غیر فطری اتحادوں کا بالکل یہی نتیجہ ہوتا ہے۔نظریاتی بعد کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تو خیر کی توقع عبث ہوتی ہے،یہ خود کو اور اپنے کارکنوں کو فریب دینے کے مترادف ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیاسی کارکنوں کے لئے کوئی تربیتی ادارہ نہیں ہے اور ناں ہی ان کی نظریاتی پرورش و پرداخت کا کوئی سامان اور ناں سیاستدانوں کو اس عمل سے کوئی سروکار۔دینی سیاسی جماعتیں اندھے مقلد پیدا کرتی ہیں اور خالص سیاسی جماعتیں کرائے کے سر فروش تیار کرتی ہیں۔
گزرے زمانوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ”سٹڈی سرکل“ ونگ ہوا کرتے تھے،جن کے ذریعے نوجوانوں کی نظریاتی تعلیم تربیت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔فخرزمان،فرخ سہیل گوئندی،چوہدری منظور،کوثر سعید مرزا،حبیب اللہ شاکر اور دیگر کئی مقامی و مرکزی رہنما تھے جو لیکچرز کے ذریعے نوجوان طلبا کی ذہن سازی کرتے تھے۔وہ ”سٹڈی سرکل“ پی پی پی کے نظریاتی قلعے ہواکرتے تھے،جنہوں نے عدیل سید،قلندر گردیزی (ملتان)اور ان جیسے ہزاروں ایسے نوجوان پیدا کئے جنہوں نے ضیاء آمریت میں جوانیاں گنوا دیں،انہی کی قربانی سے آج بھی بھٹو زندہ ہے مگر سٹڈی سرکلز کے نہ ہونے کی وجہ سے پی پی پی ایک صوبے تک سمٹ کر رہ گئی۔
پی ڈی ایم کیا ہے؟ بھان متی کا کنبہ ! ایک ایسا بے بنیاد سیاسی گٹھ جوڑ،جو قوم کے اجتماعی لاشعور پر بے بسی کے کوڑے برسا رہا ہے۔جس میں شامل بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے،جدید دور کے سیاسی فلسفوں سے نابلدرہنما،جو افراط و تفریط کے میدان میں عوام کو گیند سمجھ کر ادھر ادھر پٹخنے میں مصروف ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بغض وعناد ہی نہیں غیظ و غضب کی سیاست پر اترے ہوئے ہیں۔خادم اعلیٰ شہباز شریف کا ایجنڈا فقط سیاسی مفاہمت ہی نہیں،پاسداروں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا بھی ہے،ان کا فرزند حمزہ شہباز جس نے پس زنداں رہ کر بہت کچھ سیکھا،جس کے نتیجے میں اس نے پنجاب حکومت کو مضمحل قویٰ کی انتہا تک پہنچ کر خود ہی تختہ ہوجانے کا موقر ایجنڈا پیش کیا۔عجلت پسند مریم نواز اقتدار،اقتدار کے ورد میں ایسی ڈوبی ہوئی ہیں کہ اس سے آگے کے حا لات دیکھ ہی نہیں رہیں،وہ ایک جست میں وزارتِ عظمیٰ کا سنگھاسن جھپٹ کر کپتان کو دارورسن کا سزاوار ٹھہرانے کے خبط میں مبتلا ہیں۔
مولانا جنہوں نے اپنی احتجاجی تحریک ”آزادی مارچ“ کا آغاز 2019ء کی آخری سہ ماہی میں کیا تھا اور اپنے آزادی مارچ کے لئے جب سکھر پہنچے تو پنجاب میں داخل ہونے سے پہلے ہی طبل جنگ بجنے کا عندیہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ”انسانی سیلاب حکومت کو بہا لے جائے گا“ 2021ء تک پہنچتے پہنچتے حکومت تو انسانی سیلاب کے بہاؤ سے بچ گئی،مگر مولانا کا آزادی مارچ خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی،اسی طرح پی ڈی ایم بھی حکومت کو پٹخنے سے پہلے اوندھے منہ گر گئی،اب اس کے بھی بکھرے وجود کے ٹکڑے مولانا کو چننے ہیں کہ زرداری صاحب اپنابیانیہ واضح کرچکے،نواز شریف جسمانی سزا کو سیاسی موت پر ترجیح دیتے ہوئے عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اپنی بھر پور موجودگی کا احساس اس وقت شدید غصے کی حالت میں دلاتے ہیں جب ان کے کانوں میں یہ بھنک پڑتی ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمتی کشتی کنارے لگنے کو ہے۔
پی ڈی ایم کی لٹیا مریم بی بی نے ڈبو دی ہے،جن امکانات کی امید تھی وہ بھی معدوم ہوئے۔مولانا پے در پے شکستوں کی ہزیمت سے گھبرا چکے ہیں،تبھی تو اجلاس چھوڑ کر چلے جاتے ہیں،بہر حال ایک امید کا دامن انہوں نے ابھی بھی پکڑا ہوا ہے،مگر اس کے سہارے کب تک ڈوبی ہوئی کشتی کو کنارے لا کھڑا کر سکتے ہیں،اور سابق صدر آصف علی زرداری مسلم لیگ ن پر کیونکر اعتماد کر سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی جماعت کے ایک معتبر اسمبلی ممبر سابق وزیر خارجہ بھی تو اکثر و بیش تر زرداری صاحب پر بد اعتمادی کا بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ لاابالی بلاول زرداری اور مستقبل کے سیاسی حالات سے بے خبر و بے فکر مریم نواز اپنے اپنے خواب کی تعبیر کی خاطر نظریاتی بعدالمشرقین کے باوجود سیاسی سراسیمگی پھیلانے پر مصر رہتے ہیں۔وہ پاسداروں کے دستِ شفقت کی آرزو
بھی رکھتے ہیں،مگر پاسداروں کو جو مطلوب ہے وہ آسانی سے حاصل ہے۔عمران خان کرونا کی جنگ جیت گئے تو نئے عزم،حوصلے اور ضدی پن کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں گے کہ انہیں بھی عوام کی فکر نہیں اپنی کرسی کا طمع اور لالچ ہے،اقتدار کی چاٹ نے اور تو اور انہیں عدل وانصاف کے بول بالا کا نعرہ بھی بھلادیا ہے اور ان کی جماعت پر ایسا وقت آن پڑا ہے کہ اپنے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔یہ سب وہی تو ہیں جو پی ٹی آئی سے نکلیں گے تو ق لیگ کی گود ہری ہوگی کہ ن لیگ پر ابھی اور پہاڑ ٹوٹنے باقی ہیں۔۔۔!!!
فیس بک کمینٹ