ایک متشکک کی حیثیت سے میرا موقف مذہب اور الحاد کے بارے میں یکساں ہے۔ یعنی دونوں جتنا جانتے ہیں یا جان سکتے ہیں، اس سے زیادہ کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ممکن ہے کہ خدا وجود نہ رکھتا ہو۔ لیکن اس کے ناموجود ہونے کا کوئی قائل کردینے والا ثبوت نہیں۔ ممکن ہے کہ خدا وجود رکھتا ہو۔ لیکن اس کے موجود ہونے کے بھی قابل یقین ثبوت دستیاب نہیں۔ جنھیں ثبوت کہہ کر پیش کیا جاتا ہے، وہ محض دعوے ہیں، یعنی انسانوں کے بیانات۔ آپ کا جی چاہے تو مان لیں، نہ جی چاہے تو نہ مانیں۔
مذہب دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے۔ یہاں مکمل کا لفظ فالتو ہے۔ اس کے مقابلے پر نیشن اسٹیٹ یعنی قومی ریاست ضابطہ حیات اور ضروری قوانین فراہم کرتی ہے۔
مثلاً آپ چاہیں تو مولوی سے نکاح پڑھوائیں، نہ چاہیں تو نکاح کے بغیر عدالت سے میرج سرٹیفکیٹ لے لیں۔ بچہ پیدا ہو تو مرضی ہو تو کان میں اذان دیں، مرضی نہ ہو یا آپ مسلمان نہیں ہیں تو اذان مت دیں۔ ریاست بہرحال آپ کو برتھ سرٹیفکیٹ فراہم کردے گی۔ یہی صورت ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی ہے جو کسی قسم کی آخری رسومات کی شرط لگائے بغیر مل جاتا ہے۔
یہ سب اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ واضح ہو کہ الحاد یا تشکیک نامکمل یا مکمل ضابطہ حیات فراہم کرنے کے دعوے دار نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ تمام متشکک اور تمام ملحد ہر نکتے پر متفق ہیں۔ جس واحد نکتے پر ان کا یقینی اتفاق رائے ہے، وہ اختلاف رائے ہے۔
ایک متشکک کو خدا کے وجود پر شک ہوسکتا ہے۔ لیکن دوسرا اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ خدا کا وجود برحق معلوم ہوتا ہے البتہ وہ کائنات میں دخل نہیں دیتا۔ تیسرا کائنات میں دخل کو تسلیم کرسکتا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ الہام پر یقین نہ رکھتا ہو۔
خدا کے بارے میں بے یقین اور مذہب کی ضرورت پر سوال اٹھانے والے ہر زمانے میں تھے۔ لیکن پہلے ان کی تعداد کم ہوتی تھی یا وہ سوال اٹھانے کی جرات نہیں رکھتے تھے۔ اب ان کی جرات میں اضافہ ہوا ہے اور انھیں اظہار کے زیادہ مواقع بھی میسر آگئے ہیں۔
میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو سوچے سمجھے بغیر برسوں عبادات کرتے رہے۔ پھر ایک دن کسی کتاب، کسی سوشل میڈیا پوسٹ، کسی کافر کی گفتگو سے انھیں خیال آیا کہ یہ بات تو ان کے دل میں بھی آئی تھی۔ تب انھوں نے اسے توبہ توبہ کرکے جھٹک دیا تھا۔ جب کوئی ایک شخص توہین کے الزام، گستاخ ہونے کی بدنامی اور کفر کے فتوؤں کو خاطر میں لائے بغیر اپنی بات کرجاتا ہے تو دس اور لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے۔
نیاز فتح پوری، علی عباس جلالپوری، سبط حسن، سجاد ظہیر، جوش ملیح آبادی، جون ایلیا، مبارک حیدر، ان جیسوں کی جرات، تحریروں اور کتابوں نے بہت سے لوگوں کو حوصلہ دیا ہے۔ مستقبل میں اور بہت سے لوگ حوصلہ پائیں گے۔
میں مذہب کو نہیں، ملائیت کو برا سمجھتا ہوں جو صدیوں سے غلط روش پر قائم ہے۔ مذہب کم سمجھ لوگوں کو روحانی تسکین دیتا ہے اس لیے اسے بطور دوا ملتے رہنا چاہیے۔ یعنی نہ ایک خاص حد سے کم اور نہ زیادہ۔ لیکن ملا جب ناسمجھ لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور مذہب کی خوراک بڑھادیتا ہے تو سیاست، معیشت اور معاشرے کے دوسرے شعبے متاثر ہوتے ہیں۔ ملا کو کھلی چھوٹ ملنے سے ہی دہشت گردی جنم لیتی ہے۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ اچھے علمائے دین بھی ہوتے ہیں۔ وہ دنیا کی ترقی اور معاشرے کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں یا سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ ہر طرح کی سمجھ کے لوگوں میں ہم آہنگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ مذہب کو کاروبار کے بجائے بیمار معاشرے کے علاج کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہر مذہب اسی مقصد کی خاطر وجود میں آیا تھا۔
علمائے دین کو چاہیے کہ مذہب سے بیزار لوگوں سے برا رویہ ترک کریں۔ ان سے مناظرہ تو دور کی بات، کسی اور طرح بھی نہ الجھیں۔ عوام کے سامنے مذہب کا خوشگوار روپ پیش کریں۔ کسی معاملے میں سختی نہ برتیں۔ اپنی بات کہیں اور خاموش ہوجائیں۔ بات منوانے کی ضد چھوڑ دیں۔
مذہب ابتدائی عرصے میں اس لیے پھیلتا ہے کہ مبلغین کے پاس میٹھی زبان ہوتی ہے۔ لہجہ بدلتا جاتا ہے، مذہب کا دائرہ گھٹتا جاتا ہے۔ آج اپنے علما کی زبان دیکھ لیجیے۔ اس قدر سخت اور ترش کوئی شے حلق سے نہیں اترتی۔
وقت کے ساتھ عوام کا شعور بلند ہوتا جائے گا۔ سائنسی تعلیم اور تنقیدی سوچ بڑھتی جائے گی۔ مذہب کا اثر کم ہوتا جائے گا۔ اہل مذہب جن محاذوں پر شکست کھاچکے ہیں، وہاں مزید لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہتر ہوگا کہ معاشرے میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے سوچ بچار کریں اور ان معاملات تک محدود رہیں جہاں کسی دوسرے شعبے سے تصادم کا امکان نہ ہو۔
علمائے دین عوام کو اپنی اولاد سمجھ کر صرف اخلاقی تربیت پر توجہ دیں تو اکیسویں صدی میں بھی معجزے ہوسکتے ہیں۔ ورنہ میں ایک ایسے عالم دین سے واقف ہوں جن کا سگا بیٹا ملحد ہوگیا۔
فیس بک کمینٹ