ملتان ٹی ہاؤس میں صحافیوں کے ساتھ ایک ورکشاپ کا انعقاد تھا۔وہاں سے فراغت کے بعد جب میں ارشد بخاری صاحب کے آفس میں حاضر ہوا۔تو وہاں پر مستحسن خیال مجھ سے پہلے موجود تھے۔ میری عادت ہے کہ جب میں ارشد بخاری صاحب کے دفتر جاتا ہوں۔تو ان کے پاس جا کر ان کتابوں کا دیدار بھی کرتا ہوں جو دوست احباب ان کو ملتان ٹی ہاؤس کے لیے دے جاتے ہیں۔مستحسن صاحب نے ادب عالیہ پر گفتگو کرنا چاہی۔ میں نے عرض کیا۔
جب تک ملتان میں گرمیوں کا سیزن چل رہا ہے۔یہاں پر ادب عالیہ کی بجائے بجلی کے اعلی بلوں کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔مسکرا کر ارشد بخاری کہنے لگے۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ملتان ٹی ہاؤس کا بجلی کا بل بھی بہت زیادہ آیا ہے۔لوگوں کے پاس اپنے کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں اس لیے وہ تقریبات بھی نہیں کروا رہے۔اسی گفتگو کے دوران میں نے بخاری صاحب سے پوچھا کوئی نئی کتاب شائع ہوئی ؟
تو انہوں نے اپنی پٹاری سے پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی کی نئی کتاب میرے سامنے رکھ دی۔
کتاب کا نام
"1970 میں ملتان کی علمی وادبی سرگرمیاں”
تھا۔اس نام کے نیچے لکھا ہوا ہے۔
(منتخب اخباری کالموں کا مجموعہ)
ڈاکٹر حمید رضا صدیقی کا نام اپنے شعبے کے حوالے سے اتنا معتبر ہے۔کہ میں نے فوراٰ کتاب کی ورق گردانی شروع کر دی۔152 صفحے کی کتاب میں ان کے وہ ادبی کالمز ہیں جو 1970 میں شائع ہوئے۔یہ کالم روزنامہ جسارت میں شائع ہوئے۔ جو دائیں بازو کے نظریات کا ترجمان تھا۔حمید رضا صدیقی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی نوکری کے منتظر تھے کہ وہ اس اخبار کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔اخبار کے مدیر اعلی الطاف حسن قریشی تھے۔جو اس سے قبل 1960 سے ماہنامہ اردو ڈائجسٹ شائع کر رہے تھے۔البتہ روزنامہ جسارت ملتان کی افتتاحی تقریب 23 مارچ 1970 کو گلڈ ہوٹل شیر شاہ روڈ ملتان میں منعقد ہوئی۔معروف دانشور اے کے بروہی تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔جبکہ روزنامہ جسارت ملتان کا پہلا ریذیڈنٹ ایڈیٹر ریاض احمد چوہدری کو مقرر کیا گیا جو اس سے پہلے روزنامہ امروز کے ساتھ وابستہ تھے۔حمید رضا صدیقی اس اخبارمیں بطور رپورٹر سب ایڈیٹر اور میگزین ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔اس دوران انہوں نے مختلف عنوانات کے تحت بہت سے کالم بھی لکھے۔شہر میں ہونے والی علمی، ادبی اور ثقافتی تقریبات کی رپورٹنگ کی ذمہ داری انہی کے سپرد تھی۔جس وجہ سے وہ بہت سی ادبی تقاریب کے احوال اور کتابوں پر تبصرہ اپنے کالموں میں کیا کرتے تھے۔ان دنوں روزنامہ جسارت ملتان میں ان کے سینیئرز کولیگز میں صلاح الدین( ہفت روزہ تکبیر والے ) رفیق ڈوگر(ماہنامہ دید شنید) شمس ملک، مختار حسن، نثار زبیری اور دیگر شامل تھے۔جبکہ ملتان سے ان کے علاوہ نصیر احمد چودھری، رانا جمشید اورسلمان غنی بھی اس ادارے میں کام کرتے تھے۔جس کتاب کو آج میں نے موضوع سخن بنایا ہے۔وہ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس میں ان احباب کا تذکرہ ہے جو اس وقت منظر نامے میں نہیں۔لیکن وہ ملتان کی علمی و ادبی تاریخ کے حوالے سے زندہ اور تابندہ ہیں۔اس کتاب میں جن ادیبوں اور شاعروں کا تذکرہ ہے۔ان میں دو یا تین افراد ایسے ہیں جو اب ہمارے درمیان موجود ہیں۔ البتہ دیگر شعبوں سے تعلق بہت سے احباب ابھی بھی شہر میں موحود ہیں لیکن پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ اب گھروں میں قید ہیں ۔مثال کے طور پر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی دسمبر 1968 میں یوم قائد اعظم کی مناسبت سے ایک تقریب کا تذکرہ کرتے ہیں.جس کے مقررین میں شیخ خضر حیات ، عارف محمود قریشی، نور عالم قریشی ،راؤ شجاعت علی ،خواجہ منیر احمد صدیقی، حمید رضا صدیقی، چودھری نزیر احمد ،تاثیر نقوی، اور خالد دبیر چودھری شامل تھے۔اس فہرست میں شامل مقررین میں اب شیخ خضر حیات حمید رضا صدیقی اور خواجہ منیر احمد صدیقی اس شہر میں موجود ہیں۔لیکن سوائے ڈاکٹر حمید رضا صدیقی کے، اور کوئی شہر میں متحرک نہیں ہے۔
30 مارچ 1970 کے اپنے کالم میں پروفیسر حمید رضا صدیقی نے تسخیر قمر قرآن کی روشنی میں ایک مذاکرے کی رپورٹ کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں رقم کیا۔اس مذاکرے کی صدارت پروفیسر خواجہ خورشید احمد نے کی۔ جن کے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر ہارون خورشید پاشا ملک کے نامور سرجن ہیں۔اس مذاکرے میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔جبکہ مقررین میں منشی عبدالرحمن، عاصی کر نالی،حافظ نثار احمد،مولانا محمد موسی اور آغا شیر احمد خاموش شامل تھے۔اب میرے پڑھنے والے دیکھیں۔ کہ 1970 میں قرآن پاک کے کس موضوع پر مذاکرہ ہوا اور اس پر کیسے کیسے نامور علماء ادباء نے نے خطاب کیا۔
نو اپریل 1970 کے کالم میں حمید رضا صدیقی نے جس اجلاس کی تفصیل لکھی ہے اس میں سہیل روبی، آغا شیر احمد خاموش،رفیع رشدی،وحید بخاری ،راحت یسین اور ہاشم خان کا تذکرہ ملتا ہے۔سوائے ہاشم خان اور آغا شیر احمد خاموش کے باقی سب احباب کہاں گئے؟ان کا کبھی ذکر نہیں ملتا۔تو اس لحاظ سے یہ کالم بھی پڑھنے کے لائق ہے۔13 اپریل 1970 کے کالم میں حمید رضا صدیقی نے ایک نعتیہ مشاعرے کی روداد لکھی ہے۔ جو حضرت خواجہ محمد بخش اویسی کے سالانہ عرس پر منعقد ہوا۔صدارت مخدوم سید حامد رضا گیلانی نے کی۔جبکہ نظامت اعتبار ساجد کے حصے میں آئی۔مشاعرے میں فرحت ملتانی(جنہوں نے اولیائے ملتان کے نام سے کتاب لکھی)سیف چشتی ،سجاد بریلوی، قمر انصاری، نور صابری، وحشت ملتانی، الطاف حسن قریشی (مدیر اردو ڈائجسٹ)استاد صدیق، میکش لکھنوی، اسلم یوسفی،احساس فرخ نگری ، رنگین فیروز آبادی، تاثیر نقوی اور عزیز حاصل پوری شامل تھے۔اس کالم نے بہت سے ایسے بہت سے ایسے شعراءکرام کو یاد کروا دیا جن کو ایک عرصے سے کسی نے یاد نہیں کیا۔
23 اپریل 1970 کا کالم تو بہت ہی اہم ہے ۔جس میں حمید رضا صدیقی ایوان ادب میں یوم اقبال کی تقریب کاخوبصورت انداز سے احوال لکھتے ہیں۔یہ تقریب بزم ترقی ادب کے زیر اہتمام ہوئی۔جس کے بانی ارشد حسین ارشد ہیں ۔اس کے پہلے صدر عاصی کرنالی جب کہ سرپرست میاں مقبول احمد شیخ ڈائریکٹر اللہ وسایا ٹیکسٹائل ملز تھے۔ صدارت کمشنر ملتان ڈویژن سید محمد قاسم رضوی نے کی۔جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹر سید عبداللہ تھے۔تلاوت کے بعد خادم کیتھلی نے نعت پیش کی۔جبکہ میں مقالہ نگاروں میں عزیز انصاری، آغا شیر احمد خاموش،پروفیسر صفدر حسین صفدر،پروفیسر عاصی کرنالی، صابر خلیلی،غلام ربانی شوکت پروفیسر اسماعیل بھٹی اور پروفیسر صادق مصور نے اظہار خیال کیا۔
انہی ایام میں حمید رضا صدیقی نے بزم ارباب سخن کے طرحی مشاعرے کی رپورٹ میں اسلم یوسفی، اعتبار ساجد، جمیل صدیقی ،ارشد ملتانی،شفق حیدرآبادی، قیصر ہوشیار پوری، حیدر گردیزی اورایاز صدیقی کے اشعار سے اپنا کالم سجایا۔
دو مئی 1970 کے کالم میں وہ مجلس اقبال کے قیام کا تذکرہ کرتے ہوئے خواجہ عبدالرحیم، آغا شورش کاشمیری، پروفیسر ڈاکٹر اغا شیر احمد خاموش ،شیخ اکرام الحق ایڈووکیٹ، پیرزادہ عبد سعید ایڈووکیٹ، پروفیسر عاصی کرنالی،حافظ نثار احمد ،صفدر حسین صفدر ،پروفیسر معراج الدین ،خواجہ خورشید احمد، چودھری عبدالرحمن، سید علی اختر مینجر نیشنل بینک، ملک رحیم بخش بچہ چیف افیسر ڈسٹرکٹ کونسل، ڈاکٹر احمد حسن چودھری ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز ،حافظ حفیظ اللہ ،منشی عبدالرحمن ،پروفیسر ملک بشیر احمد اور سید بشیر احمد کا ذکر کرتے ہیں۔جب کہ اس کے دیگر اراکین میں پروفیسر جابر علی جابر، پروفیسر صدر الدین، پروفیسر آل احمد عابدی، شیخ عبدالمجید، پروفیسر خلیل صدیقی، پروفیسر ایم اے قدوس، پروفیسر مرید حسین راہی، افتاب احمد خان، مرزا مسرت بیگ، پروفیسر عبد السلام اور علامہ عتیق فکری شامل تھے۔اس تنظیم کے منشور میں علامہ اقبال کے نام سے ایک عمارت بنانے کا منصوبہ بھی تھا جس کے لیے دو کنال اراضی حاصل کی جا چکی تھی۔وہ دو کنال اراضی اب کہاں ہے؟ اس کے بارے میں پروفیسر حمید رضا صدیقی کو معلوم ہوگا۔ہم تو ان کی پرانی یادوں کو پڑھ کر لطف اٹھا رہے ہیں۔
تین مئی 1970 کا کالم بہت ہی شاندار اور یادگار ہے۔کہ اس کے اندر انہوں نے ریلوے انسٹیٹیوٹ کے ایک ایسے مشاعرے کا ذکر کیا ہے۔جس کی صدارت ثاقب زیروی نے کی جبکہ سٹیج سیکرٹری ارشد ملتانی تھے۔ہلال جعفری نے نعت پڑھی۔جن شعراء نے اس میں اپنا کلام پیش کیا۔ان میں سلمان غنی، نثار حامد، فرحت ملتانی، اعتبار ساجد، احساس فرخ نگری ،مقبول قریشی، وفا ابدالی، منشی لطیف، خالد صحرائی، شعیب بن عزیز،مسرور صابری، غفور ستاری، جمیل صدیقی، صنوبر مصور، عبدالغنی عاصم، وفا حجازی، سحر رومانی، اقبال ارشد ،محسن نقوی، انعام اسدی، جری چغتائی،شفق حیدرابادی، حیدر گردیزی، پروفیسر احمد عقیل روبی، اسلم یوسفی ، بسمل صابری، قمر لکھنوی، تاج محمد خان تاج، پرواز جالندھری، تاثیر نقوی، ایازصدیقی، کیپٹن نثار جازب، پروفیسر صادق مصور، صوفی رامپوری،الطاف حسن قریشی، منور سلطانہ، مسٹر دہلوی،بسمل صابری ، نظر امروہوی، کلیم عثمانی، ہوش ترمذی اور اعظم اکبر آبادی شامل تھے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے۔یہ اپنے وقت کا ایک ایسا مشاعرہ تھا۔جس میں پورے پاکستان سے نامور شعراءکرام نے شرکت کی۔بہت سے شاعروں نے اپنے نام بعد میں تبدیل کر لئے۔ جس میں سحر رومانی پروفیسر حسین سحر کے نام سے مشہور ہوئے۔
ایک کالم گلگشت کالونی میں مشاعرے کے بارے میں بھی ہے۔ جس کی صدارت زکاء اللہ نائیک ایڈیشنل کمشنر نے کی۔سٹیج سیکرٹری سید مقصود عباس عابدی بھی تھے۔ اس مشاعرے میں شاہد زبیر،منظور بٹالوی، غضنفر روہتکی، منظر گیلانی، اعتبار ساجد،وفا حجازی، نثار خاور، سلمان غنی ،خالد شیرازی، محسن نقوی، اقبال ارشد ،شفق حیدرآبادی،اسلم یوسفی، حیدر گردیزی، ممتاز العیشی، فرخ درانی، قمر لکھنوی، ارشد ملتانی، تاثیر نقوی اور پروفیسر عرش صدیقی اپنا کلام پیش کیا۔
اس کتاب کے مختلف کالموں کے مطالعے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ عارف الاسلام صدیقی،ضیاء شبنمی، جری سیمابی،نصیر شمسی، سرفراز زیدی اور پروفیسر اسلم انصاری اس زمانے میں بہت زیادہ سرگرم ہوا کرتے تھے۔کتاب میں جب کسی مشاعرے کی رپورٹ پڑھنے کو ملتی ہے۔تواس کے ساتھ شاعری کا انتخاب بھی سامنے آ جاتا ہے۔کتاب کے آخر میں اس زمانے کی تقریبات کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔جس سے ہم آج کے بزرگ لکھنے والوں کی نوجوانی کی تصاویر دیکھ سکتے ہیں۔ڈاکٹر صدیقی نے یہ کتاب ترتیب دیکھ کر ہمیں 1970 کے اس زمانے میں پہنچا دیا۔جس کے بارے میں ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔یہ کتاب اس دور کے ملتان کے شعری ادب کا احاطہ بھی کرتی ہے۔اور خاص طور پر بار بار شعیب بن عزیز کے اشعار کا انتخاب یہ بتاتا ہے کہ وہ اس زمانے میں کتنے سرگرم ہوا کرتے تھے۔150 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت ایک ہزار روپیہ ہے۔ جو بہت زیادہ ہے۔اگر آپ یہ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں۔تو ڈاکٹر حمید رضا صدیقی یہ کتاب آپ کو اپنے دستخط کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں اب یہ آپ کی مرضی ہے۔اس کتاب کا آپ ان کو کتنا اعزازیہ پیش کرتے ہیں ؟
فیس بک کمینٹ