حیدر جاوید سید صاحب کے ساتھ جب بھی ملا مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے ہی قبیلے کے کسی فرد سے مل رہا ہوں ۔ ایک ایسا شخص جو ظلم تو خود بھی سہتا ہے لیکن صدائے احتجاج ان لوگوں کےلیے بلند کرتا ہے جن کی کوئی آواز ہی نہیں یا جو ظلم سہہ سہہ کر قوت گویائی سے محروم ہو چکے یا سر جھکا کر چلنے کے عادی ہو گئے ۔ حیدر جاوید جب ملتان تھے تو ان سے ٹی ہاؤس میں کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی تھی ۔ شاہ جی قلم کے مزدور ہیں ۔ طویل عرصہ انہوں نے پشاورمیں گزارا ۔ پشاور میں صحافت کوئی آسان کام نہیں ۔ دہشت گردی ، لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم اور اس کے ساتھ ریاستی اداروں کا دباؤ ۔لیکن شاہ جی نے وہاں بیٹھ کر بھی حق گوئی کی قلم کی حرمت کو برقرار رکھا ۔ پشاور کے بعد انہوں نے ملتان اور لاہور میں بھی قلم کی مزدوری کی ۔ میں خیبر پختون خوا کی سیاست کے حوالے سے انہیں اتھارٹی سمجھتا ہوں ۔
اور کوئی بڑا واقعہ ( حادثہ ) رونذما ہو جائے تو اسے سمجھنے کے لیے شاہ جی کی تحریروں سے رہنمائی حاصل کرتا ہوں ۔ حیدر بھائی جہاں بھی رہے ہم نےانہیں ملتان میں ہی محسوس کیا کہ وہ اول و آخر ملتانی ہیں ۔ شاہ جی کےساتھ ایک نسبت کتاب دوستی کےحوالے سے بھی ہے ۔ مذہب ، تاریخ ، سیاست اور دیگر علوم کےحوالے سے ان کا وسیع مطالعہ ہے جو ان کی تحریروں کو خوبصورت بناتا ہے ۔ شاہ جی آج آپ کے جنم دن پر دعا ہے کہ آپ سدا سلامت رہیں کہ آپ میرے قبیلے کے سالار ہیں اور آپ کو دیکھ کر مجھےاپنے ہی قبیلے کق نذر بلوچ یاد آتا ہے
رضی الدین رضی
پچیس دسمبر دو ہزار چوبیس
فیس بک کمینٹ