خرم جاوید صاحب ہمارے بہترین دوست، انتہائی نفیس اور پیشہ ورانہ اعتبار سے اعلی تعلیم یافتہ ہیں ۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بڑے عرصے تک مارکیٹنگ کی شعبے سے وابستہ رہے اور آ ج کل بھی پاکستان کی ایک بڑی فوڈ کمپنی فوجی فوڈز میں مارکیٹنگ کے شعبے کے ڈائریکٹر ہیں وہ اور میں اکثر اوقات ملتے ہیں ۔ آ ج جب میں نے دوپہر کو ان سے اپنی اس ویک اینڈ ملاقات کی خواہش ظاہر کرنے کے لیے فون کیا تو وہ سفر کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں ڈیرہ غازی خان سے واپس آرہا ہوں وہ بہت پرجوش تھے ۔ وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب نے ایک سکیم شروع کی ہے جس میں پری سکول سے لے کر پانچویں کلاس تک کے بچوں کو صبح کے وقت دودھ مفت فراہم کیا جائے گا اور اس کا آ غاز ہم نے ڈیرہ غازی خان سے کیا ہے۔ جب اس سکیم کی مزید تفصیل پوچھی تو مجھے بہت ہی خوشی ہوئی کہ یہ بڑی ہی قابل ستائش اور قابل تعریف قدم ہے کیونکہ دودھ ایک بنیادی غذا ہے لیکن بدقسمتی سے قیمتوں میں اضافے اور جدید ٹیکنالوجی میں ملک کولیکشن سسٹم نے بہت سارے غریبوں کو اس سے محروم کر دیا ہے۔
جس وقت فریجوں کا آغاز ہوا تو میرے نانا اکثر فریج کو دیکھتے اس میں رکھے ہوئے سالن یا دودھ کو دیکھ کے تو سرد آ ہ بھر کے کہتے ہیں کہ اس فریج نے ہمیں بہت ساری نیکیاں کرنے سے محروم کر دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں دیہات میں بہت ساری بھینسیں ہوا کرتی تھیں تو دودھ وافر مقدار میں ہوتا تھا چونکہ فریج نہیں تھا دودھ کو محفوظ نہیں کیا جا سکتا تھا تو کچھ گھرانے اپنے استعمال کا دودھ استعمال کرتے اور باقی جاگ لگا کر اگلے دن اس کو دیسی طریقے بولتے اور مکھن نکالتے اور چھاچھ عام لوگوں کو پینے کے لیے دے دیتے اور اس میں مکھن نکل بھی جاتا تو بھی اور بہت سارا کیلشیم لوگوں کو مل جاتا ۔ کچھ نیک خواتین ایسی بھی ہوا کرتی تھی کہ جب وہ لسی یا چھاچھ بچوں کے برتنوں میں ڈالتیں تو ساتھ ایک چھوٹی چھوٹی مکھن کی گولیاں بنا کر بھی اکثر بیچ میں ڈال دیا کرتیں ۔ یہ بڑا خوبصورت عمل تھا اور باقی جو زمیندار گھرانے یا متوسط طبقے کے لوگ اکثر اوقات اپنے گھر میں کام کرنے والی خواتین اپنے مزاعوں اور دیگر لوگوں کو دودھ لازمی دیتے یہ سمجھ کر کہ دودھ ایک نعمت خداوندی ہے اور مخلوق خدا کو محروم نہ رکھیں۔
کچھ علاقوں میں دودھ کو نور پیر بھی کہتے ہیں کہ دودھ جو ہے وہ نور ہے اور اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے ایک روایت بڑے عرصے تک رہی کہ دیہات میں کچھ لوگ دودھ کو بیچتے بھی نہیں تھے مقصد یہ تھا کہ ایک غریب لوگوں کی پہنچ میں دودھ کی نعمت دستیاب تھی مگر وقت گزرتا گیا دودھ کی مارکیٹنگ کمپنیاں آئیں ماڈرن ڈیریز لگنے لگی اور اب دودھ دیہات سے خریدا جانے لگ گیا ۔ نئی ڈیری فارمنگ ہوئی لوگوں نے بھینسیں کمرشل بنیادوں پر رکھیں اور وہ دودھ جو لوگوں کو دیا جاتا تھا اب ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ملک کو لیکشن سنٹر پر اکٹھا ہوتا ہے جدید چلرز آگئے ہیں ان کے ذریعے دودھ پروسیسنگ کے بعد ڈبوں میں ڈال کر اب وہ پینے کے لیے بیچ دیا جاتا ہے اور عام آ دمی کی پہنچ سے وہ جو مفت دودھ کی سہولت تھی وہ ختم ہو گئی ہے
اس سکیم کے بعد بہرحال میں یہ دیکھ سکتا ہوں کہ وہ بچے جو اکثر اوقات دودھ سے صبح کے ناشتے اور غذائیت سے محروم ہوتے ہیں کم از کم انہیں دودھ پینے کے لئے مل جائیگا ماضی میں اکثر اوقات جب بچہ سکول میں آ یا کرتا تھا سکول کے ماسٹر وں کو اکثر پتہ ہوتا تھا کہ کون سا بچہ کس گھرانے کا ہے اس کی مالی حالت کیسی ہے وہ اکثر اس سے پوچھا کرتے تھے اس کا نام لے کر اوئے تو نے ناشتہ کیا ہے کہ نہیں کیا تو اکثر اوقات وہ بچہ کہتا ہے استاد جی میں نے دودھ کے علاوہ کچھ نہیں پیا کہ کھانے کو کچھ تھا ہی نہیں شاید گھر پہ یا وجہ یہ ہوتی کہ شاید والدہ بیمار تھی بہرحال مقصد یہ تھا کہ دودھ ایک بنیادی غذا کے طور پر عام اور غریب لوگوں کی زندگی میں موجود تھا لیکن موجودہ ڈیری سسٹم کی موجودگی نے اس کو اس سہولت سے محروم کر دیا تھا اکثر لوگ اس بات کی شاید مخالفت بھی کریں گے تنقید بھی کریں گے مذاق بھی اڑایا جائے گا لیکن میں یہ دیکھتا ہوں کہ مریم نواز شریف صاحبہ ایک ماں ہیں اور ماں کی حیثیت سے شاید انہیں اس بات کا خیال ا گیا ہوگا کہ کم از کم بچوں کو دودھ کی نعمت ضرور ملنی چاہیے ۔
فیس بک کمینٹ