تاریخ انسانی میں اقتدار کے حصول کے لیے بے شمار طریقے ملتے ہیں: انقلاب، الیکشن، فوجی کودتا……۔ 1990 سے پہلے البتہ ساری سیاست (پاور پالیٹکس) پہ نظریات کا کنٹرول تھا۔ ایک طرف کمیونزم ایک ٹھوس نظریہ کے بطور سیاست میں فعال تھا۔ دوسری طرف بہت سارے ناموں نعروں کے ساتھ سرمایہ دارانہ سیاست تھی۔ مقابلہ ہی دونوں نظریوں کے درمیان تھا۔ اس لیے سیاست باقاعدہ نظریاتی ہوا کرتی تھی۔ کمیونسٹوں کی اپنی سیاسی اخلاقیات ہوتی تھی، جس پہ وہ سختی سے جڑے ہوتے تھے۔ آپ کیلکولیٹ کر سکتے تھے کہ اُن کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ پتہ ہوتا تھا کہ وہ لوگ فلاں فلاں کام کر سکتے ہیں، اور فلاں کام بالکل نہیں کر سکتے۔ اور پھر سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ سوشلسٹ بلاک کے اکیس ممالک کا بھی دھڑن تختہ ہوگیا اور یوں تقریباً ساری دنیا سرمایہ داری کے ریوڑ میں شامل ہوگئی۔
خواہ ظاہری طور پر جو بھی نام و نعرے لگتے ہوں مگر اصل بات یہ ہے کہ ہم سارے انسان، کپٹل ازم میں جی رہے ہیں۔ نجی ملکیت کے لیے جی رہے ہیں، نجی جائیداد میں اضافے کے لیے جی رہے ہیں۔ چوں کہ کپٹلزم منافع کا نظام ہے جو صرف اُسی صورت حاصل ہوتا ہے جب آپ دوسرے انسان کا استحصال کریں، اس لیے اس نظام میں ایک آدھ شخص ہی امیر ہوتا ہے اور بہت سے لوگ غریب ہوتے ہیں۔ سرمایہ (اور اقتدار) سے سارے انسان برابر مستفید نہیں ہو سکتے۔ بلکہ سب سے چالاک، چُست اور سفاک لوگ ہی دولت و تخت کے مالک ہو سکتے ہیں۔ اصول، ایمان داری، اورنظریہ محض ”وغیرہ وغیرہ“ بن جاتے ہیں۔
مرگِ سوویت یونین کے بعد دیدہ دلیر عالمی سرمایہ داری نے تخت تک رسائی کے باقی سارے راستے بند کر دیے، ماسوائے الیکشن کے۔ اس چالاک طبقے نے یہ اب کر دیا کہ طاقت، قوانین، اور پروپیگنڈہ اداروں کے ذریعے اقتدار کے حصول کے باقی سارے ذرائع کو بغاوت، غداری وغیرہ مشہور و مقبول بنا کر بند کر دیا۔ لہٰذا سارے ممالک کی ساری سیاسی پارٹیاں الیکشن کے واحد موجود راستے کو تسلیم کرتے ہوئے اُسی میں کود گئیں۔ مگر سرمایہ داری نظام اتنا بھی احمق نہیں کہ ہر کوئی للو پنجو اٹھے، الیکشن لڑے، جیتے اور تخت لے جائے۔ چنانچہ اس نے پیسہ کو الیکشن کے ساتھ مضبوطی سے نتھی کر دیا۔ پیسہ ہے تو الیکشن میں خوب خوب خرچ کرو، خوب خوب مرغن دعوے خریدو، نعرے، پوسٹر، اور اشتہار خریدو، ووٹ خریدو، میر و معتبر و لیڈر خریدو، ضمیر و حمایت و جماعت خریدو، امید و توقع اور امکان خریدو……۔ جو سب سے زیادہ خریدے گا، تخت اُسی کا۔ تخت خرید کر پھر اِسی تخت کے ذریعے مزید دولت خریدو، مزید شہرت خریدو، مزید اختیار خریدو، اور مزید اقتدار خریدو۔ لہٰذا ہر ایک حلقہ کروڑوں کی قیمت پہ برائے فروخت ہے۔ اور اگر پورا پاکستان خریدنا ہو تو کچھ ارب روپے لاؤ تخت تمہارا۔
اب چونکہ نظریات اور اصول کی جگہ سرمایہ نے لی، اور دلوں پہ قبضہ کرنے کے بجائے جیبوں پہ قبضہ ہوگیا، اس لیے اب وہ زمانہ لدگیا کہ ”فلاں پارٹی کسی کھمبے کو بھی امیدوار کرے تو کامیاب ہوگا“۔ سرمایہ دار ممالک میں اسٹیبلشمنٹ سے پوچھنا بھی ایک ضروری شرط ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، جہاں سے ساری ہواؤں کو چلنے سے قبل اپنی سمتیں بتا کر چلنے کی اجازت لینا ہوتی ہے۔ ہر ندی نالہ ایک متعین اور مقدار و مقرر زیر و بم کے ساتھ ایسے بہے گا کہ اس میں سرزوری اور سرشوری نام کو نہ ہو۔ چنانچہ طبقاتی نظام کے الیکشنوں میں گل، بلبل، حسن، ترانے، خوشبو، زلفیں اور عشاق طے شدہ رولز و قوانین کے فریم کے اندر رہیں گے۔
ابھی حال میں کوئٹہ – چاغی کی قومی اسمبلی کی سیٹ پہ ضمنی انتخابات ہوئے۔ مندرجہ بالا سارے ریکوائرمنٹ پورے ہوئے، تبھی ملا فضل الرحمان اور ڈاکٹر مالک والوں کا مشترکہ امیدوار جیت گیا۔ اختر مینگل اور اسفند یار کا مشترکہ امیدوار دوسر ے نمبر پر آیا۔ اورمحمود خان، آصف زرداری اور عمران خان کے امیدوار بہت سارے ووٹوں سے ہار گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے امیدوار مزدور، کسان اور نچلے طبقے سے نہ تھے۔ اور اُن کی سیاسی پارٹیاں بے تحاشا پیسے والی ہیں۔ چوں کہ نظریات کی بات کب کی فوت ہوچکی ہے، اس لیے ”خرید“ اور ”زرخرید“ واحد طریقہ تھا الیکشن میں حصہ لینے کا، جیتنے کا۔
ہماری سیاست میں نظریات کی غیر موجودگی کی یہ بات ہم سب کو معلوم ہے۔ گلی کے آدمی کو بھی، پہاڑ کے چرواہے کو بھی۔ مگر تبصرہ بازمڈل کلاسی دانش ور نے اس معلوم بات کو اِن الیکشنوں میں ایسے بھلا دیا گویا ڈاکٹر مالک، فضل الرحمان کا اتحاد کوئی انہونی بات ہو۔ یا الیکشن میں سارے امیدواروں کا امیر طبقہ سے تعلق کوئی حیرانی کی بات ہو۔ ہمارے بورژوا دانش ور اپنی سیاست نہیں رکھتے۔ وہ صرف تبصرے کرتے ہیں۔ نواز شریف آئے بھی نا خوش، جائے بھی ناراض۔ دلیل اُن کے پاس تھوک کے حساب سے موجود ہوتی ہے۔ یہ بے عمل اور لفاظ دانش ور ”بے نظریہ“سیاست میں نظریہ ڈھونڈتا ہے، ”بے اصول“ کپٹلزم میں زریں اصول تلاش کرتا ہے، ”بے اخلاق“ معاشی سیاسی نظام میں اعلیٰ اخلاقیات دیکھنے کے دوربین فٹ کیے رکھتا ہے۔ وہ انہی باتوں پہ مضامین لکھتا ہے، کالم دے مارتا ہے، فیس بک بھر دیتا ہے۔ بورژوا دانش ور بغیر ہاتھ پیر ہلائے، بغیر تنظیم و جہد کیے اور بغیر طبقاتی نظام کے تجزیے کے، عقل ِ کُل بننا چاہتا ہے۔ ساری زندگی ایک سیاسی ورکر نہ بنا کر بھی وہ چے گویرا بننا چاہتا ہے۔ مگر صرف چاہتا ہے، کرتا کچھ نہیں ہے۔ اس لیے بے بسی میں بس کڑھتا رہتا ہے۔ چغلی کرتا رہتا ہے۔ چوں کہ ثابت قدمی اور استقلال ہوتا نہیں، چوں کہ تنظیم اور ڈسپلن کی کوئی لگام ہوتی نہیں، لہٰذا وہ ہمہ وقت اور ہر طرف سے اپنی”زخمی انا“ کو بچانے کی مصنوعی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ ”انا“ جو ”آئی ایم“ کی طرف لے جاتی ہے۔ مزید تنہائی کی طرف، مزید جھنجلاہٹ کی طرف، مزید سطحیت کی طرف۔
چنانچہ حالیہ انتخابات میں اس بات پہ اعتراض کرنا کہ فلاں اور فلاں اکٹھے ہوئے، یا کسی پارٹی نے کسی غریب کو ٹکٹ نہیں دیا بہت جزوی اور سطحی بات لگتی ہے۔ جب ساری الیکشنی پارٹیوں کا مشترک دیوتا ”پیسہ“ ہو، مشترک مرشد سے اجازتوں، آشیر بادوں کے سرٹیفکیٹ ہاتھ میں ہوں، اور نظریات کی بات نہ رہے تو اِس طرح کے تبصرے، اور مضامین پہ حیرت ہوتی ہے۔ جب ”خریدنا“ واحد طریقہ ہے جیتنے کا‘ تو خالی جیب اور خالی پیٹ والے کسان اور چرواہا الیکشن پراسیس میں امیدوار بننے کی خواہش و تمنا بھی کیسے کر سکتے ہیں؟ ترقی پذیر سرمایہ دارانہ ممالک کے طبقاتی سماج میں خالص الیکشن کہاں ہوں گے؟۔ دھاندلی سے پاک الیکشن کا وجود کہاں ممکن ہے؟۔
تقدیروں میں لکھ دیا گیا ہے کہ بہت عرصے تک ہم جیسے ترقی پذیر سرمایہ داری علاقوں میں جمہوریت خالص نہیں ہو سکتی، مکمل نہیں ہو سکتی اور وسیع نہیں ہو سکتی۔ بلکہ یہاں الیکشن بہت عرصے تک محدود، اپاہچ، جھوٹے اور منافقانہ ہی رہیں گے۔ اس لیے اصلی جمہوری لوگ صرف الیکشنوں کے پراسیس میں بہتری کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اِن ساری خامیوں کو اُس پورے نظام کا لازمی پیدائشی حصہ سمجھتے ہیں جسے طبقاتی نظام کہتے ہیں۔
امیر غریب کا نظام رہے گا تو اس کی یہ موروثی خرابیاں بھی رہیں گی۔”ووٹ کا تقدس“، دھاندلی سے پاک“ اور ”شفاف“ الیکشن، ”فرد کی آزادی“ یا ”آزادیِ محبت“والے نعرے مجرد نعرے نہیں ہیں۔ یہ سب باتیں اُس پیکیج کا حصہ ہیں جو کپٹلسٹ سماجی و معاشی نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔۔۔ جس کی کوئی بھی بات نہ شفاف ہوتی ہے اور نہ دھاندلی سے پاک۔
(:بشکریہ:حال حوال ۔۔ کوئٹہ)