آٹھ اگست بلوچستان کی تاریخ کا بدترین دن ہے ۔ ویسے بھی اگست کا مہینہ بلوچستان کے لئے ہمیشہ سخت رہا ہے ۔ گزشتہ برس 8 اگست کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے سرکاری سول ہسپتال میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ میں بلوچستان کی بلوچ اور پشتون قوم سے تعلق رکھنے والے 60 کے قریب سینئر اور نوجوان وکلا شہید ہوئے ۔ کچھ صحافی اور کیمرہ مین بھی نشانہ بنے ۔اس سے قبل بھی دہشتگردی کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔ لیکن 8 اگست کا سانحہ کہیں زیادہ دردناک اس لئے ہے کہ اس سانحہ میں تعلیم یافتہ اور ایک مخصوص طبقہ فکر کو نشانہ بنایا گیا ، جن کا کام لوگوں کے لئے انصاف فراہم کرنا تھا ۔ نوجوان وکیل اعجاز احمد ایڈووکیٹ نے سانحہ اگست کو ایک سال پورا ہونے کے موقع پر کہا کہ سانحہ آٹھ اگست بلوچستان کی تاریخ میں ایک سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس دن میں ہمارے بھائی ، دوست اس سب سے بڑھ کر عام لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والے ہم سے جدا ہوگئے ۔ ان کا خلا صدیوں میں بھی پر کرنا مشکل ہے ۔ اس اندوہناک سانحہ میں معروف وکیل رہنما باز محمد کاکڑ ، چاکر خان ، اور دیگر وکلا شہید ہوگئے تھے ۔ صوبائی حکومت کی جانب سے واقع کی مذمت کرتے ہوئے ایک کمیٹی اور کمیشن بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ۔ اگلے دن بیان جاری ہوا کہ دہشت گردی کے واقعات سے مرعوب نہیں ہوں گے ۔ وکلا تنظیموں کی جانب سے بھی تعزیتی بیانات ، پیغامات ، تعزیتی ریفرینسز منعقد کئے گئے ۔ احتجاج ، مظاہرہ ، بس ۔ ہمارے حکومتی حلقوں کا کام بھی یہی رہ گیا ہے ۔ اپنی اصل ذمہ داریوں سے فارغ ہیں ۔ 8 اگست کے سانحہ کے بعد اسی شہر کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی کالج میں دہشت گردوں نے گھس کر پولیس کے 50 سے زائد جوانوں کو شہید کر دیا ۔ غفلت برتنے پر کچھ آفیسرز کو وقتی طور پر ان کے سرکاری عہدوں سے معطل ، کچھ کو او ایس ڈی بنا دیا ۔ حکومت وقت کی جانب سے وہی پرانا سرکاری پریس ریلیز کو نئی تاریخ ڈال کر جاری کر دیا ۔ تعزیتی پیغامات ، تعزیتی ریفرنسوں کا دور ایک بار پھر شروع ہوا ۔ پھر نومبر کے مہینے میں سانحہ درگاہ شاہ نورانی پیش آیا ۔ 54 زائرین شہید جبکہ ،100 افراد زخمی ہوگئے ۔ حکومت نے سانحہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کمیٹی بنانے اور درگاہ کی سیکورٹی سخت کرنے کا حکم جاری کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرلی ۔ یہ چند ایسے دلخراش سانحات ہیں جن کے زخم ہمیشہ رہتے ہیں ۔ دہشت گردوں کا نہ کوئی مذہب ہے نہ یہ کسی فرقے کی خدمت کررہے ہیں ۔ دہشت کو ہر صورت میں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ سانحات ، واقعات میں سینکڑوں قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد ہم بھول جاتے ہیں ، کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف تمام سیاسی ، عسکری ، انتظامی اداروں کو یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا ۔ اور عوام کی بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ۔ تاکہ دہشتگردی کی اس لعنت سے قوم نکل سکے ۔ جب تک قوم اور ریاست کے ادارے ایک نہیں ہونگے ، دہشت گردی کی لعنت ہماری جان نہیں چھوڑے گی ۔ عام شہریوں سے لے کر جوانوں تک سب دہشت گردی کے نشانہ پر ہیں ۔
فیس بک کمینٹ