ڈاکٹر مزمل حسین کی تازہ تصنیف "ڈاکٹر مہر عبدالحق:شخصیت اور فن ‘ 2024ء میں اکادمی ادبیات،پاکستان، اسلام آباد سے شائع ہوئی ہے۔163 صفحات پر مشتمل کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔اس میں ڈاکٹر مہر عبد الحق کے حالات زندگی کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے۔اس ضمن میں انھوں نے بنیادی ماخذ اور ثانوی ماخذ سے استفادہ کیا ہے۔ابتدائی ماخذ میں مہر عبدالحق کی خود نوشت”جو ہم پہ گزری” اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں سے اخذ کردہ اقتباسات اور داخلی شہادتوں کی بنا پر کتاب درجہ استناد پر معتبر ہو گئی ہے۔فاضل مصنف نے محنت اور جستجو سے ان کے آبا و اجداد،والدین، تعلیم، والدہ محترمہ کی حسن تربیت کے روشن اثرات،اہل و عیال،ملازمت،اقبال اور حضرت مودودی سے کسب فیض کا ذکر کیا ہے۔آخری عمر میں ان کی کس مپرسی کا دردناک تذکرہ اور وفات حسرت آیات کا ذکر کیا ہے۔ان کے قابل ذکر اعزازات اور ۳۸ تصانیف کا ذکر کیا ہے۔ابتدائی باب کے مطالعہ سے ڈاکٹر مہر عبد الحق کی علمی و ادبی شخصیت کے روشن اور تاب ناک نقوش ابھر کر سامنے آتے ہیں۔شعبہ لسانیات، فریدیات،تراجم،تحقیق و تنقید اور سرائیکی زبان و ادب کے حوالے مہر عبدالحق کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
بعد ازاں ڈاکٹر مہر عبدالحق بطور ماہر لسانیات، فریدیات، ترجمہ و تفسیر،سیرت نگاری،تھل کی تہذیب و ثقافت، سرائیکی لوک گیت، شاعری، خود نوشت اور متفرق کتب کے تعارف پر مبنی ہے۔اردو کی پیدائش کے حوالے سے مختلف ماہرین لسانیات کے نظریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر مہر عبدالحق نے وادی سندھ کی تہذیب کا مرکز ملتان کو ٹھہرایا ہے اور ملتانی زبان کو عربی،فارسی،ترکی اور بلوچی وغیرہ زبانوں کے اختلاط کا نتیجہ بتایا ہے۔یہ مفروضہ ان کی معروف تحقیقی و تنقیدی کتاب”ملتانی زبان اور اس کا اردو سے تعلق”میں موجود ہے۔
"سرائیکی زبان اور اس کی ہمسایہ علاقائی زبانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے سرائیکی زبان کے حوالے سے لسانی مغالطوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بات متحقق کی گئی ہے کہ صرف و نحو،اسما،افعال،مصادر اور جملوں کی ساخت کے لحاظ سے سرائیکی زبان لسانی قواعد کے اعتبار سے پنجابی زبان سے الگ اپنی شناخت رکھتی ہے۔فاضل مصنف نے سرائیکی زبان کو ہندو مسلم اتحاد کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ڈاکٹر مزمل حسین نے "سرائیکی زبان دے قاعدے تے قانون” اور سرائیکی دیاں مزید لسانی تحقیقاں” کا بلاتعصب اور دیانت داری سے فاضل مصنف کے نکتہء نظر کا تعارف اور تجزیہ کیا ہے۔
"فریدیات” کے حوالے سے وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ خواجہ غلام فرید کے کلام،ان کی شخصیت و فن کا تحقیقی، تنقیدی اور تدوینی کام کو فریدیات کہا جاتا ہے۔”لغات فریدی” میں خواجہ غلام فرید کی شاعری میں مروج صوفیانہ اصطلاحات اور الفاظ و علامات کو پس منظری مطالعہ کے ساتھ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔”پیام فرید” میں خواجہ فرید کی کافیوں کو موضوعاتی ترتیب سے پیش کرنے کا مقصد ریسرچ سکالرز کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ "فرد فرید” میں خواجہ فرید کے کلام کی متنوع جہات کو مضامین کے ذریعے نمایاں کیا گیا ہے۔مضامین کے ذریعے غلام فرید کے تصوف و فلسفہ اور فکر و فن کے مباحث کو اہل قلم کے آرا سے زیادہ بامعنی بتایا گیا ہے۔
ڈاکٹر مزمل حسین نے مہر عبدالحق کے سرائیکی تراجم اور تفاسیر کے حوالے سے رباعیات خیام "مئے گلفام” کا سرائیکی ترجمہ،جاوید نامہ کا منظوم سرائیکی ترجمہ، قصیدہ بردہ شریف کا فارسی،سرائیکی، اردو میں منظوم اور انگریزی میں منثور ترجمہ، قرآن مجید کا سرائیکی ترجمہ، الحمد کی تفسیر اور سورہ فاتحہ کا سرائیکی ترجمہ و تفسیر، "ابلاغ جلیل” خطبہ حجتہ الوداع کی سرائیکی زبان میں تشریح(غیر مطبوعہ) اور ان کے علاوہ ایک نامعلوم گم شدہ ناول کے سرائیکی ترجمے کا ذکر بھی کیا ہے۔ان ترجموں کو تخلیقی ترجمہ قرار دیا ہے۔مہر عبدالحق کے تراجم میں سرائیکی مزاج اور مقامیت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ان کی زبان و بیان پر کامل گرفت اور زبان دانی کا کھلے دل سے اعتراف کیا گیا ہے۔
بطور سیرت نگار مہر عبدالحق کی کتاب "کونین دا والی” کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔تمام ابواب کے عناوین اور ان کا ملخص پیش کیا گیا ہے۔ڈاکٹر مزمل حسین کی تحقیق کے مطابق مہر عبدالحق نے یہ کتاب لکھتے ہوئے سیرت پر انگریزی اور اردو کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔یہ حشو و زائد سے پاک جامع کتاب ہے۔
ڈاکٹر مہر عبدالحق کی تھل اور تھلوچی تہذیب و ثقافت کے ساتھ محبت کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔اس ضمن میں ان کی کتاب "تھل” اور "لالڑیاں” کا تجزیہ کرتے ہوئے تھل کی تاریخ اور جغرافیہ کے ساتھ ساتھ تھل کی سماجی اور معاشی محرومیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔”سرائیکی لوک گیت” میں مہر عبدالحق نے ہر گیت کا تعارف اور اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔وہ بطور شاعر فکروفن کے لحاظ سے ثروت مند تھے۔ڈاکٹر مزمل حسین نے ان کی آپ بیتی "جو ہم پہ گزری” کا مفصل جائزہ لیا ہے۔ان کے نزدیک جہاں یہ ان کے احوال و آثار کا مفصل بیان ہے وہاں سرائیکی وسیب کی سیاسی،تاریخی، علمی اور ادبی تاریخ بھی ہے۔آخر میں مشاہیر کی آرا،ڈاکٹر طاہر تونسوی کو دیا گیا ڈاکٹر مہر عبدالحق کا تاریخی انٹرویو اور مختصر نمونہ کلام شامل کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر مزمل حسین کی یہ تازہ تصنیف مہر عبدالحق کی شخصیت کےخدوخال اور ان کے فکری کارناموں کو علمی سطح پر نمایاں کرتی ہے۔ڈاکٹر مہر عبدالحق پر تحقیق و تنقید کرنے والے سکالرز کے لیے یہ گراں قدر ارمغاں سے کم نہیں۔
فیس بک کمینٹ