چھوٹے لاک ڈاؤن کے سائے میں بڑی عید کا رنگ کیسا اور کیف کیسا؟ اپنی اپنی اناؤ ں کو گردنوں میں جڑے سریے کی اوٹ میں بچاتے ہوئے جانوروں کی قربانیاں کی جائیں گی مگر شائد وہ پہلا سا سرور و لطف نہ ہو کیونکہ وہ کرونا کی آمد سے بہت پہلے ختم ہوچکا ،تب کا ختم ہوچکا جب پہلے پہل مساجد کو ذاتی ملکیت کے اشتہاروں کے بوجھ سے لادا گیا تھا اور ہر فرقے نے اللہ کے گھر کو متنازعہ بنا دیا تھا۔
عیدین تب کی ماضی کی گرد میں ڈوب گئیں جب محراب و منبر کو نمازیوں کے لہو سے سرخ رنگ لبادہ پہنایا گیا تھا۔اب تو صرف وبا کا چرچا ہے مگر اس سے پہلے بھی مساجد میں جان ہتھیلی پر رکھ کر جایا جانے لگا تھا جب مذہب سے زیادہ اہم مسلک کا مسلہ درپیش تھا۔عیدین پر پرانی دشمنیوں کی بنیاد پر قتل و غارت عروج پہ تب آئی جب سنیماؤں کے بڑے پردے پر گنڈاسہ فلمیں نمائش کے لئے پیش ہوئیں۔کالعدم تنظیموں نے نام بدل چندا مہم جاری رکھی اور پس پردہ ذہن سازی کرتے ہوئے نفرت کا کاروبار کرتے رہے۔ایک خالص جمہوری و نظریاتی ملک میں اسلام کو خطرات لاحق ہوئے اور اپنے مسلمانوں سے ہوئے۔کہیں امن و امان کے مذہب کو خون آلود کرنے والوں نے خود کو غازی سمجھ لیا اور کہیں اپنے ہی ہم مسلک لوگوں کو تو ہین مذہب کا ملزم سمجھ کر عبرت کی مثال قائم کردی۔
وہ عیدیں بھی عہد رفتہ کا گمشدہ باب ہوگئیں جب قربانی کے گوشت کے چھوٹے چھوٹے حصے بڑے تھال میں پھیلا کر ہر گھر میں تقسیم کئے جاتے اور وصول بھی کئے جاتے ،گوشت کا حصہ دینے والا باقاعدہ اطلاع کرکے جاتا کہ گوشت بڑا ہے یا چھوٹا،یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب گوشت کا کوئی مسلک نہیں ہوتا تھا،بکرا یا دنبہ صرف حلال جانور ہوتے تھے ۔کوئی بکرا شیعہ ہوتا تھا نہ کوئی بچھڑا دیوبندی۔چھوٹی چھوٹی ناراضیاں قربانی کے گوشت کی باہمی تقسیم پر نفرت کی ضرب نہیں لگاتی تھیں،دن بھر ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا تھا۔
عید کے رنگ پھیکے کرنے میں لاک ڈاؤن کا کردار بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ گزشتہ چھ ماہ سے بند پڑے کاروبار جس قدر قربانی دے چکے ہیں اب مزید کوئی جانور قربان کرکے سنت ابراہیمی ادا کرنا مشکل ترین ہو چکا ہے اس لئے جو اہل ثروت استطاعت رکھتے ہیں وہ گوشت کی تقسیم کو میرٹ پر رکھیں کہ غربا کا حق بہرحال زیادہ ہے۔حکومت پاکستان کے طے شدہ اصولوں کے مطابق عید کیا عید ہوگی کہ گلے ملنے کی رسم دنیا،موقع اور دستور بھی فراموش ہونے کو ہیں۔
کرونا کی وبا نے جہاں جدید سائینس اور ٹیکنالوجی کو اوقات یاد دلا دی وہاں پیری فقیری اور رسہ گیری کا بھی دھندہ صاف کردیا کہ صحت و تندرستی کا تعویز بیچنے والے عامل و جعلی کامل خود وٹامن سی کی گولیاں کھا کر قوت مدافعت بڑھاتے نظر آئے۔اس عید پر لبوں پہ رنگ تبسم اور نہ دل میں موج سرور کی کیفیت ہوگی۔مویشی منڈیوں میں بھی پہلی سی رونق نہ رہی۔سیاسی رنگوں کی طرح معاشی رنگ بھی بدنما ہوتے جارہے ہیں۔ایک حبس ہے جو سوچ کو بے سوچ کرتا ہوا یادوں کے حاشئے دیمک زدہ کرتا ہے۔اس عید کو صرف تہوار سمجھ کر گزارا جائے تو کافی ہے ورنہ زیادہ جذباتی ہونا آپ کو شہید یا کم از کم غازی کے رتبے پر فائز کر سکتا ہے۔قارئین کو چھوٹے لاک ڈاؤن کی بڑی عید مبارک ہو۔
فیس بک کمینٹ