جب اسرائیل نے حماس کے خلاف اپنی جنگ کا آغاز کیا تو سب کو معلوم تھا کہ اس جنگ کا دورانیہ کافی طویل ہو گا ۔یہ جنگ کب تک چلے گی اس کا اندازہ خود اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو بھی نہیں تھا ۔اسرائیل کی قیادت کے عزائم کچھ بھی ہوں مگر ان کو اس جنگ کے مقاصد کا بالکل اندازہ نہیں ۔اگر مقصد حماس کا خاتمہ ہی ہے تو ایسا جنگ سے نہیں ہو سکتا ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اسرائیل ایک ایسا بفرزون قائم کرنا چاہتا ہے جو اسرائیل کو غزہ کی آ بادی سے علیحدہ کر دے۔
یہ سب باتیں ایک طرف سوال یہی ہے کہ غزہ کی جنگ کب تک جاری رہے گی اور اس کا جواب اسرائیل میں کسی کے پاس نہیں ۔کیا غزہ میں جنگ سے اسرائیل مطلوبہ اہداف حاصل کر سکے گا کیا جنگ اسرائیل کے مسائل کا حل ہو سکتی ہے ایسا بالکل نہیں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ فلسطین ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا سیاسی حل ہی مستحکم امن کی ضمانت دے سکتا ہے ۔یہ بات بھی سمجھنا ہو گی کہ اسرائیل کے بیان کردہ جنگی اہداف یعنی حماس کا خاتمہ اور غزہ میں بفرزون کا خاتمہ بھی جنگ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور یہی بات باعث تشویش ہے کہ جنگ کے خاتمے کا دور دور تک امکان دکھائی نہیں دے رہا ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ماضی میں اسرائیل کی جنگیں کیسے ختم ہوئیں ۔
جب نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین پر برطانوی حکومت کے خاتمے کے بعد دو ریاستی حل کی قرارداد پاس کی تو برطانیہ نے فلسطین کو لاوارث چھوڑ دیا اور ایک سول جنگ کا آغاز ہوا سیہونی ملائیشیا نے فلسطینی عربوں پر حملے شروع کر دیئے اور ایک اندازے کے مطابق 7 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں نے نقل مکانی کی ۔یہ جنگ اس وقت ختم ہوئی جب اسرائیل کے رہنماؤں کو اندازہ ہوا کہ برطانوی فوج مداخلت کر سکتی ہے
1956ء میں جمال عبد الناصر نے سوویت یونین سے اسلحے کے معاہدے کے بعد نہر سوئیز کو قومی تحویل میں لیا تو اسرائیل کی فوج فرانس اور برطانیہ کی حمایت سے مصر میں داخل ہو گئ ۔اس جنگ میں بھی اسرائیل کی فوج اس وقت پیچھے ہٹی جب امریکی صدر آئزن ہاور نے اسرائیل کو براہ راست دھمکی دی ۔
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی اسرائیل نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے جنگ بندی کے احکامات پر کان نہیں دھرے ۔یہ جنگ اس وقت ختم ہوئی جب امریکہ نے اسرائیل کے وزیر دفاع موشے دایان پر براہ راست دباؤ ڈالا ۔
اسی طرح 1973ء میں بھی اسرائیل نے مصر کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا اور یہ جنگ بھی امریکی صدر رچرڈ نکسن کی مداخلت پر ختم ہوئی۔
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسرائیل نے جب بھی جنگ شروع کی تو اس کے جنگی اہداف واضح نہیں ہوتے بلکہ مقصد قتل و غارتگری کے علاؤہ کچھ نہیں ہوتا۔ اسرائیل کی قیادت اپنی عوام کے آگے یہ کہہ کر سرخرو ہو جاتی ہے کہ اگر امریکہ نہ روکتا تو ہم اپنے اہداف حاصل کر لیتے۔ درحقیقت اسرائیل کے اہداف سیاسی بیان بازی کے علاؤہ کچھ نہیں ہوتے اس بات کو بھی سمجھنا ہو گا کہ اسرائیل کو امریکہ کا خوف ہر گز نہیں کہ امریکہ کے کہنے پر جنگ بندی ہو بلکہ امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کے اصرار کی تو قعات اسرائیل کی پالیسی کا حصہ ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غزہ کی لڑائی پر بائڈن انتظامیہ کیوں اصرار نہیں کرتی۔ اس سال جوبائڈن کو انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ سے شدید مقابلے کا سامنا ہے اور بائڈن کو دیکھنا ہے کہ وہ اسرائیل کو جنگ جاری رکھنے کی اجازت دے اور انسانی جانوں کا نقصان ہوتا رہے یا جنگ روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ میں مزید اِضافہ کرے ۔امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم مل ہی جائے گا بس جوبائڈن کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ یا الیکشن میں نقصان اٹھائیں یا غزہ میں انسانی جانوں کے نقصان پر آنکھیں بند رکھیں ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر الیکشن سے پہلے کوئی بڑا فیصلہ کر ہی نہ پائیں اور یہ یقیناً ایک انسانی المیہ ہو گا ۔
فیس بک کمینٹ