نفرت کا جذبہ اس قدر شدید اور نقصان دہ ہے کہ یہ انسانی شخصیت، معاشرے اور اقوام کے اندر وہ بگاڑ پیدا کرتا ہے کہ اس کا ازالہ ممکن نہیں رہتا۔
ویسے تو نفرت کرنے کے لئے کسی جواز کا ہونا ضروری نہیں لیکن لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو دوسرے انسانوں سے رنگ، نسل، مسلک، عقیدے، مذہب، ذات پات، جنس، کسی جسمانی معذوری، زبان، تہذیب و ثقافت اور معاشی تفریق کی بنیاد پر نفرت کرتی ہے۔ علم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی مدد سے نفرت کے جذبے کو انسانی نفسیات سے زائل کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جہالت اور نفرت لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔
انسان جیسے جیسے علم حاصل کرتا چلا جاتا ہے اس کے اندر محبت اور اپنائیت کا احساس غالب اور نفرت کا جذبہ مغلوب ہوتا چلا جاتا ہے۔ نفرت انسان سے قوت برداشت چھین کر اسے انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے جو ملک اور قوم کے لئے تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ مفلوک الحال اور پسماندہ معاشروں اور ملکوں میں آئے روز سینکڑوں ایسے واقعات اور سانحے رونما ہوتے ہیں جن کی بنیاد کسی نہ کسی طرح کی نفرت ہوتی ہے۔ اسی طرح کی نفرت کے جذبے کا اظہار ہمیں سوشل میڈیا پر بھی دن رات نظر آتا ہے اور نفرت کی یہ آگ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی پھیلتی چلی جا رہی ہے۔
برطانیہ ایک ملٹی کلچرل ملک ہے جہاں درجنوں رنگ و نسل، مذاہب، ثقافتوں اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں۔ اس ملک میں نسلی منافرت اور مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے سخت قوانین موجود ہیں اور ان کو مزید موثر بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور اب برطانوی پارلیمنٹ سے ہیٹ کرائم بل کی منظوری کے لئے تگ و دو ہو رہی ہے۔ سفید فام لوگوں یا انگریزوں میں بھی نفرت او رمحبت کے انسانی جذبے اسی طرح موجود ہیں جس طرح دوسرے غیر سفید فام لوگوں میں موجود ہوتے ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ انگریز لوگ دوسرے انسانوں کی نسبت کم جذباتی ہوتے ہیں۔ وہ اگر کسی سے نفرت کرتے بھی ہوں تو اس کا برملا اظہار نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی ان کے خلاف نفرت کا اظہار کرے تو وہ اس پر ردعمل ظاہر کرنے کی بجائے اسے قانون کے کٹہرے میں لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔برطانوی سکولوں میں بچوں کو ابتدا سے ہی نسلی ہم آہنگی اور نسلی مساوات کا درس اور تربیت دی جاتی ہے اس لئے یہاں کے لوگوں میں اپنے سے مختلف مذاہب اور رنگ و نسل کے لوگوں کے خلاف نفرت کا جذبہ اس قدر شدید نہیں ہے جتنا کہ مسلمان ممالک کے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانوی شہریوں میں قوت برداشت یا ٹالرنس نسبتاً زیادہ ہے۔ اگر آپ پاکستان میں لوگوں کی گھورتی ہوئی آنکھوں اور چہروں پر غالب کرختگی کا مشاہدہ کریں تو بڑی آسانی سے اس حقیقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے کتنا بغض رکھتے اور نفرت کرتے ہیں۔ ویسے تو ہر طبقہ فکر کے لوگ پاکستان میں اس بات کا دن رات پرچار کرتے ہیں کہ اسلام امن کا پیامبر ہے لیکن عملی طور پر ہم اپنے سے مختلف مسلک اور عقیدے کے مسلمانوں کو کافر قرار دینے اور ان کے خلاف نفرت کو ہوا دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں اور گرجا گھروں میں بم دھماکے اور حملے اسی نفرت کا شاخسانہ ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کبھی اس نفرت کے سدباب کے لئے کوئی موثر حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔
یہی وجہ ہے کہ اب نفرت کی یہ آگ قومیتوں، صوبوں، رنگ و نسل اور ایک دوسرے سے مختلف زبانیں بولنے والوں تک پھیل گئی ہے۔ جن چیزوں سے ہمیں بطور مسلمان نفرت کرنی چاہئے تھی انہیں ہم نے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا رکھا ہے۔مثلاً ہمیں جھوٹ، حرام کی کمائی، ملاوٹ، رشوت، منافقت، ظلم، ناانصافی، دھوکے، فریب اور دو نمبری سے نفرت کرنی چاہئے لیکن یہ سب کچھ ہماری معاشرتی زندگی کا ناقابل تردید حصہ ہے۔ ہم د وسرے ملکوں کے لوگوں کو نسل پرست قرار دینے سے بالکل گریز نہیں کرتے مگر خود اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ ہم نے اپنی سماجی، سیاسی اور مذہبی زندگی میں ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی کیسی کیسی دکانیں اور بازار کھول رکھے ہیں۔ کسی بھی طرح کی نفرت کا پرچار انسانی معاشرے کو رفتہ رفتہ جنگل میں تبدیل کر دیتا ہے۔
ہر انسان پیدائشی طور پر کسی بھی طرح کی نفرت کے احساس سے عاری ہوتا ہے لیکن گھر کا ماحول، معاشرہ اور تربیت اسے نفرت اور محبت کے جذبے سے آشنا کرتے ہیں۔ ہم اگر ایک لمحے کے لئے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ گذشتہ 70برس سے زیادہ عرصے میں ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں محبت اور اپنائیت کو پروان چڑھایا یا نفرت کے بیج بوئے ہیں؟ آج ہمارے ملک میں جو بدامنی، افراتفری، شدت پسندی، عدم برداشت اور نفسا نفسی پھیلی ہوئی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ ہم نے کبھی نفرت کے فروغ کا راستہ روکنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی اپنے تعلیمی اداروں میں اپنی نئی نسل کی اس حوالے سے کسی قسم کی تربیت کی ضرورت محسوس کی ہے۔ہماری نفرت کا جواز اپنی جگہ ہم تو محبت کے معاملے میں بھی عجیب ہیں۔ بقول مشتاق احمد یوسفی ”ہم تو اس جانور تک سے محبت نہیں کرتے جسے ذبح کرکے نہ کھا سکیں“۔
سرور کائنات حضور نبی کریمؐ، نبی آخر الزماں ؐ کی معاشرتی زندگی میں صلہ رحمی کے ایسے ایسے شاندار واقعات موجود ہیں کہ اگر ہم آپؐ کے اس صلہ رحمی کے طرز عمل کی ہی پیروی شروع کر دیں تو ہمارا آج کا معاشرہ نفرتوں کی آگ میں جھلسنے سے بچ سکتا ہے۔
جس معاشرے میں کمزور کو انصاف نہ ملے، بے آسرا ظلم کا نشانہ بنے، دیانتداری جرم بن جائے، انسانی حقوق کی بات کرنے والے غدار کہلائیں، صبر کرنے والے کو کمزور سمجھا جائے اور فرض شناس کو عتاب کا نشانہ بننا پڑے تو وہاں محبتوں کے پھول نہیں نفرتوں کے ببول اور کانٹے اُگنے لگتے ہیں اور جو لوگ نفرتوں کی آگ بھڑکا کر یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے صرف ان کے دشمنوں کے گھر جلیں گے تو ان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جب نفرت کی آگ پھیلنا شروع ہوتی ہے تو اس آگ کو بھڑکانے والوں کے گھر بھی اس کی لپیٹ میں ضرور آتے ہیں۔ ہم اسلام کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں جو کہ امن کا پیامبر ہے لیکن اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ بدامنی مسلمان ملکوں میں ہے اور سب سے زیادہ نفرتوں کی آگ بھی اسلامی ملکوں میں بھڑک رہی ہے۔ جن ملکوں کو ہم کافر اور سازشی قرار دیتے ہیں وہ اپنے معاشروں میں نفرت کی آگ کو بھڑکنے ہی نہیں دیتے اور جہاں کہیں نفرت کی کوئی چنگاری دکھائی دیتی ہے اس کے مزید سلگنے، شعلہ بننے یا بھڑکنے سے پہلے ہی اس کا سدباب کر لیا جاتا ہے۔
ہم بھی اگر خوشحال اور پرامن غیر مسلم ممالک کی طرح انصاف اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنا لیں اور اپنے ہر شہری کے لئے معیاری تعلیم و تربیت کی فراہمی کے اصول کو اپنا لیں تو ہمارے ملک سے بھی بدحالی اور بدامنی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں سستے اور فوری انصاف کے بغیر امن قائم ہوا ہو۔ صرف عدالتوں میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں انصاف کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے ہی معاشرے میں امن کو فروغ ملتا ہے اور لوگوں کے دلوں سے نفرتوں اور کدورتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نفرت ایک اندھیرا ہے اور یہ اندھیرا محبت، رواداری اور امن کی روشنی کو نگل لیتا ہے۔ نفرت وہ بھاری پتھر ہے جس کے بوجھ تلے دب کر انسان کے اپنے لئے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔