تحریک انصاف کی حکومت کو دو سال ہونے کو آئے ہیں مگر ڈھاک کے وہی تین پات ہیں تبدیلی تو کیا آنی تھی رواں معاملات بھی بگڑ رہے ہیں ترقیاتی کام تو پہلے ہی ”کیپ“ ہو چکے تھے اب مہنگائی اور بے روز گاری کا عفریت سر چڑھ کر بولنے لگا ہے اور حالت یہ ہے محض دو سال قبل 30سے 31روپے فی کلو بکنے والا آٹا اب 70روپے سے زیادہ ہو چکا ہے پٹرول اور ڈالر کی بات الگ ہے عام آدمی انتہائی اذیت کا شکار ہے جرائم کم ہونے کی بجائے برے طریقے سے بڑھ رہے ہیں انتظامی امور ٹھپ اور لوٹ مار‘ کرپشن کے نئے ریکارڈ متعین ہو رہے ہیں عوام کی چیخ و پکار صرف حکمرانوں کو سنائی نہیں دے رہی کیونکہ ان کی ترجیحات شاید یہ نہیں ہیں احتساب کے نام پر کھیل کھیلا جا رہا ہے اور قانون کی ذاتی مفاد کیلئے دھجیاں اڑائی جا رہی ہے اور اب شنید ہے کہ نیب قوانین کو تبدیل کیا جائے گا اور اس تبدیلی کے مسودے کو نہ صرف اپوزیشن کی حمایت حاصل ہو گی بلکہ یوں کہنا زیادہ درست ہو گا کہ اس میں تبدیلی کا فیصلہ وہ کریں گے جو خود نہ صرف کرپشن میں ملوث بلکہ نیب ان کی تحقیقات کر رہا ہے اب کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان کے ہاتھوں سے نکلنے والا یہ قانون کس کو تحفظ فراہم کرے گا؟کیونکہ یہ بات اب ہر خاص و عام کی زبان پر ہے کہ نیب قوانین میں تبدیلی اپنے بندوں کو بچانے کیلئے لائی جا رہی ہے تحریک انصاف کی قیادت سے عام آدمی کو یہ امید تھی کہ انہیں کچھ ریلیف حاصل ہو گا لیکن حقیقتاً یہی طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن مجال ہے جو حکمرانوں کے کان پر جوں بھی رینگی ہو بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ عوام کی توجہ اپنی کہہ مکرنیوں سے ہٹانے کیلئے کوئی نہ کوئی نیا شوشا چھوڑ دیتے ہیں جو میڈیا اپنا لیتا ہے اور یہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر کر تماشا دیکھتے ہیں۔
ٹھیک اسی طرح انہوں نے جنوبی پنجاب کے ساتھ کیا ہے،جہاں انہوں نے نہ صرف عوام سے وعدہ کیا تھا کہ بلکہ ایک خاص مقصد کیلئے بنائے جانے والے ”جنوبی پنجاب صوبہ محاذ“کے کرتا دھرتا اور سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کو بھی ساتھ ملایا تھا کہ پہلے سو دن میں صوبہ بنا دیا جائے گا۔مگر اس کے بعد نہ تو محاذ والوں کا کچھ معلوم ہوسکا نہ ان کی آواز سنائی دی البتہ وزارتیں مشاورتیں حاصل کرکے ماضی کی طرح اقتدار کے ایوان میں گم ہوگئے،جنوبی پنجاب وسیب کے باسیوں نے مسلسل آواز بلند کئے رکھی لیکن طفل تسلیاں اور کبھی خاموشی ملی لیکن اب اچانک ایک انتظامی حکم کے ذریعے جنوبی پنجاب میں الگ سیکرٹریٹ بنانے کا نہ صرف اعلان کردیا بلکہ فوری طور پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کو تعینات کرکے بہاولپور کو صدر مقام ڈکلیئر کردیا اور دوسرے دن ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے ایک پریس کانفرنس میں اس حوالے سے خدوخال واضع کردئیے اور دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ تو بہاولپور میں ہی ہوگا البتہ ملتان اور ڈیرہ غازی خان اس کے سب آفس ہوں گے جس کا اور تو کسی نے برا نہیں منایا البتہ ملتان کی کچھ تنظیموں اور خصوصا میڈیا نے بہت شور مچایا جس پر ارکان اسمبلی کچھ عرصہ کیلئے تقریباً غائب ہوگئے ملتان میں سیکرٹریٹ بنانے کے سب سے بڑے داعی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کرونا کا شکار ہو کر دو ماہ سے زیادہ عرصہ اسلام آباد اور لاہور ہی رہے اس دوران میڈیا کے کچھ متحرک ارکان نے تحریک چلانے کا اعلان کیا اور پریس کلب میں ایک مشاورتی اجلاس بلا لیا جس پر وزیر خارجہ فوری طور پر ملتان پہنچے اور آتے ہی سرکٹ ہاؤس میں ملتان کی پریس کو بلایا جس میں انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں اس انتظامی حکم کی حمایت اور تائید کر دی البتہ یہ تسلی بھی دی ایک دن کیلئے یہ دو سول سرونٹس ملتان میں بھی بیٹھا کریں گے حالانکہ انہیں یہ معلوم ہو نا چاہیے تھا کہ ملتان ایک میٹروپولٹین شہر ہے جہاں سی پی او کیلئے ڈی آئی جی اور آر پی او کیلئے ایڈیشنل آئی جی کی پوسٹ موجود ہے مگر اب واضع ہوتا ہے کہ ملتان کی حیثیت بھی خطرے میں پڑ چکی ہے اب حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ سیکرٹریٹ بہاولپور میں ہی رہے گا البتہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے اس دعوے کو کب تقویت ملتی ہے کہ جنوبی پنجاب علیحدہ صوبہ بن کر رہے گا کیونکہ تبدیلی کے باقی نعروں کی طرح عوام اس کی حقیقت سے بھی آگاہ ہو چکی ہے۔
ادھر مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک مرتبہ پھر اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اپوزیشن جلد مائنس ون فارمولے پر اکٹھی ہو جائے گی کیونکہ ملک میں بظاہر عمران خان کی حکومت ہے لیکن اسے مافیاز چلا رہے ہیں اور حکومت آپس میں تقسیم ہو چکی ہے حکومتی ارکان اپوزیشن کا کام کر رہے ہیں تاہم اس کے باوجود وہ (مخدوم جاوید ہاشمی) چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت پانچ سال پورے کرے۔دوسری جانب متوقع بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے مسلم لیگ ن نے تیاریاں شروع کر دی ہیں اور پنجاب کے ڈویژن اور اضلاع میں عہدیداروں کا اعلان کر دیا گیا ہے صوبائی سیکرٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیرسردار اویس خان لغاری اس سلسلہ میں متحرک ہیں اور تنظیم سازی کے ساتھ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے کارکنوں اور ووٹرز کو متحرک کر رہے ہیں اور نئے عہدیداروں کے چناؤ میں سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اہل افراد کو تنظیمی عہدہ دے رہے ہیں جس کا اعتراف نہ صرف کارکن بلکہ ن لیگ کی مرکزی قیادت بھی کر رہی ہے۔ادھر صوبائی وزیر صنعت میاں اسلم اقبال نے ایوان صنعت و تجارت لاہور میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ لیہ کی تحصیل چوبارہ میں پہلے مرحلے پر 20ہزار ایکڑ رقبے پر ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اکنامک زون بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے جس کو بعد از توسیع دے کر 50ہزار ایکڑ تک لے جایا جائے گا اس سپیشل اکنامک زون میں ایک بڑی لیبر کالونی بھی بنائی جائے گی اور چنا کی ری لوکیٹ ہونے والی انڈسٹری کو یہاں منتقل کرانے کی کوشش کی جائے گی صوبائی وزیر کا یہ خوش کن بیان سر آنکھوں پر لیکن وزیر موصوف کو لاہور سے آ کر اس پورے علاقے میں بذات خود سروے کرنا ہو گا کہ یہاں ایسا ہی اکنامک زون بننے کی نہ صرف گنجائش موجود ہے بلکہ اس خطے کی ضرورت ہے جغرافیائی‘ موسمی اور زمینی اعتبار سے حیرت انگیز علاقہ ہے جہاں دنیا کی بہترین اور سستی ترین لیبر دستیاب ہے جنہیں تربیت دیکر کار آمد بنایا جا سکتا ہے را میٹریل پیدا کرنے کیلئے انتہائی زرخیز زمین موجود ہیں جو ملکی معیشت میں اصل گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے مگر یہ دھیان رکھنا ہو گا کہ یہاں چین کی کیمیکل انڈسٹری شفٹ نہ ہونے دیں کیونکہ شنید یہی ہے کہ بین الاقوامی دباؤ اور فضائی آلودگی میں خطرناک اضافے کے بعد چین نے اپنی کیمیکل انڈسٹری کچھ عرصہ سے بند کر رکھی ہے جسے وہ شفٹ کرنا چاہتا ہے اور اسی بات کی تائید وزیر موصوف نے بھی کی ہے چین کی نظر اس اور اس جیسے علاقوں پر ایسی انڈسٹری منتقل کرنے کیلئے پہلے ہی ہے اور اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر ان فیکٹریوں کا ویسٹ دریائے سندھ میں ڈالے گا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہیڈ تونسہ کے بعد اس پانی کے ساتھ کیا ہو گا نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ اندرون سندھ کی زراعت آبی حیات اور انسانی زندگی کس قدر متاثر ہو سکتی ہے اس کا اندازہ وزیر موصوف کو شاید کبھی بھی نہ ہو پائے۔
فیس بک کمینٹ