برطانیہ دنیا کے 159 ممالک کو جدید اسلحہ اور دفاعی ساز و سامان فروخت کرنے والا ایک کامیاب ایکسپورٹر ہے۔ 2019 میں اس نے 14 بلین پاؤنڈز سے زیادہ مالیت کا اسلحہ فروخت کیا80 فیصد اسلحہ سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کے دیگر ملکوں نے خریدا۔ پاکستان بھی یونائیٹڈ کنگڈم سے اسلحہ خریدنے والے ملکوں میں شامل ہے اس وقت دنیا بھر میں امریکہ،روس، جرمنی، فرانس اور چین بڑے اسلحہ بیچنے والے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کے مطابق عالمی سطح پر ایک ہزار نو سو چالیس (1940) بلین ڈالر سالانہ اسلحے کی تجارت ہوتی ہے۔ اتنی خطیر رقم سے دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور اس اسلحے کے زور پر لڑی جانے والی جنگوں میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تقریبا 23 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یورپ میں جہاں بہت سے ممالک اسلحہ بنانے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں وہیں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اسلحہ سازی کے مخالف گروپ آرمز انڈسٹری اور آرمزٹریڈ کے خلاف ہر ممکن احتجاج کرتے اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں کہ اگر دنیا میں حقیقی امن کا قیام مقصو دہے تو اسلحہ سازی بند کی جائے۔
لندن میں ایک تنظیم کیمپین اگینسٹ آرمز ٹریڈ (CAMPAIGN AGAISNT ARMS TRADE) کے نام سے قائم ہے۔ ہزاروں پڑھے لکھے اور باشعور برطانوی شہری اس کے رکن اور حامی ہیں یہ تنظیم اسلحہ سازی اور اس کی فروخت کے بارے میں حقائق سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے مشن کو آگے بڑھارہی ہے اسی طرح کی تنظیمیں اور گروپ جرمنی اور ڈنمارک میں بھی فعال ہیں جن کے دباؤ پر ان دو ممالک نے نہ صرف 2019 میں اسلحہ سازی میں کمی کی بلکہ آرمز ایکسپورٹ اور خاص طور پر مڈل ایسٹ کے ممالک کو اسلحے کی فروخت میں 25 فیصد تک کمی کی۔ یہ کتنی دلچسپ حقیقت ہے کہ قیام امن کی ضرورت کے نام پر اسلحے کی انڈسٹری دن بدن فروغ پا رہی ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران اسلحے کے 4 بڑے خریداروں میں پہلے نمبر پر سعودی عرب اور چوتھے نمبر پر بھارت کا نام شامل ہے۔ بھارت میں جس قدر غربت اور مفلوک الحالی ہے ا س کے باوجود ایک ارب سے زیادہ آبادی پر مشتمل یہ ملک ہر سال 66 بلین امریکی ڈالرز اسلحے اور دفاعی سامان کی خریداری پر خرچ کر تا ہے۔ موجودہ حالات میں برطانوی شہریوں کی ایک بڑی تعداد برطانیہ کی اسلحہ سازی کی صنعت اور اس اسلحے کی مڈل ایسٹ کے ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب کو فروخت کے خلاف ہے اُن کا خیال ہے کہ شام، یمن اور مڈل ایسٹ میں جو تباہی و بربادی پھیلی ہے اس میں برطانوی اسلحے کی ایکسپورٹ کا بڑا عمل دخل ہے۔ حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ جو ملک مڈل ایسٹ کے ممالک کو اسلحہ فروخت کرتے ہیں وہ کب چاہیں گے کہ اس خطے میں امن قائم ہو جائے اوران کا اسلحہ بکنا بند ہو جائے۔ دنیا بھرمیں اسلحے کی انڈسٹری نے اپنا حجم اتنا بڑھا لیا ہے کہ اب یہ صنعت عالمی امن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو ممالک پاکستان اور بھارت کوجدید اسلحہ اور دفاعی ساز و سامان بیچتے ہیں وہ کبھی دونوں ملکوں کے درمیان امن قائم ہونے اور مسئلہ کشمیر کو حل نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اُن کی اسلحہ انڈسٹری کی بقا اسی میں ہے۔ کس قدر اچھنبے کی بات ہے کہ یونائیٹڈ کنگڈم دنیا بھر کو جدید ہتھیار اور اسلحہ فراہم کرتا ہے مگر اس کی اپنی عام پولیس کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ یا گن تک نہیں ہوتی برطانیہ نے اپنے ملک میں اسلحے اور آتشیں ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے سخت ضابطے اور قانون بنا رکھے ہیں اس ترقی یافتہ ملک میں عام آدمی کے لئے کسی بھی قسم کے اسلحے کے لائسنس کا حصول تقریبا ناممکن ہے۔ قتل اور جسمانی حملوں میں چاقو اور چھری کے استعمال کی خبریں آتی ہیں لیکن اگر آج بھی کوئی شخص فائرنگ یا گن کرائم میں اپنی جان سے چلا جائے تو پورے علاقے میں سنسنی پھیل جاتی ہے۔
گزشتہ برس سوا چھ کروڑ آبادی والے اس پورے ملک میں صرف 33 افراد ایسے تھے جو گن کرائم میں مارے گئے۔ برطانیہ میں گن کرائم کے مجرم کو سخت سے سخت سزا دینے کے علاوہ پوری تحقیق کی جاتی اور سراغ لگایا جاتا ہے کہ اس کے پاس یہ گن کس طرح اور کہاں سے آئی یعنی جو ملک دنیا بھر میں اسلحہ پھیلاتا ہے وہ اپنے ملک میں اس کے پھیلاؤ کی مکمل روک تھام کے لئے کسی قسم کی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیتا۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب تک اسلحہ سازی اور اس کے پھیلاؤ کا سدباب نہیں کیا جاتا دنیا میں امن اور شانتی نہیں آ سکتی۔ چند سال پہلے پاکستان آرڈیننس فیکٹریز اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین جنرل (ر) عبدالقیوم لندن آئے تو میں نے اُن سے استفسار کیا تھا کہ پاکستان میں اسلحے کے قانونی اور غیر قانونی پھیلاؤ کو روکے بغیر ہم اپنے ملک میں امن کیسے قائم کر سکتے ہیں؟ مگر انہوں نے مجھے اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ اگر جائزہ لیا جائے کہ پاکستان میں اسلحے کی فراوانی اور دستیابی کتنی آسان ہے تو ملک میں بدامنی اور خونریزی کی وجہ جاننے کے لئے کسی اور تحقیقی کی ضرورت نہیں۔ بہت سے لوگ پاکستان میں اسلحے کی فراوانی کو جنرل ضیاالحق کے دور کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں لیکن 1988 کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے اسلے کے اس پھیلاؤ کو روکنے کے لئے کوئی موثر حکمت عملی نہیں اپنائی اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی قانون سازی کی یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بنایا جانے والا غیرقانونی اسلحہ پورے ملک میں پھیل جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریبات ہوں یا سیاسی جلسے جلوس ہر جگہ اسلحے کی نمائش اور ہوائی فائرنگ ایک فیشن بن گیا ہے جبکہ وہ اسلحہ اس کے علاوہ ہے جو پاکستان دشمن عناصر اور ہمسایہ ملکوں کے ذریعے دہشت گردوں اور بدامنی پھیلانے والوں تک پہنچتا ہے۔ اگر کسی کشتی میں پانی بھرنا شروع ہو جائے تو چاہے اس میں سے کتنی ہی بالٹیاں بھر بھر کے پانی نکالتے رہیں کشتی ڈوبنے سے نہیں بچ سکتی تا وقتیکہ اس سوراخ کو نہ بند کیا جائے جہاں سے پانی کشتی میں داخل ہو رہا ہے۔
پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جہاں لوگوں کو اپنے پاس اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے اور حکومت اس کے لئے اسلحہ لائسنس جاری کرتی ہے۔ لائسنس یافتہ اسلحے کے علاوہ پاکستان میں غیر قانونی اسلحے کی بھرمار کا اندازہ لگانا تقریبا نا ممکن ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان اُن ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ملک ہے جہاں ہر قسم کے اسلحے، دھماکہ خیز مواد اور تیزاب کی دستیابی کوئی مسئلہ نہیں۔ نفسیاتی تجزیہ کرنے والوں کی رائے ہے کہ جن ملکوں کے لوگ بہت جذباتی سوچ کے حامل ہوں اور جن میں عدم برداشت کی کیفیت انتہا پر ہو وہاں اسلحے کی دستیابی بلکہ فراوانی صرف اور صرف بدامنی اور قتل و غارت گری کا باعث بنتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں مجھے ایک بار درہئ آدم خیل جانے کا موقع ملا جہاں ہر طرح کا اسلحہ سرعام فروخت ہو رہا تھا جس میں پین گن (لکھنے والے پین میں نصب چھوٹی گن) سے لے کر کلاشنکو ف اور دیگر خطرناک ہتھیار اور اسلحہ کوئی بھی شخص خرید سکتا تھا بلکہ خریدنے سے پہلے اُسے چلا کر چیک بھی کر سکتا تھا اور اضافی قیمت ادا کر کے پاکستان کے کسی بھی حصے میں اس اسلحے کی ڈلیوری کی پیشکش بھی کی جا رہی تھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہم زبان سے کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام امن کا پیامبر ہے لیکن جس معاشرے میں قانونی اور غیر قانونی اسلحے کی فراوانی ہو اور لوگوں میں قوت برداشت دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہو تو وہاں لوگ دلیل کی بجائے گولی اور اسلحے کی زبان میں بات کرتے ہیں اگر ہمارے حکمران اور ارباب اختیار واقعی پاکستان میں پائیدار امن چاہتے ہیں تو انہیں ملک میں اسلحہ سازی اور اسلحے کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے فوری طور موثر قانون سازی کرنا ہو گی وگرنہ سرکاری اسلحے سے لیس سیکورٹی گارڈز کے قافلے کے ساتھ آمدو رفت اسی طرح اُن کی مجبوری بنی رہے گی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان صرف اُسی صورت میں امن کا گہوارہ بن سکتا ہے کہ اگر اسلام کے حقیقی پیغام امن کے فلسفے کو موثر طریقے سے لوگوں تک پہنچایا جائے، غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور پھیلانے والوں کو سخت اور عبرناک سزائیں دینے کے لئے فوری قانونی سازی کی جائے۔ یہ حقیقت ہم سب مسلمانوں کو غور و فکر کا پیغام دیتی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے آج کی دنیا میں غیر مسلم معاشرے تو امن و سکون کا گہوارہ اور خوشحالی کا استعارہ ہیں جبکہ مسلمان ملکوں میں بدامنی اور افراتفری عروج پر ہے۔ بیرونی دنیا میں آباد پاکستانی جب پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتے اور سوچتے ہیں کہ تین چار دہائیاں پہلے جب وہ اپنا ملک چھوڑ کر آئے تھے اس وقت کے حالات آج کے حالات سے بدرجہا بہتر تھے ملک میں امن و امان تھا اورعدم تحفظ کا احساس اتنا سنگین نہیں تھا جتنا کہ آج کل ہے۔ پاکستان کے معاشرتی اور معاشی مسائل اور مشکلات اتنی زیادہ نہیں تھیں جتنی اب ہیں
باغ اک ہم کو ملا تھا مگر اس کو افسوس
ہم نے جی بھر کے بگاڑا ہے سنوارا کم ہے
باصرکاظمی
فیس بک کمینٹ