مبارک ہو لڑکا ہوا ہے ۔ یہ جملہ ہم میں سے شاید ہر اس شخص نے سنا ہوگا جس کو اس کا مطلب سمجھ آتا ہے..یہ وہ معاشرہ ہے کہ جہاں جب کو کوئی عورت پیٹ سے ہوتی ہے تو اس کو ہر عورت اور مرد ایک ہی دعا دیتے ہیں کہ اللّٰہ چاند سا بیٹا دے…. جب کسی چھوٹی بچی کو ملا جاتا ہے تو دعا دی جاتی ہے اللّٰہ بھائیوں والی کرے.
یہ وہ معاشرہ ہے کہ جہاں پچیس سال کی بہن دس سال کے بھائی نگرانی و نگہبانی میں گھر سے باہر جاتی جی ہاں وہی پندرہ سالہ چھوٹا بھائی کہ جس کو ابھی کل تک وہ گود میں کھلا رہی تھی اور یہی بھائی اس کی تقدیر کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے نہ صر ف یہ بلکہ اگر بھائی کسی اور کی بیٹی کا ریپ کردے تو بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں یہ بہن اس ریپ کے بدلے متاثرہ لڑکی کے ستر سالہ باپ کی بیاہی بھی جا سکتی ہے تاکہ بھائی پر کوئی آنچ نہ آئے….
نہیں معلوم یہ کس کا جملہ ہے منسوب کچھ لوگ منٹو سے کرتے ہیں کہ "سگریٹ پینے سے مرد کی پھیپھڑے جبکہ عورت کا کردار خراب ہوتا ہے”۔۔ ہر وہ کام جو عورت کے لیے ممنوع بلکہ حرام ہے اگر کوئی مرد سر انجام دے تو صرف اس لیے جائز ہو جاتا ہے کہ وہ تو مرد ہے مرد تو کرتے ہی ہیں…..
یہ وہی معاشرہ ہے کہ جس میں مرد ایک عورت سے بیٹیوں پر بیٹیاں بیٹے کی خواہش میں پیدا کرتا ہے اور اگر چار یا پانچ بہنوں کے اوپر بھائی پیدا ہو جائے تو ان چار پانچ بہنوں کو اس کی نوکری پر معمور کر دیا جاتا ہے، ان کی تعلیم و تربیت سے لیکر صحت و جذبات کسی بات کی پرواہ نہیں کی جاتی لیکن اگر انٌ میں سے کوئی بچی کسی بھی طور اپنی مرضی کا سوچے تو وہی بھائی اس کو قتل بھی کر سکتا ہے اور بلا خوف کر سکتا ہے کیونکہ اس قتل کو معاف کرنے کا حق تو انہی ماں باپ کے پاس ہے کہ جنہوں نے اس سپوت کی آمدِ پاک کے لیے یہ ساری بچیاں پیدا کیں تھیں….
ہماری مشرقی روایات نے بیٹی کو بھیڑ اور بیٹے کو بھیڑیا بنایا ہے اگر بازار کی زبان میں بات کروں تو "چھٹٌا سانڈ” اور آج عالم یہ ہے کہ ہر دو مہینے بعد یہ منتیں مرادیں مان کر اللّٰہ سے تحفے میں لیے گئے یہ فرزندان وہ گل کھلاتے ہیں کہ بات بریکینگ نیوز سے نیچے کہیں نہیں جمتی اور اس بریکینگ نیوز کو سننے کے بعد ہر وہ شخص کہ جس کے آنگن میں اولاد ہے کانپ جاتا ہے….
اس وقت مصطفیٰ کیس نے تہلکہ مچایا ہوا ہے میں نے دانستہ اس کیس کی تفصیلات جاننے کی کوشش نہیں کی کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں سٌن ہوتا جا رہا ہوں مجھے واقعات اپنی پوری شدت کے ساتھ سمجھ آنا بند ہو گئے ہیں… اس اور اس جیسے دوسرے واقعات پر زیادہ کچھ لکھنے کو بچا نہیں ہے لیکن جو بات سمجھ آتی ہے وہ اس معاشرے میں رہنے والے مرد و خواتین میں موجود بیٹے کا وہ اوبسیشن ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا….
تعویذ گنڈے سے لیکر ٹونوں، ٹوٹکوں، پیروں، فقیروں، درباروں، منتوں، مرادوں تک کیا کچھ ہے جو بروئے کار نہیں لایا جاتا کاش اس کی دس فیصد توجہ بھی اگر ہم انہی بیٹوں کی تربیت پر بھی کرتے تو آج یہ معاشرہ آج ایک انسانی معاشرہ ہوتا جہاں انسان محفوظ محسوس کرتے….ہر وقت بیٹیوں پر نظرِ قہر رکھنے والے ماں باپ بیٹوں کی اتنی خبر رکھنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے کہ کہیں ہمارا بیٹا کسی قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں تو ملوّث تو نہیں ہے؟؟
یہ صاحبزادگان کہ جنہوں نے ابھی کراچی اور بلوچستان دونوں فتح کئے ہیں سائبر کرائم کا پورا نیٹ ورک جس میں کوکین، آئس اور کرسٹل متھ جیسی مہلک ترین منشیات کی سپلائی شامل تھی چلا رہے تھے،( یہ کمال کا ملک کے کہ جہاں اب منشیات بھی کورئیر کرائی جا سکتی ہے) ، دسیوں موبائل فون درجن بھر کمپیوٹر اسحلہ اور منشیات اس میں شامل ہے بچپن کے دوست سے ایک تلخ کلامی پر چھ دن بعد اس کو گھر بلا کر بلوچستان لے جا کر کار سمیت جلا دیا گیا،
میں نے لکھ دیا آپ نے پڑھ لیا لیکن کیا یہ اتنا آسان ہے؟؟ کیا میں اور آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس سطح کی بربریت اس سب کے لیے درکار ہے؟؟ وہ کون سی دماغی کیفیت ہے کہ جو انسان سے یہ سب کروا سکتی یے؟؟
آئے دن ایسے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ کسی نے بیوی کو شک کی بنیاد پر مار دیا تو کسی نے بہن کو تو کسی نے سالی کو، کسی نے بچوں سمیت پوری فیملی کو مار دیا اور خود کشٌی کر لی،
کبھی سننے کو ملتا ہے کہ کوئی کسی قریبی کو کہہ رہا ہے کہ کیا تم میرے اور میری بیوی کے ساتھ "تھری سٓم” کرو گے؟؟ اگلے ہی دن وہی اسی قریبی پر اپنی بیوی کے ساتھ ملوث ہونے کا الزام لگا کر اسٌی کی جان کے درپئے نظر آتا ہے….
نور مقدم کیس آپ کے سامنے ہے سن 2014 یا 15 میں ایک رپورٹ پڑھی تھی کہ جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ISS کے مجاہدین کو آئیس کروائی جا رہی ہے اور ہم نے دیکھا کہ پھر عام لوگوں کے سروں سے فٹبال کھیلی گئی، سر عام انسانوں ذبح کرنے کی ویڈیوز بھی کوئی ان سنی بات اب نہیں رہ گئی….
جس آدمی نے نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ میں ایک مسجد میں گھس کر پب جی کا لائیو ورژن کھیلا تھا اس کے بارے میں بھی یہی رائے تھی….
آج کے دور میں جتنی مشنری گیمز ہیں سب کی سب یہ صلاحیت رکھتی ہیں کہ آپ کی شخصیت میں بربریت کی بڑھوتری کریں ہم نے خود دیکھا کہ لڑکے بارہ بارہ گھنٹے مسلسل یہ مشنری گیمز کھیلتے ہیں اور مشن پورا کر کے ہی دم لیتے ہیں اس مشن کی تکمیل کے لیے نا جانے کتنے ورچوئل لوگوں کا نشانہ تاکتے ہیں، قتل کرتے ہیں، اور قتل ہو جاتے ہیں لیکن پھر ایک لائف لائن مل جانے پر مرنے مارنے کا کام جاری رہتا ہے، گیم کے ڈیویلپرز سب بتاتے ہیں کہ آپکے پاس گولیاں کتنی ہیں، لائف لائنز کتنی ہیں ، ہتھیار کون کون سے موجود ہیں، دشمن کہاں کہاں چھپا ہو سکتا ہے، زوم ان، زوم آؤٹ لیکن نہیں بتاتے تو صرف دو باتیں کہ ایک تو اس سب کا فایدہ کیا ہے؟؟ اور دوسرے اس سب کا نقصان کتنا ہے، کوئی بتانے والا نہیں ہے کہ جو یہ بتائے کہ اصل زندگی میں لائف لائن اکثر نہیں ہوا کرتی، اصل زندگی کا مشن مارنا نہیں بچانا ہے، مر جانا نہیں زندہ رہنا ہے…
لیکن جن لوگوں نے یہ ماڈرن دنیا ڈیزائن کی ہے ان کا ایجنڈا اور ہے ایک آدمی ہے کہ جس کو دنیا کی سب سے ترقی یافتہ قوم کہ جو مریخ پر بسنے کی تیاری میں ہے نے بھاری ووٹوں سے منتخب کیا ہے اور وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ ہم غزہ سٹرپ پر دنیا کا سب سے جدید شہر بنائیں گے، جی اسی عزہ میں جہاں ابھی انسانی گوشت کے جلنے کی بو تازہ ہے، ستر ہزار انسانوں کے جلتے ہوئے گوشت اور کھال کی بو بھی اگر دنیا کو نہ جھنجھوڑ سکے تو یقین جانیے اس سے بری نشے کی حالت ممکن نہیں ہے؟؟
یوکرین تم رکھ لو، عزہ ہم رکھ لیں، کینیڈا ہمارا حصہ بن جائے، میکسیکو کے آگے دیوار بنا دی جائے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو پیسے بند کئے جائیں، افریقہ اور ایشیا کے غریب ممالک کی امداد بند کی جائے اور اس سب سے امریکہ ایک بار پھر گریٹ بن جائے اور اگر کوئی اس امریکہ کو فاشسٹ کہے تو ہم برا مان جائیں…..
رہ گئیں مشرقی روایات تو بھائی اب تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جو کچھ بھی ہمارے بزرگوں نے ہمیں مشرقی روایات کے نام پر بتایا تھا سب جھوٹ تھا وہ روایات نہیں بلکہ نئی نسل اور انکی مرضی کو کنٹرول کرنے کے معاشرتی اوزار بلکہ ہتھیار تھے کیونکہ اوزار تو فائدہ مند بھی ہوتے ہے….
بیٹوں سے بنے جتھوں کے ہاتھوں یرغمال یہ معاشرہ ہمیں نہ جانے کیا کیا دکھائے گا کبھی مشال خان کی ٹوٹی ہوئی انگلیاں، کبھی ایک نجات دہندہ وزیراعظم کہ جو کہتا تھا کہ مرد کون سا کوئی روبوٹ ہوتا ہے؟؟ وہ مولوی کہ جس نے قرآن پاک پڑھنے آنے والے بچے کے ساتھ واعظ سے کچھ لمحے پہلے حق لواطت ادا کیا تھا، وہ بیٹوں سے مزین ہجوم کہ جس نے ایک سری لنکن شہری کو پہلے مارا پھر جلایا اور پھر اس جیت کا جشن اس کی جلتی ہوئی لاش کے ساتھ سیلفیاں بنا کر منایا….
وہ مردانہ ہجوم کہ جس نے حضرتِ علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ میں دو بھائیوں کی لاشیں ٹریکٹر ٹرالی پر رکھ کر گھمائیں اور انکو روکنے کے لیے کوئی مرد اور عورت تو دور خواجہ سرا بھی موجود نہیں تھا….
وہ شاہ رخ جتوئی کہ جس نے شاہ زیب نامی ایک نوجوان کو اس لیے مار دیا کیونکہ وہ اس کو اس کی بہن کو چھیڑنے سے روک رہا تھا اور جب اس شاہ جتوئی کے جیل سیل میں جب عزت مآب چیف جسٹس المعروف بابا رحمتے جیسا "ڈیم دل” آدمی پہنچا تو اس نے انکو ایسے دیکھا کہ جیسے کوئی کسی کو مڈل فنگر دکھاتا ہے…..
یہ سب وہ بیٹے ہیں کہ جو منتوں اور مرادوں سے مانگے گئے تھے لیکن آج میں صرف یہ دعا کرتا ہوں کہ اللّٰہ اس ملک کو وہ مائیں دے جو واقعی مرد پیدا کر سکیں….
فیس بک کمینٹ