وہ ستمبر 2014 کی دوپہر تھی جب اشرف غنی نے صدارت کا حلف اٹھایا۔ اس حلف کے موقع پر افغان پروٹوکول کے ایک افسر نے کہا تھا، یہ دکان چلنے والی نہیں۔ آج جب وہی اشرف غنی طالبان کے امڈتے ہوئے طوفان کے سامنے بے بس ہو کر ملک چھوڑ گیا ہے تو کہا جا رہا ہے، وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کر۔
اشرف غنی اس انجام کو کیوں پہنچے؟ یہ سوال بظاہر غیر ضروری ہے۔ افغانستان کو جاننے والے جانتے ہیں کہ اس ملک میں اشرف غنی کی طرح اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے یعنی چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔
اس اندھیری رات سے دن کی روشنی کی جو کرنیں پھوٹ رہی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس روشنی میں افغانستان کے ماضی سے سبق لیا جائے خود افغانستان کے لیے بھی اور اپنی عمومی قومی سیاسی زندگی میں بھی۔
افغانستان کے پندرہ اگست دو ہزار اکیس کے دن میں کئی سبق پوشیدہ ہیں۔
پہلا اور اہم سبق یہ ہے کہ دنیا کی چاہے کتنی بڑی عسکری اور مادی طاقت کیوں نہ ہو، وہ اپنی تمام تر قوت قاہرہ کے باوجود اس ملک میں اپنی کوئی کٹھ پتلی نصب کرنے میں کامیاب تو ہو سکتی ہے لیکن یہ کٹھ پتلی اس ملک میں کوئی پائیدار کردار کبھی نہ ادا کر سکے گی۔ سوویت یونین نے یہ سبق بہت پہلے سیکھ لیا تھا، اب توقع کی جانی چاہیے کہ امریکا نے بھی سیکھ لیا ہوگا اور وہ اس ملک میں آئندہ کبھی مداخلت نہیں کرے گا۔
اس کا دوسرا سبق یہ ہے کہ افغانستان جیسے قبائلی اور عسکری قوم کو کسی جابرانہ نظام کے ذریعے نہیں چلایا جا سکتا۔ ماضی میں طالبان نے جبر کے ذریعے اپنے عقائد کے نفاذ کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب نائن الیون کے بعد طالبان پر برا وقت آیا تو ان کے ساتھ کوئی نہ کھڑا تھا۔ طالبان کے موجودہ عہد نو اب تک جو واقعات رونما ہوئے ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے ماضی سے سبق لیا ہے اور اب وہ اپنے عوام دشمنوں کے ساتھ جبر کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اگر طالبان کا موجودہ طرز عمل سوچا سمجھا ہے تو توقع کی جانی چاہیے کہ اسے دوام ملے گا۔آج کے افغانستان سے تیسرا سبق یہ ملتا ہے کہ اس ملک کی قیادت یا بعض صورتوں میں عوام بھی معروف جمہوری سیاسی روایات کے مطابق ایک دوسرے کی سیاسی طاقت اور حیثیت کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی۔ لہٰذا اس ملک کو جب بھی اس کی اپنی قیادت ملی، طاقت کے زور پر ملی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نہ طالبان ابھرتے اور نہ یہ ملک تادیر نہ صرف خود موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوتا بلکہ اپنے ہمسائیوں کو بھی مشکلات میں مبتلا نہ کرتا۔
اس ابتلا سے سبق یہ ملتا ہے کہ افغانستان ہو یا دنیا کوئی بھی خطہ، ضرورت اس امر کی ہے کہ مختلف تلخ تجربات کے بعد قیادت بالغ نظری سے کام لے کر حقائق کو تسلیم کرنے کی روش اختیار کرے۔
( بشکریہ : آوازہ )