پنجاب کے تھانوں اور جیلوں میں تشدد کے کئی طریقے ہیں جن میں سے ایک طریقے میں ”چھتر“ استعمال کیاجاتا ہے۔ اورکسی بھی ملزم کومجرم بنانے کے لئے ”چھتر“کے استعمال کو”چھترول“کہا جاتا ہے۔ چھتر کی مختلف اقبسام ہیں آوروں سا چھتر استعمال ہونا کے اس کا تعین تھانے کے ایس ایچ او یا جیل کے سپریٹنڈنٹ کی ذہنیت کے تابع ہوتا ہے۔ اگرجیل سپریٹنڈنٹ یا تھانیدار زیادہ ظالم ہوگا تو وہ ٹیوب ویل کے پٹے سے بنا ہوا چھتر استعمال کرے گا جبکہ ”رحمدل“تھانےدار یا جیل سپریٹنڈنٹ چمڑے کے جوتے کے تلے کی طرح کا چھتر استعمال کرے گا۔ جو چمڑے کی کئی تہوں کو گانٹھ کر اور پکڑنے کے لئے کسی بھی قسم کا ہینڈل لگا کر بنایا جاتاہے جبکہ ٹیوب ویل کا پٹہ زیادہ تکلیف دہ چھتر ہے۔ معاشرے میں جیسے جیسے انسانیت کی تذلیل بڑھتی گئی ہے۔ جیلوں اور تھانوں میں چھتر کا استعمال بھی بڑھتا گیا اوراب پنجاب اور سندھ کے تھانوں میں چھتر کااستعمال ملزم پر تشدد کی ابتدائی کاروائی شمار کی جاتی ہے بلکہ یوں کہیے کہ معمول کی بات ہے۔ فلموں میں تو ہم نے چھتر دیکھے تھے لیکن حقیقی چھتر دیکھنے کااتفاق کئی سال قبل اس وقت ہوا جب نیوسنٹرل جیل ملتان میں سپریٹنڈنٹ عبدالستار عاجز کے دور میں جیل کے اندر سپریٹنڈنٹ کے رویہ کے خلاف قیدیوں نے ہنگامہ کیا جس کے نتیجے میں پولیس طلب کی گئی اورنتیجتاً کئی قیدی ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ اعلی حکام نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملتان کوتحقیقات کاحکم دیا۔ ڈسٹرکٹ جج جب سنٹرل جیل ملتان تحقیقات کے لئے جاتے تو صحافی بھی ساتھ ہوتے تھے۔ وہاں ایک قیدی بیرک میں کراہ رہا تھا۔ میں اس کے قریب گیا۔ وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ جن قیدیوں نے ہنگامے میں حصہ لیا ہے انہیں روزانہ چھتر مارے جارہے ہیں۔ قیدی نے بتایا کہ چھتر ٹیوب ویل کے لئے بنائے گئے کمرے کے اوپرچھت پر پڑے ہیں۔ میرے ساتھی فوٹو گرافر نجیب اللہ مرحوم نے چھت سے چمڑے اور ٹیوب ویل کے پٹے کے چھتر اتارے اور تصویر بنائی جواگلے روز نوائے وقت میں شائع ہوگئی۔ لیکن ساتھ ہی صحافیوں کے جیل میں داخلے پر پابندی بھی لگ گئی۔ آج جب اخبارات میں وزیرمملکت عابد شیر علی کا یہ بیان پڑھا کہ نیب شرجیل میمن کی ”چھترول“کرے گی تو وہ سب کچھ اگل دے گا تو کئی سال قبل نیوسنٹرل جیل میں جو چھتر دیکھے تھے وہ آنکھوں کے آگے گھوم گئے اوریہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جب حکومت کاایک وزیر چھترول کو جائز اور قانونی سمجھتا ہے تو پھرجیل حکام اور تھانیداروں کوچھتر کے استعمال پر ہم کیسے ظالم کہہ سکتے ہیں۔ جب ایسے حکومتی عہدیداروں کی پولیس اورجیل حکام کو سرپرستی حال ہوگی تو عوام کو بہیمانہ تشدد سے کون بچاسکتا ہے۔ وزیرمملکت نے شاید چھترول دیکھا نہیں ورنہ وہ چھترول کاکبھی ذکر نہ کرتے۔ کیونکہ وزیر کی چھترول کے بعد تو چھترول قانونی حیثیت اختیارکرجاتی۔ اورمنہ میں سونے کاچمچ لے کر پیدا ہونے والے وزیرمملکت تو صرف چھتر کا نام سن کر ہی اپنے محکمے کی تمام کرپشن کی روداد ریکارڈ کروادیتے۔ باری تعالی نے وزیرموصوف کو عہدے سے نوازا ہے۔ ان کے والد گرامی بھی پارلیمنٹیرین ہی تھے۔انہیں رشتہ داروں سے انتقام لینے کی خاطر کرپشن اگلوانے کے لیے چھترول کو جائز قرارنہیں دینا چاہیے کیونکہ چھترول غیرقانونی حربہ ہے۔ اور مہذب دنیا میں تشدد کو بھی جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ جیلوں اورتھانوں میں انسان کی انا کو مجروح کرنے کے لیے چھترول کی جاتی ہے۔ اور خصوصاً تھانوں میں رشوت کی رقم بڑھانے کے لیے چھترول کی جاتی ہے۔ اگروزیرمملکت نیب کو چھترول کرنے کا کہیں گے تو ظاہر ہے غیرقانونی حرکت کرنے کا تو نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح وزیرمملکت کی فرمائش پر کی گئی چھترول قانونی حیثیت اختیارکرجائے گی اورقوم بھی پارلیمنٹیرینز کی چھترول کامطالبہ کرنے میں حق بجانب ہو گی – میری وزیرموصوف سے درخواست ہے کہ ایسا وقت نہ آنے دیں اور ایسے وقت سے بچیں۔کوشش توضرورکریں۔ ہم تو ان کی چھترول نہیں چاہتے۔
فیس بک کمینٹ