کہتے ہیں تہذیبیں دریاۤوں اور صحراوں کا تخلیقی اظہار ہوتی ہیں بلکہ دنیا کی بڑی تہذیبیں انہی کی دین ہیں۔اس لیے زندہ قومیں اپنے دریاوں اور صحراوں سے عقیدت رکھتی ہیں اور ان کی حفاظت اس طرح کرتی ہیں جس طرح سعادت مند اولاد اپنے بزرگوں کی اور کہتی ہیں کہ دریا اور صحرا باقی تو انسان باقی۔ مگر ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ ہم نے فطرت کے دیئے ہوئے اس عظیم ورثے کا وہ حال کیا ہے کہ الامان۔کچھ تو ہمسایہ ملک کی ریشہ دوانیوں سے ہمارے دریا ہم سے چھین لیے گئے اور کچھ ہماری ریاست کی فطرت مخالف پالیسیوں نے دریاوں کی روانیوں اور ان کے فطری ماحول کو زبردست نقصان پہنچایا۔دریاوں کی اہمیت کو ہردور میں تسلیم کیا گیا ہے۔سنسکرت کا کلاسیکی ادب دریاوں کے بیان سے بھرا پڑا ھے۔کیونکہ دریا ہی ہماری زندگیوں کے ضامن ہیں۔اس صدی کی آ مد پر ایک بڑے سیاسی رہنما نے کہا تھا کہ اس صدی میں بڑی جنگیں پانی کے ایشو پر لڑی جائیں گی۔کیونکہ جس طرح پوری دنیا خصوصا پاکستاں میں آ بادی کا بم پھٹا ہے اس نے زمین پر مزین فطرت اور اس کی کشادگی کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے۔درختوں کا قتل عام کر کے ماحولیاتی مسائل پیدا کیے گئے ہیں جس سے بارشوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ھے، پانی کا لیول بہت نیچے چلا گیا ھے۔خاص طور پر ہمارے صوبے بلوچستان میں پانی کی قلت پیدا ہونے کو ہے،اسی لیے ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ وسط ایشیائی ریاستوں میں سے ایک ریاست کے ساتھ جو پانی کا معاہدہ ہوا ہے وہ بلوچستان ہی کے لیے پانی کا ہے۔ہمارے ہاں دریائی گذر گاہوں پر بستیاں تعمیر کر کے دریاوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔دریاوں کے شفاف پانیوں کو آ لودگی سے بھر دیا گیا ہے جس سے آ بی مخلوق کی بقا کو خطرہ بڑھ گیا ہے۔اسی طرح ہمارے دریاوں کو اور بھی بہت سے خطرات کا سامنا ہے۔ یہی صورت حال ہمارے صحراوں کی ہے۔صحراوں کے فطری ماحول کو انسان کی مادی ضرورتوں نے پراگندہ کر چھوڑا ہے۔پاکستان کے معروف صحراوں میں تھل، چولستان ،تھر اور بلوچستان کے صحرا شامل ہیں۔یہ عظیم الشان صحرا ہماری حریص طبع کی وجہ سے اپنی فطری حسن سے بڑی حد تک محروم ہو گئے ہیں۔تھل ہی کو لے لیجیے یہ پنجاب میں خوشاب سے لے کر مظفر گڑھ کے اضلاع تک محیط ہے۔اس کا ذکر ہندوستان کے قدیم ادب جیسے مثنوی "کدم راو پدم راو”میں بھی موجود ہے۔اس کا بھر پور لوک ادب ہے۔اس کا منفرد نباتاتی حسن ہے۔اس کی وائلڈ لائف،لائیو سٹاک اور فصلیں ہر اعتبار سے منفرد ہیں۔مگر ریاستی سطح پر زمینوں کی جو بندر بانٹ کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں مصنوعی آ باد کاریوں نے تھل کے چہرے کو مسخ کر دیا ہے۔ٹی ڈی اے کے قیام اور دوسرے علاقوں سے آ بادکاری نے تھل کو اب شہری آ بادی کی شکل دے رکھی ہے۔یہاں کا سارا ماحول ہی بدل گیا ہے اب۔یہی صورتحال دیگر صحراوں کی ہے۔روہی چولستان ،تھر اور بلوچی صحرا کو انسانی بستیوں میں بدلنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔یہاں کی زراعت کو نہری رقبے میں بدلنے سے جہاں مقامی ثقافتوں کی معدومیت ہوئی وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ساتھ میں ماحولیاتی مسائل نے کئی اور طرح کی الجھنوں کو بڑھایا ہے۔دریا اور صحرا نہ صرف ہماری معشیت ،زندگی اور فطرتی حسن کے ضامن ہیں بلکہ یہ ہماری شناخت کی بنیاد بھی ہیں۔انھی کی رفاقت میں ہماری ثقافتی اور تہذیبی پہچان برقرار رہتی ہے۔کہتے ہیں کہ تہذیب اور ثقافت،ادب اور فنون لطیفہ اپنے فطری اور سازگار ماحول ہی میں فروغ پاتے ہیں۔اگر فطرت کے یہ شہکار مر گئے تو ہماری زندگیوں کا جواز بھی نہیں رہے گا۔اس لیے صحت مندانہ رویوں کی بقا اور زندگی آ میز سوچوں میں نکھار کے لیے،مضبوط معیشت اور تہذیبی شناخت کی بنیاد کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں اپنے دریا اور صحرا بچا کر رکھنے ہوں گے
فیس بک کمینٹ