اپنی ہنگامہ خیز زندگی کے آخری دن عاصمہ جہانگیر کچھ بجھی بجھی سی تھیں۔ اتوار کا دن تھا اور نواز شریف نے انہیں صبح گیارہ بجے جاتی امرا بلایا تھا تاکہ طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے پر مشورہ کیا جاسکے۔ مسلم لیگ(ن) کو طلال چوہدری کے لئے کسی ا یسے وکیل کی تلاش تھی جو سپریم کورٹ میں معافی مانگنے کے بجائے اپنے مؤکل کا دفاع کرے۔ کئی نامور وکیل طلال چوہدری سے واضح الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ ان کے پاس معافی کے سواکوئی دوسرا راستہ نہیں لیکن نواز شریف کی ہدایت یہ تھی کہ معافی نہیں مانگنی۔ اسی لئے عاصمہ جہانگیر سے کہا گیا کہ وہ یہ مقدمہ لڑیں۔ گیارہ فروری کی صبح طبیعت کی خرابی کے باعث وہ جاتی امرا نہیں جاسکیں جس پر نواز شریف نے ایک وکیل کے ذریعے ان سے خود رابطہ قائم کیا اور طلال چوہدری کا وکیل بننے کی درخواست کی۔ طے پایا کہ شام چار بجے تک خواجہ سعد رفیق خود آکر عاصمہ جہانگیر سے ملیں گے۔ اس گفتگو کے دوران عاصمہ جہانگیر کے دماغ کی شریان پھٹ گئی اور وہ بےہوش ہوگئیں۔ انہیں اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ہائی بلڈ پریشر کے باعث انہیں برین ہیمرج ہوا۔ وہ پروین رحمان اور سبین محمود کی طرح غیر طبعی موت کا شکار نہیں ہوئیں بلکہ رضیہ بھٹی کی طرح بلڈپریشر اور برین ہیمرج کا شکار ہوئیں۔ کئی لوگوں نے مجھے پوچھا کہ کیا عاصمہ جہانگیر کسی ذہنی دباؤ کا شکار تھیں؟ میں نے عرض کیا کہ ذہنی دباؤ کس پر نہیں ہے، کوئی اس کا ذکر کرتا ہے کوئی نہیں کرتا۔ عاصمہ پر ایک طرف کام کا دباؤ تھا دوسری طرف انہیں دھمکیوں کا سامنا رہتا تھا۔ وہ اکثر اوقات ان دھمکیوں کا ذکر نہیں کرتی تھیں تاکہ ان کے ساتھی اور خاندان کے افرادپریشان نہ ہوں۔ زندگی کے آخری دنوں میں نواز شریف کی نااہلی کے عدالتی فیصلے پر تنقید کے باعث عاصمہ جہانگیر کو بہت سے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اگر یہ بہادر خاتون طلال چوہدری کی وکیل بن کر سپریم کورٹ میں پیش ہوتیں تو یقیناً الزامات کی شدت میں اضافہ ہوتا۔ حقیقت یہ تھی کہ عاصمہ جہانگیر کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، البتہ نواز شریف کا مؤقف بدل گیا تھا۔ 2012ء میں میمو گیٹ اسیکنڈل کے شور شرابے میں کوئی وکیل حسین حقانی کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہ تھا۔ نواز شریف صاحب نے میمو گیٹ ا سیکنڈل کی انکوائری کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھیں اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا کو اپنا گواہ بنایا تھا۔
عاصمہ کو حسین حقانی سے کوئی ہمدردی نہیں تھی بلکہ ان کا مؤقف تھا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ اور فوج کے ساتھ مل کر ایک منتخب حکومت کے خلاف سازش نہیں کرنی چاہئے۔ وہ چاہتی تھیں کہ حکومت انتخابات کے ذریعہ بدلنی چاہئے سپریم کورٹ کے ذریعہ نہیں بدلنی چاہئے لہٰذا وہ حسین حقانی کی وکیل بن گئیں۔ 2017ء میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت ختم کی تو عاصمہ اپنے پرانے مؤقف پر قائم تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت تبدیل کرنا ووٹروں کا کام ہے ،سپریم کورٹ کا نہیں۔ اب نواز شریف ان کے ہم خیال ہوچکے تھے اور پیپلز پارٹی مخالف ہوچکی تھی۔ ہمارے بڑے بڑے سیاستدان وقت بدلنے کے ساتھ اپنا سیاسی مؤقف بھی بدل لیتے ہیں لیکن عاصمہ جہانگیر اپنے پرانے مؤقف پر ڈٹی رہتی تھیں۔ وہ آج کے تمام سیاستدانوں سے بڑی شخصیت تھیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں انہیں ہائی کورٹ کا جج بنانے کی کوشش کی لیکن عاصمہ نے انکار کردیا۔2013میں عاصمہ کو پنجاب کی نگراں وزارت اعلیٰ پیش ہوئی انہوں نے انکار کردیا۔ موت سے کچھ دن پہلے ان کے سامنے نگراں وزارت عظمیٰ کی بات رکھی گئی تو انہوں نے مسکرا کر رد کردی۔ محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد عاصمہ جہانگیر وہ تیسری خاتون ہیں جنہوں نے پاکستان کی سیاست و سماج پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ کچھ مہربان انہیں موت کے بعد بھی کفر کے فتوؤں سے نواز رہے ہیں۔ ان مہربانوں کو معلوم نہیں کہ عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی کی جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے بڑی نیاز مندی تھی اور عاصمہ کا نکاح مولانا مودودی نے پڑھایا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 2006 میں عاصمہ جہانگیر ڈیرہ بگٹی گئیں تو ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ واپس آکر انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ اکبر بگٹی کو قتل کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس دعوے کے بعد عاصمہ پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔ کچھ ہی عرصے میں نواب اکبر بگٹی پراسرار موت کا شکار ہوگئے۔ ان کی موت کے بعد بلوچستان میں جو ہوا وہ نہ ہوتا اگر عاصمہ جہانگیر کی بات سن لی جاتی۔ عاصمہ جہانگیر نے ہمیشہ پاکستان اور پاکستان کے مظلوموں کا بھلا سوچا۔ وہ ایک بے لوث سماجی کارکن تھیں جو بغیر کسی غرض کے ہر مظلوم کی آواز بن جاتی تھیں اور پھر مسکرا کر ظالموں کی گالی گلوچ کا سامنا کرتیں۔
2016ء میں مری کے علاقے دیول میں ایک 19 سالہ لڑکی ماریہ صداقت کو زندہ جلادیا گیا۔ پولیس نے اس واقعہ کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی۔ علاقے کی عورتوں نے عاصمہ جہانگیر سے رابطہ کیا تو عاصمہ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن بنایا اور مجھے بھی اس میں شامل کردیا۔ ایک دن میں، عاصمہ جہانگیر، کامران مرتضیٰ اور کچھ دیگر وکلا دیول کے پہاڑوں میں ماریہ صداقت کے گھر پہنچ گئے۔ اس کے والد نے ہمیں ماریہ کا آخری ویڈیو بیان سنایا جو موت سے کچھ لمحے قبل ایک ڈاکٹر نے پولیس کی موجودگی میں ریکارڈ کیا تھا۔ ماریہ نے علاقے کے کچھ بااثر لوگوں پر الزام لگایا کہ انہوں نے اس پر تیل چھڑک کر اسے جلادیا تھا۔ ہم نے پولیس سمیت ملزمان کا مؤقف بھی معلوم کیا اور جب ماریہ کے لئے آواز اٹھائی تو ہم پر طرح طرح کے الزامات لگے۔ مجھ پر توہین رسالت کا بے بنیاد مقدمہ بنانے کی مذموم کوشش کی گئی اور مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ عاصمہ جہانگیر تو روزانہ اس صورتحال سے گزرتی ہے۔ یہ واقعہ میری زندگی اور انداز فکر میں اہم تبدیلیوں کا باعث بنا اور میں نے زعم تقویٰ کے شکار کچھ بڑے بڑے پارساؤ ں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا۔ عاصمہ صرف مظلوم عورتوں کے لئے نہیں مظلوم مردوں کے لئے بھی آواز بلند کرتی تھیں۔ مزدور رہنما فاروق طارق نے ایک دفعہ لاہور میں جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کے خلاف مظاہرہ کیا اور گرفتار ہوگئے۔ انہوں نے عاصمہ سے مدد مانگی تو وہ ان کے لئے عدالت میں پیش ہوگئیں۔ ضمانت ہوگئی لیکن ضمانتی مچلکوں کے لئے مطلوبہ رقم یا جائیداد کے کاغذ نہ تھے۔ عاصمہ نے اپنے ذاتی گھر کی رجسٹری بطور ضمانت عدالت میں جمع کرائی اور فاروق طارق کو ان کے 18ساتھیوں سمیت رہائی دلوای۔ یہ وہ عورت تھی جس نے اسامہ بن لادن کے خاندان کی غیر قانونی حراست پر بھی احتجاج کیا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری پر بھی احتجاج کیا۔ آئی اے رحمان صاحب نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے۔ لکھتے ہیں عاصمہ اپنے پیچھے امید کا اثاثہ چھوڑ گئی ہیں۔ میں کچھ دوستوں کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ عاصمہ جہانگیر کا خلا پر نہیں ہوسکتا۔ آپ دیکھیں گے بہت جلد آپ کو عاصمہ جیسی ایک نہیں بلکہ کئی جرأتیں نظر آئیں گی۔ جہاں ظلم ختم نہ ہوگا، ہزاروں گمشدہ افراد واپس نہ آئیں گے اور غیرت کے نام پر قتل بند نہ ہوں گے وہاں عاصمہ جہانگیر کی مزاحمت بھی ختم نہیں ہوسکتی ۔ یہ مزاحمت جاری رہے گی۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ