گزشتہ رات برادرم عقیل عباس جعفری کی وال سے ایک انتہائی افسوس ناک خبر پڑھ کریادوں کی البم سج گئی۔وہ خبر ڈاکٹر پرویز حیدر زیدی کے انتقال کی تھی۔
ڈاکٹر پرویز حیدر الطاف زیدی کون تھے؟کیا مصروفیت تھی؟کن لوگوں کے ساتھ پیار کرتے تھے؟ان کی خوبصورت اور دل موہ لینے والی شخصیت کے بارے میں ایک مضمون میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر پرویز حیدر ایک ادبی ذوق رکھنے والے فرد تھے اور شعر و شاعری کا ذوق اعلی پائے کا تھا اکثر مجھ سے ملاقات کے دوران اردو کے اشعار سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے محسن بھوپالی کا درج بالا شعر ان کو بہت پسند تھا
نیرنگی ء سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
جب ریٹائر ہو کر لاہور چلے گئے تو ایک بار فیس بک پر شمس الرحمن فاروقی کے اردو ناول ‘ کئی چاند تھے سر آسماں ، کی تصویر لگائی ہوئی تھی ‘ میں نے ناول خریدنے کے لیے بک شاپ کا ایڈریس پوچھا تو ٹھیک 20 منٹ بعد کال بیک کر کے مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ ناول ہسپتال کے پتے پر بھیجوں یا رہائش کے پتے پر ‘ میں نے ناول کی قیمت ادا کرنے کا بہت اصرار کیا لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا اور عین تیسرے دن ناول میرے گھر پہنچ گیا ‘ کیا مردم شناس اور ادب شناس انسان تھے ‘ ان جیسے نفیس اور نستعلیق لوگ آہستہ آہستہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں
ایک بار آفس میں گیا تو پوچھنے لگے کہ جگر ( Chronic Liver Disease ) کے مریضوں کو کونسی ادویات زیادہ فائدہ دیتی ہیں تو میں نے بتایا کہ باقی ادویات کے ساتھ ساتھ Low Salt Albumin ایسے مریضوں کے لئے بہت ضروری اور فائدہ مند ہے لیکن مہنگی بہت ہے ‘ اس وقت 50 سی سی کا انجیکشن کم و بیش 7 ہزار میں آتا تھا ( جو اب 13 ہزار میں ہے ) ‘ چند دنوں بعد یہ انجیکشن ہمارے مریضوں کے لئے freely ملنے لگا ‘
کیا شاندار انسان تھے۔
اسی طرح پروفیسر ڈاکٹر آفتاب حیدر زیدی نے مجھے ایک دن بتایا۔ڈاکٹر پرویز حیدر آج بھی نادارطلبہ و طالبات کی جیب اپنی فیس سے ادا کرتے ہیں۔
یہ تمام باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میری ان سے درجنوں ملاقاتیں ہوئیں لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے زبان سے ان باتوں کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کبھی سماجی کاموں کی تشہیر کا کہا۔میری ان سے پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب یہ ڈیرہ غازی خان میں میک میں صحت میں اعلی عہدے پر فائز تھے۔اور وہ اکثر ڈبل کیبن پر میرے پاس حسن آرکیڈآیا کرتے۔قیمتی پین ان کی کمزوری تھی۔اور وہی دوستوں کو تحفے میں دے کر خوش ہوتے تھے۔ہر اچھی کتاب کے کم از کم پانچ سے 10 نسخے خرید کر دوستوں میں تقسیم کرتے۔ایک دن آئے اور کہنے لگے پرانی یادوں کو تازہ کرنا چاہتا ہوں۔خورشید ہوٹل کا کھانا کھاتے ہیں۔اگلی مرتبہ میں نے ان سے کہا آئیے دوپہر کے کھانے کے لئے ہوٹل تاج نواں شہر چلتے ہیں۔فورا تیار ہو گئے وہاں جا کر کھانا کھایا تو بہت خوش ہوئے کہنے لگے ایک عرصے بعد گھر کے ذائقے کا کھانا ملا ہے۔اس کے بعد جب بھی آتے تو کہتے تاج ہوٹل کا کھانا کھانا ہے۔
ایک دن ڈاکٹر پرویز اور میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔لاہور سے فکشن ہاؤس کے مالک ظہور احمد خان تشریف لے آئے۔ان کی کتابوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور ان سے فرمائش کر ڈالی کہ مجھے سجاد ظہیر کی کتاب روشنائی کی ڈھائی سو کاپیاں درکار ہیں؟
ظہور صاحب کا بھی آتش جوان تھا انہوں نے کہا کہ ایک مہینے بعد آپ کو 250 کاپیاں مل جائیں گی۔ریٹ طے ہوا ڈاکٹر پرویز نے ان کوموقع پر کچھ رقم ادا کی۔اور میں یہ ڈیل دیکھ کر بہت خوش اور حیران ہوا۔خوش اس بات پہ ہوا کہ ایک عرصے بعد روشنائی کا ایڈیشن پڑھنے کو ملے گا۔ اور حیران اس لیے ہوا کہ انہوں نے دوستوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایک پوری کتاب ہی شائع کروا ڈالی۔
پھر ایک دن باتوں باتوں نے مجھے بتایا کہ وہ میرے چچا ڈاکٹر ذوالفقار حسین کے کلاس فیلو ہیں۔اب میری محبت کا پیمانہ اپنے چچا کی وجہ سے مزید وسیع ہوتا گیا۔وہ میری بیٹی کی شادی پر تشریف لائے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے دو بییٹوں کی شادی کی تقریبات ملتان میں کی۔انہوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ مجھے خالص موتی چور کے لڈو درکار ہیں۔میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور خصوصی طور پر موتی چور کے لڈو بنوا کرخوبصورت باسکٹ میں سجا کر جب لے کر گیا۔تو خوشی سے نہال ہو گئے۔اس شادی پہ انہوں نے اپنی بیٹی کو اپنے بیٹے کا شہ بالا بنایا ہوا تھا۔بھابھی نے اپنا روایتی خاندانی لباس پہنا ہوا تھا۔دونوں میاں بیوی کی خوشی دیدنی تھی۔ملتان کے ایم جی ایم میں ہونے والے دونوں شادیاں اپنی مثال آپ تھیں۔
ایک مرتبہ ملتان اپنی اہلیہ کے ہمراہ آئے تو میں نے ان کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو کہنے لگے کھانے کی بجائے اپ کے گھر ناشتہ کرنا چاہتا ہوں میں نے ان کے لیے ملتانی ڈولی روٹی۔ چنے۔ حلوہ پوری اور دیگر چیزوں کا اہتمام کیا تو کہنے لگے اب جب بھی ملتان آؤں گا ناشتہ صپ کے ہاں ہی کیا کروں گا اور اس کے بعد پھر ایک مرتبہ پھر آئے۔گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔خاص طور پر کتابوں کے فروغ کے لیے ان کے پاس بے شمار تجاویز ہوا کرتی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انجینیئر راشد اشرف کو پاکستان میں نایاب کتابوں کی اشاعت کے لیے مالی وسائل مہیا کیے۔جس کا برملا اظہار راشد اشرف اپنی کتابوں میں کرتے رہے۔کچھ عرصہ قبل انہوں نے مجھے بتایا کہ کہ وہ برادر مکیل عباس جعفری کی ادارے کے ساتھ مل کر بھی کچھ نایاب کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کر رہے ہیں۔تو مجھے خوشی ہوئی کہ ملک میں ایک ایسا شخص موجود ہے جو کتابوں کو زندہ رکھنا چاہتا ہے۔کرونا کے زمانے میں انہوں نے اپنے تمام پڑھنے لکھنے والے دوستوں کو ٹی سی ایس کے ذریعے اپنی شائع شدہ کتابیں بھجوائیں۔تاکہ وہ گھروں میں بیٹھ کر کتاب سے جڑے رہیں۔میں نے دو عشروں کے تعلق میں کبھی ان کی زبان پر کسی کے بارے میں کوئی شکوہ یا شکایت نہیں سنا۔سراپا محبت اور پیار کرنے والی شخصیت تھے۔
جن دنوں وہ سرگودھا ہسپتال میں کام کر رہے تھے۔تو ملتان سے سید مسعود کاظمی شدید علالت کی وجہ سے ان کے پاس چلے گئے۔انہوں نے ان کا نہ صرف علاج معالجہ کیا بلکہ اس انداز سے امداد کی کہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہوا اور جب ان کی صحت سفر کرنے کے قابل ہوئی تو ان کو بہترین سواری میں واپس ملتان بجھوا دیا۔پھر مجھے فون کر کے کہا کہ ان کے اہل خانہ سے کہیں کہ ان کا خیال رکھیں یہ تنہائی کا بھی شکار ہیں۔
وہ گزشتہ کئی برسوں سے انجمن وظیفہ سادات مومنین کے پلیٹ فارم پر بھی مستحق لوگوں کی امداد کر رہے تھے۔لیکن میں نے کبھی ان کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ انہوں نے ہزاروں بچوں کی تعلیم کے وسیلے بنائے۔
کرونا کے بعد وہ گھر کے اندر زیادہ وقت گزارتے رہے۔میں جب بھی لاہور جاتا تو وہ فوری طور پر اپنے ڈرائیور کے ہاتھ بہت سی نئی کتابیں بھجوا دیتے۔میں بھی ملتان سے ان کے لیے کچھ نئی چیزیں لے کر جاتا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ بھی بہت پسند کرتے تھے۔ہمیشہ کہتے کہ ایسا حلوہ میں نے پوری دنیا میں نہیں کھایا۔گزشتہ ماہ جب میں کراچی گیا تو برادرم عقیل عباس جعفری سے ملاقات ہوئی تو ان کا تفصیل سے تذکرہ ہوا۔ہم دونوں ان کی بیماری سے پریشان تھے۔کہ اب ان کا فون بہو یا کوئی اور اٹھاتا تھا۔گزشتہ کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ لاہور جاؤں اور جا کر ان کی خیریت دریافت کروں۔نہ لاہور جانا ہوا اور نہ ہی ان سے ملاقات کی کوئی سبیل پیدا ہوئی۔اسی کشمکش میں ان کی سناونی آ گئی۔
ڈاکٹر پرویز حیدر اپنی طرز کے آخری آدمی تھے۔جنہوں نے خدا کی مخلوق کے ساتھ بے لوث محبت کی۔ان کی خدمت میں زندگی گزاری۔اور فارغ اوقات میں کتابوں کے ساتھ جی لگایا۔بلا شبہ انہوں نے کروڑوں روپے کتابوں کی اشاعت اور ان کے مفت تقسیم کے لیے وقف کیے۔یہ سب کچھ انہوں نے کسی کاروبار کے لیے نہیں کیا۔بلکہ وہ اس معاشرے میں ایک ایسی بہتری کے خواب دیکھتے رہے۔جس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔وہ اپنے طرز کے پہلے اور آخری شخص تھے۔جو لفظ کی حرمت کے قائل تھے۔اور اسی میں زندگی بسر کر کے ایسی دنیا میں چلے گئے ہیں۔جہاں سے کسی کی کوئی خبر نہیں آتی۔لیکن وہ اپنی ان کتابوں کے ذریعے زندہ رہیں گے۔جن کی دوبارہ اشاعت کے لیے انہوں نے خواہش کی۔مالی معاونت کی۔اور پھر اس کتاب کو اپنے دوستوں کے گھروں تک پہنچایا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔