگر پہلے میٹرک پھر ایف اے اور پھر بی اے میں وظیفہ ملنے کے سبب اس خاندانی تعویز کو دو دو برس کیلئے مؤخر کیا جاتا رہا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ فرسٹ ائیر سے ہی کالج میگزین کی ادارت اور کچھ ادبی انجمنوں سے وابستگی کا موقع ملا۔ عرش صدیقی، چوہدری نذیر احمد، اے بی اشرف، ظفر اقبال فاروقی اور پھر خلیل صدیقی جیسے اُستاد کی تربیت میسر آئی،یہ وہ استاد تھے جو میرے گستاخانہ سوالات پر ناراض نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ کتابیں دیتے تھے جن سے اور زیادہ سوالات کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ طالب علمی کے زمانے میں امروز سے پہلے غیر رسمی اور پھر رسمی وابستگی مختصر عرصے کیلئے ہوئی جب مسعود اشعر مدیر تھے ۔ اس طرح میں نے خود کو پی پی ایل کی فکری وراثت کا امین سمجھنا شروع کردیا۔ امروز کے ساتھ پاکستان ٹائمز اور لیل ونہار سے ایک طرح کی ’خاندانی قربت‘ محسوس ہونے لگی ۔پھر میری خوش قسمتی ہے کہ میں مئی 1971ء میں گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے وابستہ ہوا وہاں کے طالب علموں، استادوں اور دانشوروں کی تلخیوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ، اگر وہ تجربات میری زندگی میں نہ آتے تو میں شاید ساری عمر نوائے وقت اور اُردو ڈائجسٹ کے مدیروں کی نظر سے ہی اہل پاکستان کو دیکھتا رہتا۔ بلوچستان کے موجودہ گورنر محمد خان عبدالصمد اچکزئی کے بیٹے تھے اور معاشیات کے لیکچرار، انہیں شاید یاد بھی نہیں ہو گا کہ انہوں نے گورنمنٹ کالج سریاب روڈ کے سٹاف روم میں سے محمد علی جناح کی تصویر اُتروا دی تھی، تاہم مجھے یقین ہے کہ یہ تصویر اب اُن کے گورنر ہاؤس میں موجود ہو گی۔ وہیں ایک کیفے میں عطاء اللہ مینگل اور عبدالصمد اچکزئی کے مابین اُردو جیسی ’سامراجی‘ زبان کے خلاف گفتگو سنی مگر دونوں اُردو زبان ہی بول رہے تھے کیونکہ ایک پشتو نہیں جانتے تھے دوسرے بلوچی یا سرائیکی نہیں بول سکتے تھے۔ قلات پبلشرز کے زمرد حسین بھٹہ کی وساطت سے میں گل خان نصیر اور عطا شاد جیسے شاعروں سے ملا، جیالوجی کے اپنے رفیقِ کار غلام سرور کے ساتھ کوئٹہ کے مصوروں اور فن کاروں کی بیٹھکوں تک گیا اور یوں میری پنجابیت کا بہت سا زنگ اُترا۔ اُسی دور میں بلوچستان یونیورسٹی قائم ہوئی اور میں نے بلوچ قوم پرست قائدین غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل اور گل خان نصیر کو پروفیسر کرار حسین کا بطور وائس چانسلر تقرر کرتے دیکھا اور اُن کی ناز برداری بھی، یوں مجھے سبق ملا کہ نظریاتی ہم آہنگی قومی یا نسلی یا علاقائی تشخص سے کہیں معتبر ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن سے سلیکشن کے بعد میں تین برس رحیم یار خان رہا۔ میرے وہیں قیام کے دوران گورنمنٹ کالج کا نام خواجہ فرید کالج رکھا گیا۔ پرنسپل سید اشرف علی شاہ نے سٹاف میٹنگ میں پوچھا کہ خواجہ غلام فرید کا کوئی مصرعہ یا شعر بتایا جائے تاکہ کالج کے مرکزی دروازے پر لٹکایا گیا، میری تجویز کو حقارت سے مسترد کردیا گیا کہ میں نے یہ مصرعہ تجویز کیا تھا۔
سب علم عمل برباد کیتم ، جڈاں عشق فرید اُستاد کیتم
یہ دور پیپلز پارٹی کے جاہ وجلال کا دور تھا مگر اُس زمانے میں میری زبان پر نیشنل عوامی پارٹی کے دانشوروں کے تجزیے ہوتے تھے چنانچہ پیپلز پارٹی کے ہمنوا مجھے بجا طور پر رجعت پسند یا جماعت اسلامی کا حمایتی سمجھتے تھے۔ 1976ء میں ملتان یونیورسٹی سے وابستہ ہوا جسے ضیاء الحق دور میں جنرل سوار خان جیسے نیم خواندہ گورنر نے ہمارے علاقے کے ایک موقع پرست غضنفر مہدی کی تجویز پر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی بنا دیا۔ ضیاء کے زمانے میں آپ سب جانتے ہیں کہ وزارت نشریات اور وزارت تعلیم جماعت اسلامی نے اپنے لئے منتخب کرلی تھی چنانچہ ابھی تک تعلیمی اداروں اور نشرگاہوں سے الشمس اور البدر کے رضا کار اپنی جلوہ گری میں مصروف ہیں۔ اس یونیورسٹی میں مَیں ایک مزاحمت کار کے طور پر کوئی اپنے کارنامے بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن آپ سب کے علم میں ہماری یونیورسٹی کے علاوہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی کا کوئی شعبہ اُردو موجود ہو تو ضرور بتائیں جس نے نہ صرف منٹو، پریم چند، بیدی اور قرۃ العین حیدر کو ’دورِ ضیاع‘ میں نصاب میں شامل کیا بلکہ فیض احمد فیض بھی اس وقت شامل درس کیا جب وہ جلاوطنی میں بڑے کرب کے ساتھ کہتے پھر رہے تھے ’’مرے دل مرے مسافر، ہوا پھر سے حکم صادر کہ وطن بدر ہوں ہم تم‘‘۔ یہی نہیں صلاح الدین حیدر کو اسی دور میں لاہور کے شاہی قلعے میں بیڑیاں پہنائی گئیں تو ہم نے فیض کے حوالے سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کیلئے اُن کی رجسٹریشن کرائی۔ ہمارے اسی شعبے نے علی عباس جلال پوری، سید سبطِ حسن اور اس طرح کے اُن مصنفوں پر تحقیقی مقالات لکھوائے اور انہیں شامل نصاب کیا جب پنجاب یونیورسٹی’ منصورہ کی تمثال آفرینی‘ پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھی تاہم اس سارے سفر میں میرے بہت سے رفقاء اور سینکڑوں شاگرد ہمیشہ ساتھ رہے، میری زندگی میں ایک ناقابل فراموش ثقافتی اور جمالیاتی تجربہ اپریل 1986ء میں ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کا ہے اگرچہ ہمیں خوشخبری سنا دی گئی تھی کہ واپسی پر ملازمت قائم نہیں رہے گی تاہم کراچی کی اُس کانفرنس میں اپنے ہزاروں فکری ساتھیوں کو دیکھ کر ضیاء دور میں کبھی کبھار طاری ہو جانے والی تنہائی اور رائیگانی کا تاثر زائل ہو گیا۔
مجھے آج اس لئے بھی خوشی ہے کہ پاکستان کے وہ بہت سے ادارے، اخبار اور درس گاہیں بھی متبادل بیانیے کی بات کررہی ہیں، جو اس پہلے کے قومی بیانیے کو اپنے ایمان اور نصاب سمجھتی تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد اس نظریہِ پاکستان کو قومی بیانیے کی اساس بنایا گیا تھا جس میں پاکستان کی سرزمین، اس پر بسنے والے لوگ، اُن کی زبانیں، اُن کی تاریخ اور ثقافت کا ذکر کرنا بھی اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف سمجھا جاتا تھا لیکن اب کم وبیش ہر سوچنے والا شخص متبادل بیانیے کی بات کر رہا ہے۔ اس بیانیے کے خدوخال اُن تحریروں میں سے اخذ کیئے جا رہا رہے ہیں جنہیں کئی عشروں تک سنسر کیا گیا، ان پمفلٹوں کی زبان کی لغت ہی نہیں تاریخ کو بھی تلاش کرنے کو کفر خیال نہیں کیا جاتا جن کے مصنف پروفیسر جمیل عمر، پروفیسر صلاح الدین حیدر، اور پروفیسر فیض عابد عمیق جیسے لوگ تھے اور جنہیں پابند سلاسل کیا گیا، جنہیں غدار کہا گیا اور جو برس ہا برس تک عقوبت کا شکار رہے مگر آج خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے دوستوں اور بڑوں کی مزاحمت اس قومی بیانیے کے خدوخال اُبھار رہی ہے جو کم وبیش اہلِ پاکستان کے دلوں کی آواز بن چکا ہے۔
ہم نے ملتان میں گزشتہ پانچ برس سے سہ ماہی ’’پیلوں‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا ہے جو ہمارے مسلک اور نظریے کا مظہر ہے آپ سب جانتے ہیں کہ خواجہ غلام فرید نے ایک اجتماعی دعوت دی ہے کہ ’’آ رَل مِل چُنوں او یار‘‘ اسی طرح پیلوں غریب، نادار اور صحرا میں بسنے والوں کا پھل ہے ہم نے دوستوں سے کہا کہ آپ اُردو میں لکھیں، سرائیکی میں لکھیں یا پنجابی میں لکھیں، اچھا لکھیں اور اُن لوگوں کیلئے لکھیں جنہیں ایک عرصے سے اشرافیہ سے وابستہ اہلِ قلم نے فراموش کردیا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ یہ تقریب میری پہچان کا ایک بہت بڑا حوالہ بن رہی ہے کہ مجھے اپنے ذہنی اور فِکری رفیقوں کی صف میں شامل کیا گیا ہے اور یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میرا نام عابد حسن منٹو، ابراہیم جویو، ڈاکٹر سید جعفراحمد، ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور ڈاکٹر شاہ محمد مری جیسے دوستوں کے ساتھ لیا جارہا ہے۔