ایک ہفتے تک قومی اسمبلی میں وزرا کی غیر موجودگی پر احتجاج کرنے کے بعد آج پیپلز پارٹی کے بعض ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کیا ۔ اس دوران ملک میں میڈیا کی آزادی اور ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پر پابندیوں کے حوالے سے ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز( ایمنڈ) نے شدید احتجاج کیا ہے۔ ایسو سی ایشن نے اس بارے میں دیگر صحافی تنظیموں سے رابطہ کرکے لائحہ عمل تیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس کے باوجود ملک میں آزادی رائے کی صورت حال سنجیدہ مباحثہ کا موضوع نہیں ہے۔ اپوزیشن تحریک انصاف کی طرف سے ضرور اظہار رائے کی آزادی کچلنے کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے لیکن عام طور سے حکومت کی طرف سے اور میڈیا میں اسے ایک پارٹی کی سیاسی مہم جوئی کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ میڈیا کے ساتھ موجودہ حکوت کے برتاؤ کے علاوہ پارلیمنٹ میں وزرا کی مسلسل غیر حاضری اور وزیر اعظم کی پراسرار خاموشی سے یوں لگتا ہے کہ حکومت خود کو مضبوط سمجھ رہی ہے اور اس کا خیال ہے کہ چونکہ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے ، اس لیے اپوزیشن کے علاوہ میڈیا کو بھی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ملک کے وزیر اعظم غیر ضروری تنظیموں کے اجلاسوں میں شرکت کے لیے ایک کے بعد دوسرے غیر ملکی دورے پر روانہ رہتے ہیں۔ وہ اس وقت بھی ترقی پزیر مملک کی تنظیم ڈی ایٹ میں شرکت کے لیے قاہرہ میں ہیں۔ اگرچہ عالمی سطح پر سیاسی موجودگی اور تعلقات استوار کرنا اہم ہے لیکن نوٹ کیا گیا ہے کہ شہباز شریف ہر ایسے اجلاس میں بھی خود شریک ہونے پہنچ جاتے ہیں جس کا کوئی خاص اثر و رسوخ نہیں ہوتا اور جس میں وزیر یا سفارتی سطح پر نمائیندگی سے بھی ضروری مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کو سنگین سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔ ملک کے سفارتی و معاشی مسائل پر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مناسب توجہ نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی پالیسی بنائی جاسکتی ہے۔ حکومت کو صرف انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کرنے والی تحریک انصاف کی طرف سے ہی اختلاف کا سامنا نہیں ہے بلکہ خود اس کی اپنی صفوں میں دارڑیں نمایاں ہورہی ہیں ۔
ایم کیو ایم دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکی ہے کہ وہ کسی بھی وقت حکومت کا ساتھ چھوڑ دے گی۔ پیپلز پارٹی اگرچہ حکومت میں شامل نہیں ہے لیکن اس کی حمایت کے بغیر شہباز شریف کو ایوان میں وزیر اعظم بننے کے لیے اکثریت حاصل نہیں ہوسکتی۔ ا س کے باوجود پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی طرف سے بار بار توجہ دلانے کے باوجود شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ عام حالات میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ کوئی وزیر کسی دوسری اہم مصروفیت کی وجہ سے کبھی اسمبلی میں حاضر ہونے میں ناکام رہتا ہے یا کوئی پارٹی کسی بات پر وقتی ناراضی کا اظہار کرنے کے لیے واک آؤٹ کا طریقہ اختیار کرلیتی ہے۔ لیکن یہ طریقہ ایک پیٹرن اور مزاج کا نمائیندہ بن چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات جیسے اہم موقع پر بھی متعلقہ وزیر ارکان کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے موجود نہیں ہوتے۔ حالانکہ کوئی بھی جمہوری حکومت پارلیمنٹ میں ارکان کے ساتھ مکالمہ ہی کے ذریعے اپنی کارکردگی کو نمایاں کرنے اور خامیوں کو دور کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔ لیکن موجودہ حکومت کے وزرا پارلیمنٹ کی عمومی کارروائی کا حصہ بننے کے علاوہ وقفہ سوالات سے غیر حاضر رہ کر مسلسل اراکین کی ناراضی اور مایوسی کا سبب بن رہے ہیں۔ اس طریقہ سے ایک طرف ارکان کو اہم سوالات کے جواب نہیں ملتے تو دوسری طرف یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ حکومت اسی ایوان کو اہمیت دینے پر تیار نہیں ہے جہاں سے اعتماد کا ووٹ لے کر اسے ملک میں اقتدار حاصل ہؤا ہے۔
اس کے برعکس شہبازشریف کی حکومت میڈیا پر دباؤ ڈال کر اور مختلف قوانین اور زور ذبردستی کے ہتھکنڈوں سے ملک کی معاشی بحالی، سرکاری پالیسیوں کی کامیابی اور ہرشعبہ زندگی میں شاندار کارکردگی کا ڈھول پیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت ذرائع ابلاغ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باوجود اسی غلط فہمی کا شکار ہے کہ اگر میڈیا کو سرکاری اشتہارات کا لالچ دے کر یا دباؤ کے ہتھکنڈوں سے یک طرفہ تصویر دکھانے پر مجبور کیا جائے گا تو عوام کی اکثریت اس بات کو درسر مان لے گی۔ یہ طریقہ تو چار پانچ دہائی قبل ایسے وقتوں میں بھی کامیاب نہیں ہوتا تھا جب معلومات کے ذرائع محدود تھے اور عوام کے پاس متبادل راستوں سے کسی خبر کی اصلیت جاننے کا موقع موجود نہیں ہوتا تھا۔ مواصلاتی ترقی کے موجودہ زمانے میں صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ اب حکومت کی کامیابیوں اور پاکستان کی ترقی کی خوش نما تصویر کو اس وقت تک درست نہیں مانا جاتا جب تک انہیں غیر جانبدار ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے پرکھ نہ لیا جائے۔ تمام تر حکومتی پابندیوں کے باوجود لوگوں کے پاس کسی خبر کی حقیقت تک پہنچنے یا درست اعداد و شمار حاصل کرنے کے متعدد طریقے موجود ہیں۔ ایسے میں کوئی حکومت اگر یہ تصور کرلیتی ہے کہ وہ میڈیا کو کنٹرول کرکے اور یک طرفہ خبریں پھیلا کر عوام کو حقیقی حالات سے بے خبر رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی تو یہ خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
سوشل میڈیا پر جھوٹ اور غلط معلومات کی بنیاد پر باتیں پھیلانے یا بعض شخصیات اور اداروں کو بدنام کرنے کی کوششوں پر بجا طور سے تشویش ہوسکتی ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور آئی ایس پی آر بھی اس حوالے سے پریشانی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ حکومت البتہ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے پابندی و دباؤ کے فرسودہ اور ناکارہ طریقوں کو استعمال کرنے کے سوا کوئی ٹھوس اور واضح حکمت عملی اختیار نہیں کرسکی۔ حیرت ہے کہ 2024 میں انتخابات کے ذریعے منتخب ہوکر اقتدار سنبھالنے والی حکومت بھی عوام کے ساتھ مواصلت اور درست معلومات کی فراہمی کے لیے میڈیا کی آزادی و خود مختاری کی اہمیت سے انکار کرتی ہے۔ فوج کی طرف سے اگر پابندیوں کی بات کی جاتی ہے تو اسے اس ادارے کے مزاج کی روشنی میں قابل فہم قرار دیا جاسکتا ہے لیکن یہ تو ملک پر حکومت کرنے والے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مخالفانہ یا منفی جھوٹ کی روک تھام کے لیے پابندی لگانا یا قوانین کو مسلسل سخت کرتے رہنا مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ملک میں عوام کے ساتھ مواصلت کرنے والے میڈیا اداروں کو آزادانہ طریقوں سے کام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ خود ہی غلط معلومات کو مسترد کریں ۔ درست اور متوازن معلومات فراہم کرکے عوام کو ازخود کسی نتیجہ تک پہنچنے کے قابل بنائیں۔
اس کے برعکس حکومت اگر میڈیا کے باقاعدہ اداروں پر پابندیاں لگائے گی اور انہیں قانون سازی، پیمرا یا دیگر سرکاری اداروں کے ذریعے ہراساں کرے گی تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے سرکاری ترجمان کی حیثیت اختیار کرلیں لیکن اس طرح ان کا عوام میں اعتماد ختم ہوجائے گا اور ان کے ذریعے درست خبر بھی ناقابل اعتبار اور جھوٹ سمجھی جائے گی۔ حکومت کی عاقبت نااندیشانہ میڈیا پالیسی کی وجہ سے دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے عوام یا تو تحریک انصاف کے پروپیگنڈے کو درست مانتے ہیں یا غیر مستند اور محض کمرشل مفاد کے لیے چلائے جانے والے یو ٹیوبرز کے پھیلائے ہوئے جھوٹ پر یقین کرنے پر راضی ہوتے ہیں لیکن مین اسٹریم میڈیا پر اعتمادمیں مسلسل کمی آرہی ہے۔ یہی عدم اعتماد آہستہ آہستہ ایک ایسے عوامی ہیجان میں تبدیل ہوجاتاہے جو کسی بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔
شہباز شریف ضرور اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ انہیں عسکری قیادت کی سرپرستی حاصل ہے، اس لیے ان کی کرسی پکی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں یہ گمان بھی ہو کہ فوج کے پاس اس وقت ان کا کوئی متبادل نہیں ہے، اس لیے حکومت کو اپوزیشن کے علاوہ اپنے حلیفوں کی شکایات کو بھی خاطر میں لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ یہ دونوں قیاسات کسی بھی وقت نقش برآب ثابت ہوسکتے ہیں۔ کوئی جمہوری حکومت ’پکی‘ نہیں ہوتی۔ وہ صرف عوام کے اعتماد پر ہی قائم رہ سکتی ہے یا کام کرسکتی ہے۔ کسی ایک ادارے کی حمایت اسے ایک خاص مدت تک اقتدار پر قابض رہنے کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ اسی طرح اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ اس وقت ملک میں حکومت فوج کی مرضی و منشا کے ساتھ ہی قائم ہوسکتی ہے تو بھی شہباز شریف یا کوئی دوسرا شخص ناگزیر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے حکومت حاصل کرنے والے تمام عناصر کو جمہوری طریقوں، مسائل کے سیاسی حل اور عوام کے ساتھ رابطہ کاری کی بنیادی ضرورت سے بے خبر نہیں ہونا چاہئے۔
اس پس منظر میں ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز( ایمنڈ) کے اجلاس میں سامنے آنے والی تشویش موجودہ حکومت کے لیے حقیقی پریشانی کا باعث ہونا چاہئے۔ ایمنڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ’ اختلاف رائے کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ٹیلی ویژن چینلز پر دباؤ کا مقصد میڈیا کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنا اور اختلاف رائے کو خاموش کرنا ہے۔ صورتحال کی یک طرفہ عکاسی میڈیاکی ساکھ کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ پیمرا ربر اسٹیمپ بن چکاہے جسے ٹیلی ویژن چیلنجز کو دباؤ میں لانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اخلاقی اور قانونی پابندیوں کی آڑ میں صحافیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے خلاف نوٹسز جاری کرنے اور مقدمات قائم کرنے کا سلسلہ جاری ہے تاکہ اُنہیں ڈرا دھمکا کر مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جاسکیں‘۔
کسی بھی حکومت کے لیے یہ ایک سنگین اور ناقابل معافی چارج شیٹ ہے۔ پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے اورمیڈیا کو دباؤ میں لاکر شہباز شریف اپنا قتدار مضبوط نہیں کرسکیں گے۔ حکومت کو سیاسی رابطہ کاری کے علاوہ میڈیا کو زیادہ مواقع دینے اور آزادی رائے کا آئینی حق تسلیم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ