سپریم کورٹ آف پاکستان نے 6مارچ کو بالآخرسجدہ سہو کرتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو ان کے خلاف مقدمہ قتل میں فری ٹرائل کا حق نہیں دیاگیا ( یعنی انہیں انصاف نہیں ملا ) فیصلے کے بعد سے یہ بات زیربحث ہے کہ کیا عدالت عظمی کی جانب سے اس اعتراف کے بعد اس نقصان کی تلافی ہوجائے گی جو کم وبیش 45برس قبل بھٹو صاحب کی پھانسی کے نتیجے میں اس ملک کے حصے میں آیا۔اور کیا اس اس عدالتی قتل کے ذمہ داروں کو ہمیشہ کے لیے معاف کر دیا گیا ہے ؟ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ فیصلہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو قتل کرنے کے بعد یہ اعلان کردیا جائے کہ معاف کیجئے ہم سے غلطی ہوگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بے گناہ قرار دیئے جانے کے بعد یہ ان کی پہلی برسی ہے ۔ گویا ہمیں اس تاریخ کی سمت درست کرنے میں 45 برس لگ گئے ۔ آج کا دن مجھے 1977کے ان لمحات میں لے گیا جب میں ساتویں جماعت کاطالب علم تھا۔ اورآج جب میں بھٹو صاحب کے حوالے سے اپنے بچپن اورلڑکپن کی یادوں کوترتیب دے رہا ہوں تو مجھے یاد آرہاہے کہ 1977ءمیں مارچ کی 7 تاریخ کوپاکستان میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے تھے اوراس کے بعد پاکستان نیشنل الائنس(پی این اے جو پاکستان قومی اتحاد کے نام سے جانا جاتاتھا)نے دھاندلی کے الزامات لگا کر نظام مصطفی کے نفاذ کے نام پر وہ تحریک شروع کی جس کے نتیجے میں 5جولائی 1977ءکو مارشل لاءنافذ ہوا اور پھر بھٹو صاحب کو قتل کے مقدمے میں گرفتارکرکے تختہ دار پرلٹکا دیاگیا۔
ذوالفقارعلی بھٹوسے میرا پہلا تعارف فروری 1974ءکی اسلامی سربراہ کانفرنس کے دوران ہوا جب عالم اسلام کے تمام سربراہ لاہور میں جمع ہوئے۔ وہ ٹیلی ویژن کازمانہ نہیں تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھرمیں ریڈیو پر اس کانفرنس کا آنکھوں دیکھا حال سناجاتاتھا۔ ملتان میں ہمارا گھر اس سڑک پر واقع تھا جو ایئرپورٹ سے ”وائٹ ہاو ¿س“ کی جانب جاتی تھی(وائٹ ہاو ¿س سابق وزیراعلی پنجاب نواب صادق حسین قریشی کی رہائش گاہ تھی۔ یہ رہائش گاہ پرانا شجاع آباد روڈ پراب بھی موجودہے۔یہی وہ جگہ ہے جہاں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کاخواب دیکھا گیا اوریہی وہ گھر ہے جہاں بعض روایات کے مطابق جنرل ضیاءالحق نے بھٹو صاحب کی موجودگی میں جلتاہوا سگریٹ اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال لیاتھا)۔ بھٹو صاحب جب بھی ملتان آتے ان کا اسی رہائش گاہ میں قیام ہوتاتھا۔ایئرپورٹ سے وائٹ ہاو ¿س کا راستہ ہمارے گھر کے قریب سے گزرتاتھا۔ جس روز صبح سویرے سڑک کے دونوں جانب پولیس کے سپاہی ڈیوٹی پردکھائی دیتے تھے ہمیں معلوم ہوجاتاتھا کہ آج بھٹو صاحب نے ملتان آنا ہے۔ وزیراعظم کے لیے اس زمانے میں سکیورٹی کے بس اتنے ہی انتظامات ہوتے تھے۔ پھرجب سائرن کی آوازسنائی دیتی تو ہمیں خبر ہوجاتی تھی کہ بھٹو صاحب کی سواری اب آنے ہی والی ہے۔ ان کی آمد سے پہلے سڑک کے دونوں جانب لوگ جمع ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ ایک روز میں بھی یہ منظر دیکھنے کے لیے اس ہجوم میں شامل ہواتھا۔ شاید میں اپنے گھر میں کھیل رہاتھا کہ سائرن کی آواز سنائی دی اور میں ننگے پاو ¿ں بھاگتاہوا چند گز کے فاصلے پر اس
سڑک پر پہنچ گیا جس کی جانب باقی لوگ بھی بھاگتے جارہے تھے(یہ زندگی کاپہلا اورآخری موقع تھا جب میں ننگے پاو ¿ں گھر سے نکلا)۔
پہلے سفید وردیوں میں ملبوس موٹرسائیکل سوارٹریفک سارجنٹس گزرے۔ چار چار،پانچ پانچ کی ترتیب میں یہ موٹرسائیکل سوار سائرن بجاتے تیزی سے جارہے تھے۔تالیاں ان کی آمد پر ہی بجنا شروع ہوگئیں پھرایک دوگاڑیاں گزریں اور اس کے پیچھے ایک کھلی جیپ تھی جس میں بھٹو صاحب سفید سفاری سوٹ میں پی کیپ پہنے ہو ئے موجودتھے۔ وہ اس کھلی جیپ میں کھڑے ہو کر ہاتھ ہلا رہے تھے اور لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہے تھے جیسے 10اپریل 1986ءمیں بے نظیر بھٹو وطن واپسی پر استقبالیہ ہجوم کے نعروں کاجواب دے رہی تھیں۔ بھٹو صاحب نے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہماری جانب دیکھا تو مجھ سمیت وہاں موجود ہرشخص یہی سمجھ رہاتھا کہ بھٹو صاحب نے اس کی جانب ہی دیکھاہے اورہماری یہی کیفیت بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پربھی تھی۔
بھٹو صاحب کی وہی ایک جھلک ہمیشہ کے لیے ہمارے ذہن میں نقش ہوگئی۔ پھرمارشل لاء لگا۔انہیں گرفتار کیاگیا،ان پر مقدمہ چلا،عدالتوں کے فیصلے ہوئے۔اس دوران ہم سکول پہنچ چکے تھے اور بھٹو صاحب ہماری پہلی محبت بن چکے تھے۔ مارچ اپریل کامہینہ امتحانات کا مہینہ ہوتاہے۔ 1977ءمیں تو احتجاجی تحریک کے نتیجے میں سکول بند ہوگئے تھے اور پھر تمام بچوں کو امتحان لیے بغیر پچھلی کارکردگی کی بنیاد پر اگلی کلاسوں میں بھیج دیاگیاتھا۔ لیکن 1979ء میں ایسا ممکن نہیں تھاکہ اب ہمارے سالانہ امتحان ہورہے تھے۔ہم رات بھر امتحان کی تیاری کرتے تھے اور اگلی صبح کمرہ امتحان میں پہنچ جاتے تھے۔ 4اپریل کو ہمارا بائیولوجی کاپرچہ تھا۔اس پرچے کا وقت دوپہر کے بعد تھا۔ جیسے آج نئی نسل اور پرانی نسل کی سوچ مختلف ہے اسی طرح ہمارے زمانے میں بھی یہی جنریش گیپ ہوتاتھا۔ میرے دادا اپنے مذہبی رجحانات کی وجہ سے بھٹو کے مخالف تھے۔بھٹو صاحب کی پھانسی کی خبر پہلی بار11بجے صبح ریڈیو پاکستان سے نشرہوئی تھی۔ میں امتحان کی تیاری میں مصروف تھا لیکن میرے دادا حسب عادت ریڈیو سے خبریں سن رہے تھے۔ میں 12بجے کے بعد سکول جانے کی تیاری کررہاتھا کہ میرے دادا مسکراتے ہوئے مجھے سے مخاطب ہوئے ”تمہارے بھٹو کو پھانسی ہوگئی ہے“۔
”ابھی اسے نہیں بتانا تھا،کچھ دیر صبر کرلیتے۔یہ پرچہ تو دے آتا“
میری دادی اماں دادا سے مخاطب ہوئیں۔
اس کے بعد کیا ہوا میرا ذہن کچھ سمجھنے سے قاصرتھا۔میں گھر سے تیزی کے ساتھ سکول کی جانب روانہ ہوگیا۔ امتحانی پرچہ میرے سامنے تھا اور ذہن میں بھٹو کے سواءکچھ بھی نہیں تھا۔ رزلٹ آیا تو مجھے بیالوجی کے پرچے میں 33نمبر دے کر پاس کردیاگیاتھا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد انہیں جس طرح کڑے محاصرے میں سپردخاک کیاگیایہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن کسے معلوم تھاکہ جس کے جنازے میں چند لوگوں کوہی شرکت کی اجازت ملی اسے جب گڑھی خدابخش میں سپردخاک کیاجائے گا تولاڑکانہ کایہ دور افتادہ گاؤ ں آنے والے دنوں میں سیکڑوں ہزاروں افراد کی توجہ کامرکز بن جائے گا۔
3اپریل 2011ء وہ دن تھا جب میں بھٹو صاحب کو سلام پیش کرنے گڑھی خدا بخش پہنچا۔ وہی بھٹو صاحب جنہوں نے میری جانب دیکھ کر ہاتھ لہرایا تھا۔میں نے ان کی آخری آرام گاہ پر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اورسلام عقیدت ان کی نذر کردیا۔ سلام کے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ کیجئے۔
اے میرے قائد اے میرے رہبر، اے قابلِ احترام مرشد
میں ا رضِ ملتاں سے لے کے آیا ترے لیے یہ سلام مرشد
گلاب مصلوب کرنے والوں نے مجھ کو رونے نہیں دیاتھا
سو میں یہاں نذر کرنے آیاہوں اشک اپنے تمام مرشد
جہاں پہ انصاف تیرے سینے میں کل ترازو کیاگیاتھا
وہیں پہ مسند نشیں ہیں اب بھی کسی کے ازلی غلام مرشد
بجھانے والوں کو کیا خبر تھی تجھے بجھانا نہیں ہے ممکن
منانے والوں کوعلم کیاتھا ملے گا تجھ کو دوام مرشد
تمام خلقت نے تیرے افکار کو عقیدہ بنا لیا ہے
تو کربلا کا اک استعارہ ہے تو ہی سب کا امام مرشد