کہنے والوں نے کہا کہ مجھے جن چمٹ گیا ہے اور وہ بھی ریپ کا۔
ہائے میں مر گئی!
جن چمٹ گیا اور وہ بھی ریپ کا۔
کہاں سے چمٹا؟
کیا میں گئی بال کھول کر شام ڈھلے مغرب کے وقت کسی گھنے چھتنار درخت کی جٹاؤں تلے؟
یا موتنے بیٹھ گئی کسی ایسی جگہ جہاں جن صاحب کا آرام بسیرا تھا۔ سو کر اُٹھے تو خود کو بھیگا پا کر نکل کھڑے ہوئے اس گستاخ کی تلاش میں اور پھر چمٹ گئے اسے؟
لیکن جن چمٹنے کے بعد ہوا کیا؟
دیکھنے والے کہتے ہیں کہ بیٹھے بیٹھے ہماری آنکھیں چڑھ جاتیں، ڈیلے سرخ ہو کر باہر کو نکل آتے، منہ سے زور دار چیخ نکل جاتی اور ہم چھاتی پیٹنے لگتے۔ منہ سے ایک ہی لفظ نکلتا۔ ریپ۔ ریپ!
دیکھنے والے بھانپ گئے کہ ریپ کا جن آ پہنچا!
کیا کریں؟ کیا ہے علاج؟
جن نکالنے والا عامل؟
جو انگیٹھی میں لال مرچوں کی دھونی رما کر ہمارا سر پکڑ کر اس کا دھواں ہمارے نتھنوں میں گھساتے ہوئے پوچھے۔ بتا چھوڑے گا کہ نہیں اس بد نصیب کو؟
یا پھر کوئی عمر رسیدہ جوگی جو رسیوں میں ہمارا جسم باندھ کر ہمیں رہ رہ کر کوڑا مارتے ہوئے پوچھے۔ جاتا ہے کہ نہیں؟
مرچوں کی دھونی سونگھتا اور ہر کوڑے سے جسم پہ پڑنے والے نشان سے کانپتا ہوا جن کیا کہے؟
معافی ہو گئی مائی باپ۔ ابھی چھوڑتا ہوں اس عورت کو۔ میری توبہ۔ میرے پرکھوں کی توبہ جو میں اس عورت کی طرف دوبارہ دیکھوں بھی۔ بس جا رہا ہوں۔
جوگی اور عامل اپنے عمل کی کامیابی پر جھومتے ہوئے اردگرد بیٹھے ہوؤں سے داد و تحسین سمیٹتے ہیں۔
کمال۔ کمال۔ جن کو بھگا دیا۔
تھر تھر کانپتا جن بھاگنے کے لیے اُڑان بھرنے ہی لگتا ہے کہ کوئی ایک دم سے اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ وہ چونک کر مڑتا ہے۔ ارے کیا؟
مرچوں کی دھونی اور کوڑوں کی ضربیں سہتی بے سدھ، بے حال عورت نے جن کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا ہے۔ نہیں۔ خدا کے مجھے چھوڑ کے مت جاؤ۔
حیرت کی شدت سے جن کا منہ کھل جاتا ہے۔ یہ۔ یہ کیا کہہ رہی ہے؟
اپنے جسم کو لہولہان جس مقصد کے لیے کروایا اب اسی سے انکاری؟
میں۔ میں یہ نہیں چاہتی تھی۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ عورت کراہتی ہے۔
میری۔ میری ضرورت؟ جن حیران ہو کر عورت کو دیکھتا ہے۔
ہاں جب بھی۔ جب بھی۔ میں تمہارا نام لیتی ہوں نا۔ وہ سسکیاں بھرتے ہوئے بول نہیں پاتی۔
کیا؟ کیا کہنا چاہتی ہو تم؟ تم میرا نام لیتی ہو تب کیا ہوتا ہے؟ جن بے قراری سے پوچھتا ہے۔
یہ۔ یہ۔ سب تمہارا نام سن نہیں سکتے۔ یہ۔ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی تمہارا ذکر نہ کرے۔ عورت ہچکیاں لے کر رو رہی ہے۔
کیوں؟ کیوں چاہتے ہیں یہ سب۔
کیونکہ یہ سب تمہارے دوست ہیں۔ تمہیں چاہتے ہیں۔
ہائیں۔ یہ سب میرے دوست ہیں۔ مجھے چاہتے ہیں اور پھر بھی چاہتے ہیں کہ تم میرا نام نہ لو اور میں تمہیں چھوڑ دوں؟ کچھ پلے نہیں پڑا؟ جن منہ بناتا ہے!
اگر میں تمہارا نام نہیں لوں گی۔ اگر میں تمہارا نام لے لے کر چیخیں نہیں ماروں گی۔ تو تمہارا کام رُکے گا کیسے؟ عورت دلگرفتہ لہجے میں کہتی ہے۔
تو یہ سب کیا چاہتے ہیں؟
یہ مجھے خاموش دیکھنا چاہتے ہیں۔ درپردہ یہ تمہارے دوست ہیں۔ انہیں تمہارے کام کی سنگینی خوف میں مبتلا نہیں کرتی۔ انہیں اندازہ نہیں کہ جب کسی عورت کا ریپ کیا جائے تو یہ محض ایک جنسی عمل نہیں۔ یہ عورت کی ذات، شخصیت اور جسم کو ریزہ ریزہ کرنے کا نام ہے۔ ریپ ہوئی عورت زندہ تو رہتی ہے لیکن زندوں میں نہیں رہتی۔ یہ سب اس کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔
عورت کی آواز لرز رہی ہے۔
کیوں؟ جن کو ابھی بھی بات سمجھ نہیں آ رہی۔
سنو کسی زمانے میں رومن تھیٹر میں جنگلی جانوروں اور انسانوں کی اصل لڑائی کروائی جاتی تھی جس میں جنگلی جانور اپنے نوکیلے دانتوں اور پنجوں سے جیتے جاگتے انسانوں کی بوٹی بوٹی کرتے تھے۔ انسانی جسم سے جب بھی خون کا فوارہ چھوٹتا، ہزاروں افراد سرشار ہو کر تالیاں پیٹتے پیٹتے اپنی ہتھیلیاں سرخ کر لیتے۔ ایک انسان قطرہ قطرہ مرتا اور ہزاروں انسان زندگی کو رخصت ہوتے دیکھ کر اچھلتے کودتے۔
سنو یہ سب بھی وہی تماش بین ہیں۔ یہاں ایک عورت کو نوچ نوچ کر زندگی چھینی جاتی ہے اور ان کے رگ و پے میں سرشاری اور جنون کا طوفان ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ جیتی جاگتی عورت کی بوٹی بوٹی جنسی بھیڑیے علیحدہ کر دیتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ ایک اور خبر ہوتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ عورت ان بھیڑیوں کے پاس سے گزری کیوں؟ کم عقل جانتی نہیں تھی کہ درندے بھوکے تھے!
مگر تم میری وجہ سے تکلیف میں ہو۔ جن کی آواز ہلکی ہو چکی ہے۔
ہاں۔ لیکن میں ان سب کو کیسے فراموش کروں جو میرے جیسی تھیں اور ریپ نے ان سے زندگی چھین لی۔
دیکھو۔ یہ عامل اور جوگی تمہیں تکلیف پہنچاتے رہیں گے تاکہ تم میرا نام لینا چھوڑ دو۔ اتنی تکلیف سہ ہو گی تم؟
میں اس زمانے اور اس وقت میں موجود ہوں اور اگر یہ کھیل میری آنکھ کے سامنے کھیلا جائے اور میں چپ رہوں تو کیا میرا ہونا ثابت ہو گا؟ میرے وجود کا موجود ہونا میرے احتجاج کے پیچھے چھپا ہے۔ میں اپنی ذات کی نفی نہیں کر سکتی۔
عورت کے آنسو بہہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ تم بہت شور مچاتی ہو۔ پر کا کوا بناتی ہو۔ سو اسی لیے یہ تمہیں یہاں لائے ہیں۔ جن کہتا ہے۔
سنو اگر ایک عورت بھی نوکیلے دانتوں اور پنجوں کی زد میں آ کر اپنا رگ و ریشہ ادھڑوا ڈالے تو کیا اس ایک عورت کا درد، درد نہیں ہو گا کیا؟ عورت چلا اُٹھتی ہے۔
جن سر جھکا لیتا ہے۔
تمہیں۔ تمہیں۔ میرے ساتھ رہنا ہے۔ مجھے ریپ کے جن کی ضرورت ہے۔ جس کے زیر اثر میں حال کھیلوں۔ بال بکھراؤں، سر پیٹوں۔ اور چیختی ہوئی کہوں۔ ریپ۔ ریپ!
میں کسی عامل کی مرچوں والی دھونی سے نہیں ڈرنے والی اور کسی جوگی کے کوڑے کی ضرب سے نہیں مرنے والی!
میں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گی۔
یہ کہتے ہوئے عورت دوبارہ حال کھیلنے لگتی ہے۔ عامل اور جوگی بوکھلا جاتے ہیں اور اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ ایک دوسرے کو سرگوشیوں میں کہتے ہیں۔
بڑا ظالم جن ہے! آسانی سے نہیں نکلے گا!
( بشکریہ : ہم سب لاہور )
فیس بک کمینٹ