کھیل ہو یا سیاست اس کے آخری حصے میں عجیب تناؤ کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات دونوں ٹیموں کی کارکردگی میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ مقررہ میعاد سے قبل ہی نتیجے کا علم ہو جاتا ہے۔ یک طرفہ مقابلہ حاضرین و شائقین کے لئے بھی خاص دلچسپی کا باعث نہیں ہوتا۔ کھیل ہمیشہ وہی حواس پر سوار ہوتا ہے جب دونوں ٹیمیں ہم پلہ ہوں اور اپنی تکنیک، حوصلے اور ٹیم ورک کے ذریعے غالب آنے کی کوشش کریں۔ ایسے مقابلے میں ہارنے اور جیتنے والوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا تاہم کھیل کے میدان میں ہار جیت کا فیصلہ تسلیم کرنے کی روایت ہے۔ کھیل کے دوران تھوڑے بہت فاؤل شاؤل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی ریفری کی نگاہ بھی دھوکہ کھا جایا کرتی تھی مگر اب ایکشن ری پلے نے ہر حرکت کو واضح کر کے دھوکے کے امکانات بالکل ختم کر دیئے ہیں۔
جب کہ سیاست میں الیکشن کے نتائج ہمیشہ مشکوک ہی رہتے ہیں۔ پانچ سال پر محیط میچ کا پورا دورانیہ ہی سرد گرم بیانات پر مشتمل ہوتا ہے۔ الیکشن کے قریب اس میں شدید تیزی آ جاتی ہے کیوں کہ یہ میچ دو ٹیموں کے درمیان نہیں بلکہ بیک وقت بہت سی ٹیمیں میدان میں ایک دوسرے کے مقابل ہوتی ہیں۔ آج کل بھی کہنے کو تو تین بڑی جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہے مگر آزاد اور دینی جماعتوں کا کردار بھی اہم ہے۔ کچھ جماعتیں صرف صوبائی سطح تک محدود ہیں۔
پنجاب نے ہر انتخاب میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ کسی دور میں لاہور اور پنجاب پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا پھر جیسے جیسے اس کا منشور اور ترجیحات تبدیل ہوتی گئیں پارٹی کا حجم بھی سکڑ کر سندھ تک محدود ہو گیا۔ مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی بنیادی طور پر سندھ اور پنجاب کی پارٹیاں ہیں پھر بھی ان کی نوعیت وفاقی ہے اور دیگر صوبوں میں کچھ نہ کچھ نمائندگی ضرور ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان اور کے پی سے وفاقی حیثیت کی پارٹیاں ابھریں اور اپنے صوبے کے علاوہ دیگر صوبوں سے بھی ایسے امیدوار میدان میں لائیں جن کی جیت یقینی ہو ورنہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ پارٹیاں سکڑتی جائیں گی جبکہ ریاست میں حکومت بنانے والی جماعت کی تمام صوبوں میں نمائندگی اسے صحیح معنوں میں قومی پارٹی کا درجہ دیتی ہے اور اسی صورت میں حکومت ہر اکائی کی ترجمانی کا دعویٰ بھی کر سکتی ہے۔
تاہم بات ہو رہی تھی سیاسی گرما گرمی اور بیانات بازی کی تو ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ الیکشن کے قریب آکر بہت معتدل مزاج شخص بھی جارحانہ لب و لہجہ اختیار کر لیتا ہے۔ جس طرح گرم، سرد، خزاں، بہار کے موسموں کا انسان کے مزاج پر اثر ہوتا ہے اس طرح الیکشن کے دن بھی ایک خاص موسم کی طرح ہیں جن میں ظاہری وجوہات اور باطنی احساسات مل کر ایک کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ تمام جماعتوں کے سیاست دان ماضی میں بھی ایک دوسرے کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہے ہیں مگر وہ صرف جلسے تک محدود ہوتی تھی۔ اب بہت سارے ٹی وی چینلز کے علاوہ سوشل میڈیا پر جتنے افراد اتنے چینلز کھلے ہیں۔ غصے اور جذبات میں ذرا زبان پھسلی اور سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا تک پہنچ گئی۔ اس لئے آج کے دور میں سیاست دانوں کو زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے اور یہ یاد رکھیںکہ ان کا کسی خاص صورت حال میں کہا گیا لفظ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتا ہے۔ آج کل کچھ رہنما شدید ہیجانی کیفیت میں مبتلاہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام صرف ان کے جلسے اٹینڈ کریں، انہیں ووٹ دیں اور ایسا نہ کرنے والوں کو گدھا، بے غیرت حتیٰ کہ اس سے بھی زیادہ غلیظ اور ناقابل اشاعت الفاظ اداکئے جارہے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، مخالف جماعت کے رہنمائوں کی تصویریں چسپاں کر کے ان پر تشدد کیا جاتا ہے جس کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔ یہ فسطائیت ہے جمہوریت نہیں۔ جمہوریت میں لوگوں کو اپنی مرضی کے اظہار کی آزادی ہوتی ہے۔ اس وقت مخصوص شخصیات سیاست کے افق پر نمایاں ہیں۔ اس بار الیکشن لڑنے والوں میں نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ جن لوگوں کومستقبل کی پلاننگ کرنی ہے وہ پالیسی سازی سے باہر رکھے گئے ہیں حالانکہ ہماری نوجوان نسل جھوٹ، سمجھوتوں اور ریاکاری سے کافی حد تک پاک ہے اس لئے کہ ان کے سامنے وسیع دنیا اور اس کی کامیابیاں پھیلی ہیں۔ جدید تعلیم نے ان کے من کو روشن کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کو مثبت طریقے سے گزارنے کا ہنر دیا ہے مگر ان کے آگے آنے کے فقدان کی سب سے بڑی وجہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلباء یونینوں پر پابندی ہے۔ قواعد و ضوابط بنائے جا سکتے ہیں مگر نوجوانوں کو اظہار سے روکنا درست نہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انتخابات کی بھٹی سے گزرنے والے نوجوان وہ تربیت حاصل کر کے آتے تھے جو انہیں سیاسی اور عملی زندگی میں اعتماد بخشتی تھی۔ وہ اپنے اپنے طبقے کی نمائندگی کرتے تھے۔ عام آدمی الیکشن لڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو الیکشن لڑتے ہیں انہیں غریبوں اور سفید پوشوں کے مسائل کا کیا علم۔ بہرحال لوگوں کے بڑھتے ہوئے شعور سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آئندہ سیاست دانوں کو عوام کی منشا کے مطابق تمام طبقات کو انتخابات میں نمائندگی دینی پڑے گی۔ اگر ہمیں صادق اور امین حکمراں چاہئیں تو ہمیں اپنی ذات کا بھی احتساب کرنا چاہئے۔ ہم ہمیشہ ان بااثر الیکٹبلز کو چنتے ہیں جن کے بارے میں خود ہمیں بہت سے تحفظات ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی کسی ریٹائرڈ پروفیسر، انجینئر یا ڈاکٹر کو ووٹ دیا ہے۔ ہم ان کی عزت کرتے ہیں مگر ووٹ ضائع ہونے کے خدشے کی وجہ سے ان کے حق میں فیصلہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے مخصوص لوگ غالب رہتے ہیں۔ ووٹ ضائع نہیں ہوتے اگر ہم اپنے اپنے حلقے میں مخلص اور قابل لوگوں کو موقع دیں تو ان کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب سیاسی جماعتوں کو آئندہ انہیں ٹکٹ دینے کی طرف راغب کرے گا۔ تہذیب و تمدن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، منطقی دلائل اور اپنی کارکردگی سے ایک دوسرے پر ضرور وار کریں مگر ان الفاظ سے اجتناب کریں جو نہ صرف لاکھوں دلوں کو مجروح کر جاتے ہیں بلکہ دنیا میں ہماری پہچان کو بھی دھندلا دیتے ہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ سے ٹرن آؤٹ مایوس کن حد تک کم رہا ہے اس کی ایک وجہ تو مسائل کا شکار طبقے کی سیاست سے بیزاری ہے اور دوسرا ووٹر تمام لوگوں کو ایک جیسا سمجھ کر کسی کے حق میں فیصلہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کم ٹرن آؤٹ غیر جمہوری قدروں کی ترجمانی کرتا ہے۔ ابھی ترکی میں انتخابات ہوئے اور وہاں نوے فیصد سے زیادہ ٹرن آؤٹ رہا۔ اس دفعہ ہم کوبھی دنیا کو دکھانا ہے کہ ہم واقعتا جمہوریت کے چاہنے والے ہیں، جمہور کی حکومت کے لئے کوشاں ہیں۔25 تاریخ کو گھر سے ضرور نکلیں، اپنا حقِ انتخاب ضرور استعمال کریں جس کے بارے میں آپ کو تھوڑا سا بھی یقین ہے کہ وہ ملک کی بہتری اور ترقی کا ضامن ہے اس کے حق میں فیصلہ کریں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو ڈکٹیٹ کرنے کی بجائے اپنی کارکردگی سے انہیں متاثر کریں۔ ان کے ضمیر خریدنے کی بجائے ان کی رائے کا احترام کریں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ