جوش کے نغمے ’مورے جبنا کا دیکھو ابھار‘ کو حکومت وقت نے فحش قرار دے کر اسے آل انڈیا ریڈیو سے نشر کرنے پر پابندی لگا دی تھی
ہوا سے موتی برس رہے ہیں، فضا ترانے سنا رہی ہے
جگر جگر ہے تمام صحرا، کلی کلی جگمگا رہی ہے
آپ نے یہ نغمہ کہیں نہ کہیں ضرور سنا ہو گا لیکن شاید آپ یہ نہ جانتے ہوں کہ اس نغمے کا خالق وہ شخص ہے جسے دنیا شاعرِ انقلاب کے نام سے جانتی ہے۔
یہ نغمہ جوش ملیح آبادی نے مشہور فلم ’آگ کا دریا‘ کے لیے تحریر کیا تھا مگر جوش کی فلمی شاعری ان کی زندگی کا ایک ایسا باب ہے جس پر نہ ادبی ناقدین نے توجہ دی اور نہ خود جوش صاحب نے اسے اہم جانا۔
جوش صاحب نے اپنی شہرہ آفاق آپ بیتی ’یادوں کی بارات‘ میں ایک باب اپنے فلمی سفر کے بارے میں تحریر کیا ہے مگر اس باب کے مطالعے سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے قیام پاکستان سے قبل چند برس پونا میں ڈبلیو زیڈ احمد کے شالیمار سٹوڈیوز میں گزارے اور وہاں چند فلموں کے نغمات تحریر کیے جن میں ایک رات، غلامی، شہزادی (آوارہ) اور پرتھوی راج کے علاوہ شہرہ آفاق فلم ’من کی جیت‘ شامل تھی۔
اس فلم کی موسیقی ایس کے پال نے ترتیب دی تھی۔ اس فلم کے نغمات محفوظ ہیں تاہم دیگر فلموں کے نغمات کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ صرف قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جوش کے شعری مجموعوں عرش و فرش اور رامش و رنگ میں جو گیت شامل ہیں ان کا تعلق انھی گمنام فلموں سے ہے۔
من کی جیت میں سات نغمات شامل تھے جن میں سے چھ جوش صاحب کے اور ایک نغمہ (چھپ چھپ کر مت دیکھو) بھرت ویاس کا تحریر کردہ تھا۔ جوش صاحب کے تحریر کردہ نغمات ’من کی جیت‘ کی دستیاب فلمی کہانی میں موجود ہیں، جن کے مکھڑے کچھ یوں تھے۔
(1) من کاہے گھبرائے
(2) نگری مری کب تک یونہی برباد رہے گی
(3) مورے جبنا کا دیکھو ابھار
(4) پردیسی کیوں یاد آتا ہے
(5)اے چاند ترا اترانا
(6) اے چاند امیدوں کو مری شمع دکھادے
ان نغمات میں مورے جبنا کا دیکھو ابھار اپنی خوب صورت شاعری کے باعث بہت مقبول ہوا، مگر یہ وہی نغمہ ہے جسے حکومت وقت نے فحش قرار دے کر آل انڈیا ریڈیو سے نشر کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ بعض نقاد اس گیت کو موضوع کے اعتبار سے ایک اعلیٰ ادب پارہ مانتے ہیں۔
اس گیت میں جوش صاحب نے نہایت عمدہ تشبیہات استعمال کی تھیں، جن کا عکس جاوید اختر کے مشہور نغمے ’ایک لڑکی کو دیکھا تو ایسا لگا‘ (فلم: 1942اے لو سٹوری) میں دیکھا جاسکتا ہے۔
’من کی جیت‘ کا ایک اور نغمہ ’نگری مری کب تک یونہی برباد رہے گی ، دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی‘ فلم کی ہیروئن شاہدہ (نینا) نے گایا تھا۔ اس نغمے کا دوسرا مصرع جوش ملیح آبادی کا نہیں بلکہ یاس یگانہ چنگیزی کا تحریر کردہ تھا۔
اس گیت کی مقبولیت کے بعد یگانہ نے اس پر بہت احتجاج کیا جو صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔
دسمبر 1955 میں جوش بھارت کی سکونت ترک کر کے پاکستان آگئے۔یہاں بہت سے فلم سازوں نے ان سے اپنی فلموں کے لیے نغمات لکھنے کے لیے اصرار کیا مگر جوش صاحب پہلو بچاتے رہے مگر جب ان کے دیرینہ دوست ہمایوں مرزا نے اپنی فلم ’آگ کا دریا‘ کے لیے ان سے نغمات لکھنے کی فرمائش کی تو وہ اس فرمائش کو نہ ٹال سکے۔
’آگ کا دریا‘ کی بک لیٹ محفوظ ہے جس کے مطابق جوش صاحب نے اس فلم کے لیے آٹھ نغمات تحریر کیے تھے جو تمام کے تمام انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ ان نغمات میں سب سے زیادہ شہرت ’اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں‘ اور ’ہوا سے موتی برس رہے ہیں‘ نے حاصل کی۔
اس آخری نغمے (ہوا سے موتی برس رہے ہیں) پر انھیں بہترین نغمہ نگار کا نگار یوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔ آگ کا دریا کی موسیقی غلام نبی ،عبداللطیف نے ترتیب دی تھی۔
’آگ کا دریا‘ کے بعد جوش کے نغمے سے مزین جو فلم پردۂ سیمیں کی زینت بنی اس کا نام تھا ’قسم اس وقت کی‘۔ اس فلم کی موسیقی سہیل رعنا نے ترتیب دی تھی اور جوش صاحب کا جو نغمہ اس فلم کا ٹائٹل سانگ بنا اس کا پہلا مصرع تھا ’قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے‘۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جوش کے نغمے کایہ مکھڑا ان کی ایک نظم پیمانِ محکم میں شامل تھا۔ یہ نظم 1936ء میں شائع ہونے والے جوش کے شعری مجموعے ”شعلہ وشبنم ”کی پہلی نظم ہے اور اس نظم کا پہلا شعر ہے:
قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے
قسم اس سانس کی جو موت کے ہنگام چلتی ہے
’قسم اس وقت کی‘ 1969 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اس کے اگلے برس فلم ساز غلام ناصر خان اور ہدایت کار شور لکھنوی کی فلم ’چاند سورج‘ میں بھی جوش صاحب کا ایک نغمہ شامل کیا گیا۔ اس فلم کے موسیقار ناشاد تھے اور اس فلم میں جوش صاحب کا جو نغمہ شامل تھا اس کا مکھڑا تھا :
نظر ملا کر چلے گئے ہیں مگر تصور میں آ رہے ہیں
مری نگاہوں سے ہٹ گئے ہیں مگر امنگوں پہ چھا رہے ہیں
چاند سورج جوش صاحب کی زندگی میں بطور فلمی شاعر نمائش کے لیے پیش کی جانے والی ان کی آخری فلم تھی۔
مگر 2008 میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ’آزاد’ میں بھی جوش کی ایک مشہور نظم ’بول اکتارا‘ بطور فلمی نغمہ شامل کی گئی۔ جوش کی یہ نظم 1966 میں شائع ہونے والے ان کے شعری مجموعے ’الہام و افکار‘میں شامل ہے اور بقول ڈاکٹر ہلال نقوی کے یہ نظم جوش کے شعری سفر کے فکری اسلوب کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتی ہے۔
یہ نظم بھارت کے مشہور گلوکار جگجیت سنگھ نے بھی گائی ہے مگر آزاد کے لیے اس کی موسیقی عباس علی خان نے ترتیب دی اور نتاشا حمیرا نے اسے اپنی آواز سے سجایا۔
جوش صاحب اپنی فلمی شاعری کوکوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ 1966 میں انھوں نے فلمی نغمہ نگار اور صحافی یونس ہمدم کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’دراصل میں خود نہیں چاہتا تھا کہ فلموں کے لیے گیت لکھنے کے سلسلے کو جاری رکھوں کیوں کہ جو لوگ خالص ادب تخلیق کرتے ہیں انھیں بلندی سے پستی کی طرف آنا پڑتا ہے اور اس سفر کے دوران انھیں اپنے معیار کو برقرار رکھنا دشوار ہو جاتا ہے کیونکہ فلم کے دیکھنے والوں کی اکثریت عام طور پر نچلی سطح کی ذہنیت رکھتی ہے اور اس کی پسند پر ہی فلم کی کامیابی کا دارومدار ہوتا ہے۔‘
اسی انٹرویو میں جوش صاحب نے یہ بات بھی بتائی تھی کہ انھوں نے کبھی کوئی نغمہ موسیقی کو سامنے رکھ کر ترتیب نہیں دیا بلکہ ہمیشہ انھوں نے فلم کی سچوئیشن کے مطابق نغمات تحریر کیے اور اب یہ ان فلموں کے ہدایت کار اور موسیقار کی ذمہ داری تھی کہ وہ انھیں موسیقی کے قالب میں ڈھالیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )