پیپلزپارٹی اپنے گڑھ لاڑکانہ میں18ماہ کے دوران دوسری بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار گئی،جی ڈی اے تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مشترکہ امیدوار معظم عباسی نے بلاول ہاؤ س کراچی میں برسوں سے ملازمت کرنے والے جمیل سومرو کو پانچ ہزار ووٹوں سے ہرادیا۔انتخابی نتیجہ کے حوالے ایک رپورٹ کے مطابق پی پی پی مخالف اتحاد کے امیدوار نے دوہزاراٹھارہ کے انتخابات میں لئے گئے ووٹوں سے700ووٹ کم لیئے جبکہ پی پی نے اٹھارہ میں22ہزار ووٹ لیئے تھے جمعرات کے ضمنی انتخاب میں26ہزارووٹ لیئے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں کہ
”جیتنے والے امیدوار کو جی ڈی اے ،پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کے ساتھ رینجرزکی حمایت بھی حاصل تھی”۔
سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس11کے انتخابی نتائج اتنے سادہ ہرگز نہیں،ممکن ہے کہ دھاندلی کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی شکایات میں کچھ وزن ہو لیکن دھاندلی سے زیادہ مقامی سیاست کی دھڑے بندیوں کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اس نشست سے اٹھارہ کے قومی انتخابات میں بھی اسی اتحاد اور پی ٹی آئی وجے یو آئی کا مشترکہ امیدوار جیتا تھا پھر انتخابی نتائج کا لعدم قرار پائے اور جمعرات کو ضمنی انتخابات ہوئے ، پیپلز پارٹی اس لئے ہاری کہ اس نے پچھلی بارکی ہار سے سبق سیکھنے کی بجائے وہی آقا وغلام والا رویہ اپنایا۔
بلاول میاں،بلاول ہاؤ س کراچی میں اپنے خدمت گار جمیل سومرو کو بطور امیدوار لے آئے،پی پی پی کی مقامی قیادت اور سنجیدہ حلقے اس فیصلہ پر نا خوش تھے۔ بلاول بھٹو سمیت کسی نے بھی مقامی دھڑے بندیوں اور خود پارٹی کے اندر ہوئی توڑپھوڑ کے ساتھ مقامی نوعیت کی شکایات پر توجہ نہ دی بلکہ شہید بے نظیر بھٹو کے نام کی مالائیں ہی جپی جاتی رہیں،اب بھی پیپلزپارٹی اپنی شکایات اور تحفظات کا رونا رونے کی بجائے18ماہ کے دوران ایک ہی حلقہ میں دوسری بار ملی شکست کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرے اور سوچے کہ جس سترہ جماعتی اتحاد کے امیدوار کو حیدرآباد میں اٹھارہ ہزار ووٹ ملتے ہیں
اس اتحاد کے لاڑکانہ سے امیدوارنے 18ماہ میں دوسری بار اسے شکست دے دی،
پیپلزپارٹی کی شکست پر زرداری اینڈ کمپنی کی شکست کا باجا بجانے والے انصافی تو اس حلقہ میں صرف جمعہ جنج نال والے معاملے کی طرح ہی ہیں شکست میں دونوں بار اصل کردار جے یو آئی(ف) کا رہا جو سیاسی طور پر لاڑکانہ سمیت اندرون سندھ کی ایک منظم قوت ہے۔بلاول بھٹو اور ان کی جماعت دھاندلی کو واحد ایشو قرار دینے کی بجائے پارٹی کے اندر ہوئی ہلکی پھلکی بغاوتوں کا بھی جائزہ لیں تاکہ انہیں پورا سچ برداشت کرنے کا حوصلہ ہو۔
بالآخر ہفتہ دس دن بعد پنجاب کے معصوم وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو خیال آہی گیا کہ صوبہ میں ڈاکٹروں کی ہڑتال سے ہسپتالوں کا نظام درہم برہم ہے اورمریض دربدر ہوئے ذلتوں سے دوچار ہیں ، اس لئے انہوں نے فرمایا ہے کہ حکومت جلد ہی ہڑتالی ڈاکٹروں سے مذاکرات کرے گی،پنجاب میں ڈاکٹروں کی ہڑتال دووجوہات پر جاری ہے اولاً گورنر کے جاری کردہ اس آرڈیننس کے خلاف جو سرکاری ہسپتالوں کو نجی شعبہ کے حوالے کرنے کے لئے جاری ہوا اور ثانیاً حکومت اور بیوروکریسی کی اندرونی چیقلش کی وجہ سے ہڑتالی کہتے ہیں کہ ہسپتالوں کو حکومتی دائرہ کار سے نکال کر میٹرک پاس بورڈ آف گورنرز کے حوالے کرنے والا قانون قبول نہیں اس قانون نے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کے علاوہ انتظامی شبعوں سے رکھنے والے ہزاروں ملازمین کے سروں پر عدم تحفظ کی تلوار لٹکا دی ہے۔
یہ ایک پہلو ہے دوسرا پہلو اس ہڑتال کی ابتداء کے حوالے سے جس کا آغاز اصل میں ساہیوال سے ہوا تھا جہاں ڈپٹی کمشنر(اب سابق) نے وائی ڈی اے کے ایک گروپ کو اپنے مفادات کے لئے ہلہ شیری (پشت بانی کی) دی اور ہسپتال سے نومولود بچے کے اغواء کے بعد ایک طرف تو ایم ایس کو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لئے لکھا اور دوسری طرف تحریک انصاف کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے کزن ڈاکٹر اور اس کے ساتھیوں کو کہا کہ ایم ایس اور میڈیکل کالج کے پرنسپل کے خلاف ہڑتال کردو دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ہڑتال کے حوالے سے خفیہ اداروں کی رپورٹ ہڑتالی ڈاکٹروں کے لیڈران اور ڈپٹی کمشنر کے کردار کے بارے میں تھی مگر ڈپٹی کمشنر اور کمشنر نے بیوروکریسی کے بھائی بندوں سے مسکوٹیں کرکے میڈیکل کالج کے پرنسپل کا تبادلہ کروادیا،اہم بات یہ ہے کہ پرنسپل کے تبادلے کا حکم جاری ہونے کے بعد وزیراعلیٰ،وزیرصحت اور سیکرٹری صحت اس سے لاعلم تھے۔تقرریوں اور تبادلوں پر پابندی کے باوجود بیوروکریسی اپنے بھائی بند کو بچانے کے لئے کیسے متحد ہوئی یہ اس کی ایک روشن مثال ہے۔
پشاور سے خبر یہ ہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے گورنر کے آرڈیننس کے ذریعہ نافذ کیئے جانے والے ”ایکشن اینڈ ایڈ سول پاور ریگولیشن آرڈیننس”
کوغیر آئینی قرار دیتے ہوئے حراستی مراکز میں قید تمام افراد کا ریکارڈ پولیس حوالے کرنے کے ساتھ آئی جی پختونخوا کو تین دن کے اندر مراکز کا کنٹرول سنھبالنے کا حکم دیا ہے۔سابقہ فاٹا اور پاٹا کے اس کالے قانون کو ایک آرڈریننس کے ذریعے پورے صوبے میں نافذ کرنے پر سیاسی وسماجی حلقوں اہل دانش اور دیگر نے شدید ردعمل ظاہر کیا تھا بہرطور اب اس کالے قانون کے خاتمے سے یہ امید بندھ آئی ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں اس قانون کے تحت گرفتار کئے جانے والے افراد کو عدالتوں میں پیش کیاجائے گا جہاں انصاف کے تقاضوں کے مطابق ان کی داد رسی ممکن ہو سکےگی۔
امرواقعہ یہ ہے کہ اس قانون کے صوبے کی سطح پر نفاذ سے حکومت کی بہت سبکی ہوئی دبی دبی زبان میں یہ کہا جارہا تھا صوبے کو وزیراعلیٰ اور اسمبلی کے علاوہ کوئی اور چلا رہا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ وزیراعظم نے دو دن قبل آزادی مارچ والوں سے مذاکرات کے لئے کمیٹی قائم کی اور جمعرات کو اپنی ایک تقریر میں آزادی مارچ کے قائد مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے نا مناسب الفاظ استعمال کیئے یہ بہت عجیب بات ہے اگر جنگ ہی لڑنی ہے تو پھر مذاکراتی کمیٹی بنانے کے تکلف کی کیا ضرورت تھی ؟ مودبانہ درخواست ہے کہ وزیراعظم اور ان کے ساتھی بولنے سے قبل سوچ لیا کریں تو25فیصد مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں گے۔
(بشکریہ : روزنامہ مشرق پشاور)