اسرائیل پر ایران کے میزائل حملے کے بعد مشرق وسطیٰ میں جنگ بڑھنے اور تباہی پھیلنے کے اندیشے میں اضافہ ہؤا ہے۔ امریکہ گزشتہ ایک سال کے دوران غزہ میں اسرائیل کی انسانیت سوز جنگ جوئی کے باوجود اسرائیل کو روکنے یا اس پر کسی قسم کی پابندی لگانے میں کامیاب نہیں ہؤا۔ صدر جو بائیڈن کی کمزور اور بے مقصد سفارت کاری کی وجہ سے دنیا ایک ایسی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔
ایران نے آج رات کئی سو بلاسٹک میزائل اسرائیل پر پھینکے۔ علاقے میں موجود امریکی افواج نے ان میزائیلوں کو ناکارہ بنانے میں اسرائیل کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ البتہ پورے اسرائیل میں میزائل گرنے اور پر شور دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ اسرائیل نے رات گئے اپنے شہریوں کو پناہ گاہوں سے باہر نکلنے اور اسرائیلی فضائی حدود کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ اسرائیل نے سرکاری طور پر کسی جانی یا دیگر نقصان کی تصدیق نہیں کی۔ شاید مستقبل قریب میں بھی اسرائیل کسی اسٹریٹجک نقصان کی تصدیق نہیں کرے گا کیوں کہ ا س سے اس کی عسکری کمزوری ظاہر ہوگی۔ البتہ اگر ایران یا حزب اللہ کے پھینکے ہوئے کسی میزائل سے کوئی شہری جانی نقصان ہؤا تو اسے ضرور بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے گا۔ البتہ ایرانی میزائل حملوں اور رات گئے تک کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہ ہونے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ٹارگٹ اسرائیل کے عسکری ٹھکانے تھے۔ ایرانی میزائلوں نے کسی بھی اسرائیلی فوجی ٹھکانے، اسلحہ کے ڈپو یا کسی دوسری تنصیبات کو نقصان پہنچایا تو اس سے اسرائیل کے دفاعی نظام کی کمزوریوں کا پول کھل جائے گا اور آنے والے دنوں میں ایران یا حزب اللہ ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
ایران نے صبح سے ہی یہ اشارے دینے شروع کردیے تھے کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرنے والا ہے ۔ ان اشاروں کے بعد امریکہ کی طرف سے ایران کو متنبہ کیا گیا تھا کہ اسرائیل پر ایرانی حملے کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے اور ایران کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ دفاعی حکمت عملی پر بات چیت کے لئے امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے اپنے اسرائیلی ہم منصب یوآو گیلانٹ سے فون پر بات کی اور امریکی حمایت و تعاون کا یقین دلاتے ہوئے واضح کیا کہ ’حملے کی صورت میں ایران کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے‘۔ انہوں نے اگرچہ اسرائیل سے بھی کہا تھا کہ تنازعہ کا سفارتی حل تلاش کرنا چاہئے لیکن اسرائیل کو مسلسل فوجی امداد فراہم کرکے اور اس کی ہر جارحیت کو اسرائیل کے حق دفاع کا نام دے کر درحقیقت امریکہ نے خود اس جنگ جوئی میں اسرائیل کی مکمل حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس صورت حال میں اس جنگ کو صرف اسرائیلی جارحیت کہنا مشکل ہوگا۔ یہ مشرق وسطیٰ میں تمام عرب اور مسلمان ملکوں کو ہراساں کرنے کے لیے سوچی سمجھی امریکی حکمت عملی کا اشارہ ہے۔
ایران نے اسرائیل پر حملوں کو تہران میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کے علاوہ بیروت میں حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ کو ہلاک کرنے پر اسرائیل سے انتقام قرار دیا ہے۔ تہران سے ان حملوں کے بعد میزائل حملوں سے ہونے والے نقصان کے بارے میں فوری طور سے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ کیا ایران صرف اپنے دو قریب ترین حلیفوں کی موت کا انتقام لینے کے بعد مزید جنگی کارروائی سے گریز کرے گا۔ ایرانی حکمت عملی کے بارے میں مسلسل بے یقینی موجود ہے البتہ اگر اسرائیل اور ایران کے درمیان میزائل و فضائی حملوں کا سلسلہ دراز ہوتا ہے تو اس کے جانی و مالی نقصان سے قطع نظر طویل المدت سفارتی اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہگاری نے ایران کے حملوں کے بعد کہا ہے کہ ’ہم دفاعی اور جارحانہ دونوں لحاظ سے ہائی الرٹ پر ہیں۔ ہم ریاست اسرائیل کے شہریوں کا دفاع کریں گے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس حملے کے نتائج برآمد ہوں گے۔ ہمارے پاس منصوبے ہیں، اور ہم اپنی مرضی کی جگہ اور وقت پر کارروائی کریں گے‘۔
گو کہ اس سے یہی قیاس ہوتا ہے کہ اسرائیل شاید فوری طور سے جواب دینے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میں اسرائیلی حکومت نے جس جارحیت اور بے لگام فوجی طاقت ہونے کا ثبوت دیا ہے، اس کی روشنی میں یہ سمجھ لینا نادانی ہوگی کہ اسرائیل خاموشی سے اس ایرانی حملے کو برداشت کرلے گا۔ خاص طور سے مکمل اور غیر مشروط امریکی حمایت کے ہوتے ہوئے اسرائیل جنگ وسیع کرنے اور ایران کو شدید نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم ایسی کسی بھی اسرائیلی کارروائی اور اس کی کامیابی کا انحصار ایران میں اسرائیل کے جاسوسی نیٹ ورک پر ہوگا۔ لبنان میں گزشتہ چند روز کے دوران حزب اللہ کو نشانہ بنانے میں اسرائیلی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ وہاں پر موجود اسرائیلی جاسوس رہے ہیں جو واضح طور سے حزب اللہ کے انتہائی خفیہ منصوبوں تک رسائی رکھتے تھے۔ ٹھوس اور مصدقہ اطلاعات ہی کی بنیاد پر اسرائیل، میزائل یا فضائی حملوں میں حزب اللہ کے لیڈروں کو نشانہ بنانے اور مارنے میں کامیاب ہؤا ہے۔ حتی کہ حسن نصراللہ جیسے اہم ترین لیڈر پر حملہ کے وقت بھی ا س کے پاس تفصیلی معلومات موجود تھیں کہ وہ کس وقت کون سے بنکر میں موجود ہوں گے اور اسے تباہ کرنے کے لیے کیسے میزائل اور کتنی طاقت کا بم پھینکنا ضروری ہوگا۔ اس سے پہلے پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں میں حزب اللہ کے متعدد لیڈروں کو ہلاک کرتے وقت بھی اسرائیلی کے جاسوسی نظام نے ہی اسے حزب اللہ پر برتری دلوائی تھی۔
البتہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ان حملوں میں ابتدائی کامیابی حاصل کرنے اور حزب اللہ کو بظاہر شدید نقصان پہنچانے کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ اس عظیم الجثہ عسکری گروہ کی کس قدر فوجی طاقت کو ناکارہ کیا جاسکا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی ہورہی ہیں کہ حسن نصراللہ کے جاں بحق ہونے کے بعد جو قائدین حزب اللہ کی کمان سنبھالیں گے ، وہ شاید ا س صبر وتحمل و تدبر کا مظاہرہ نہ کرسکیں جس سے حسن نصراللہ کام لیتے تھے۔ اس صورت میں خود کش دہشت گرد حملوں کے علاوہ زمینی کارروائی کے دوران حزب اللہ کی مزاحمت فیصلہ کن ہوگی۔ اسرائیل نے آج رات ہی لبنان میں زمینی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اب وہ جنوبی لبنان میں حزب اللہ کا خاتمہ کرنے کے لیے ’محدود‘ فوجی کارروائی کرے گا۔ اسرائیلی اعلان کے مطابق اس کی فوجیں لبنان کی حدود میں داخل ہوچکی تھیں اور لبنان کے اندر کارروائی کررہی تھیں۔ البتہ اسرائیلی فوجی ترجمان یہ بتانے سے گریز کرتے رہے کہ اسرائیلی فوج کس علاقے میں کتنی دور تک جانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس دوران میں حزب اللہ نے اسرائیلی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج لبنان کی حدود میں داخل نہیں ہوئی۔
اسرائیل جنوبی لبنان میں 2006 کے بعد پہلی بار زمینی فوجی کارروائی کررہا ہے۔ اس کارروائی سے پہلے امریکہ نے یہ کہتے ہوئے اسرائیلی اقدام کی توثیق کی تھی کہ لبنان میں حزب اللہ کے خلاف کارروائی ناگزیر دکھائی دیتی ہے۔ اس قسم کے بیان سے امریکہ بظاہر ’غیر جانبدار‘ رہنے کا ڈھونگ کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ اسرائیل کو اپنے فوجی منصوبے پر عمل درآمد کا اشارہ دیتا ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ اکتوبر میں حماس کے حملوں کے بعد سے غزہ میں انسانیت سوز جنگ جوئی کے علاوہ لبنان، یمن، عراق اور شام پر حملے کیے ہیں اور بظاہر خود پر میزائل پھینکے والے عسکری گروہوں کا خاتمہ کرنے کی نیت سے خود حفاظتی کے مشن کے تحت جنگ کا دائرہ وسیع کیا ہے۔ لیکن اسرائیلی جارحیت نے پورے خطے کے تمام ملکوں میں بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس دوچند کیا ہے۔ عرب ممالک محض اسرائیل کی فوجی طاقت کی دہشت کے سبب کسی قسم کی ٹھوس حکمت عملی بنانے میں ناکام ہیں۔ حتی کہ یہ طاقت ور اور مالدار عرب ممالک امریکہ پر اتنا سفارتی اثر ورسوخ بھی استعمال نہیں کرسکے کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی کا کوئی معاہدہ کرنے پر مجبورکرسکے۔
اس کے باوجود دیکھا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے اور ایک سو کے لگ بھگ یرغمالی شہریوں کو رہا کروانے کے لیے ایک سال سے غزہ میں جنگ شروع کی ہوئی ہے۔ بارود اور مہلک ہتھیاروں کے بے اندازہ ذخائر اور ٹھوس امریکی امداد کی وجہ سے وہ غزہ کے محدود علاقے میں تباہی پھیلانے اور انسانوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کرنے میں تو ضرور کامیاب ہؤا ہے لیکن اپنے ایک سو یرغمالیوں کو حماس کے قبضے سے رہا نہیں کروا سکا۔ اس کا مطلب ہے کہ حماس اسرائیل کی وحشیانہ جنگ جوئی کے باوجود ایک طاقت ور جنگی گروہ کی صورت میں موجود ہے۔ غزہ میں اسرائیلی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ غزہ کے مظلوم و مجبور لوگوں میں اسے خفیہ معلومات دینے والے جاسوس میسر نہیں آسکے۔ اس کے برعکس وہ حزب اللہ میں اپنا جاسوسی نیٹ ورک مضبوط کرنے میں کامیاب ہؤا ہے۔ اسی کی وجہ سے حزب اللہ کو اب تک شدید ہزیمت اٹھانا پڑی ہے حتی کہ اس کا لیڈر بھی جاں بحق ہوگیا۔ اسرائیل نے جولائی کے آخر میں تہران میں اسماعیل ہنیہ کو بھی ایران میں اپنے جاسوسوں کی مدد سے ہی بم دھماکے میں ہلاک کیا تھا۔ ایران نے اس کے بعد اپنے عسکری ذرائع میں اسرائیل جاسوسوں کو قلع قمع کرنے کے لیے ضرور کچھ کارروائی کی ہوگی۔ اسرائیل کو اگر ایران کے اندرسے خفیہ معلومات نہ مل سکیں تو جوابی کارورائی میں اسرائیل کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔
یہ صورت لبنان جنگ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ حزب اللہ نے اگر اپنی صفوں سے اسرائیلی جاسوسوں کا سراغ لگا کر ان کا خاتمہ کردیا اور خفیہ جنگی منصوبہ بندی و نقل و حرکت کے بارے میں معلومات اسرائیل تک پہنچنے کا سلسلہ رک گیا تو گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران میں اسرائیل کو جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، وہ جلد ہی ناکامیوں میں تبدیل ہونے لگیں گی۔ جنوبی لبنان میں اسرائیل 2006 کی جنگ میں حزب اللہ کے چنگل میں پھنس کر ناکامی کا شکار ہؤا تھا۔ اس وقت یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ کہ کیا اسرائیل ایک بار پھر لبنان میں کافی اندر جانے کی غلطی کرے گا یا حزب اللہ ایک بار پھر اسرائیلی فوجیوں کو گھیرے میں لے کر ماضی کی روایت تازہ کرسکے گی۔
ایران کے اسرائیل پر حملہ نے البتہ ان قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کردیا ہے کہ وہ خاموشی اختیار کرے گا اور حزب اللہ کو تن تنہا جنگ لڑنا پڑے گی۔ جنگ میں براہ راست شامل ہونے کے بعد ایران کسی بھی قیمت پر لبنان میں اسرائیل کو سبق سکھانا چاہے گا جبکہ اسرائیل کی خواہش ہوگی کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کی عسکری تنصیبات خاص طور سے جوہری ہتھیاروں کی سہولتوں کو تباہ کرسکے۔ اس معاملہ میں امریکی گرمجوشی و مستعدی دیکھتے ہوئے، اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ ایک بار پھر ایران میں سخت گیر مذہبی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے اسرائیل کے کاندھے پر بندوق رکھ کر وار کرنے کی کوشش کرے۔
جنگ کے بارے میں کبھی بھی کوئی پیش گوئی ممکن نہیں ہوتی لیکن ایک بات طے ہے کہ مشرق وسطی مزید کئی دہائیوں تک تباہی اور عدم استحکام کی لپیٹ میں رہے گا۔ اس جنگ کے اثرات لبنان و ایران کے علاوہ کئی دیگر ممالک کو بھی بھگتنا پڑیں گے۔ ایک بار پھر یہ حقیقت واضح ہوگی کہ اسرائیل اپنی تمام تر عسکری صلاحیت کے باوجود فلسطین کا مسئلہ حل کیے بغیر امن سے زندہ نہیں رہ سکے گا۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ