کراچی میں راؤ انوار اس کے گسٹاپو وردی پوش ٹولے کے ہاتھوں نوجوان نقیب اللہ کے خون نے سنگلاخ پہاڑوں کو بھی رنگ دیا جہاں کی سرحدوں پر، بقول شاعر حسن درس جوانی منع ہے۔ مگر اس سرزمین سے ایک پھول کھلا، ایک آواز اٹھی اور پھر قافلے در قافلے بنتے گئے۔ فاٹا اور وزیرستان جہاں صرف اسٹیریو ٹائپ یہ تھا کہ طالبان ہوتے ہیں، اسلحہ اور لاقانونیت ہوتی ہے یا پھر اراکین اسمبلی صدارتی یا وزارت عظمی اور سینیٹ کے انتخابات میں میں خرید و فروخت ہوتے ہیں (سب تو نہیں)۔ یا پھرجسے نام نہاد علاقہ غیر کہا جاتا ہے۔ یعنی کہ جس سے واقعی باقی ملک نے ناطہ رشتہ توڑ دیا ہو۔ یا پھر کبھی کبھی ملکی اور غیرملکی شخصیات کے وہاں دوروں کے وقت مشران کی طرف سے سر پر پگڑ اور تحفے میں دنبے کی تصاویر ملکی میڈیا کی زینت بنی ہوتیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے سنا تھا کہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ان کے خلاف آنے والی عدم اعتماد کی تحریک کے دوران فاٹا سے تعلق رکھنے والے کئی اراکین قومی اسمبلی کی لاٹ کو اسوقت کے انگریزی اخبار کے مالک نے اپنی جیب سے بینظیر کے حق میں انکی وفاداریوں کی رقم اپنی جیب سے ادا کی تھی۔ پھر سنا کہ جب غلام اسحاق خان اپنی صدارت کا حلف اٹھانے آئے تو اسی اخباری شخصیت کی گاڑی میں آئے تھے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ نواز
شریف نے اس اخباری مالک سے انکے سابقہ دور حکومت میں کیے گئے اس حسن سلوک پر کبھی معذرت بھی کی ہے کہ نہیں جس سلوک نے ان کو پھانسی گھاٹ پر پہنچایا ہوا تھا۔ کاش اس ملک میں واقعی کوئی بشپ ٹوٹو کوئی نیلسن منڈیلا ہو اور سچ مچ کا قومی مصالحتی اور سچ کمیشن ہو (سچ مچ والا۔ زرداری اور مشرف والا نہیں) جس میں حکمران سول و غیر سول حکام اور لیڈر اپنی اپنی غلط کاریوں کا اعتراف کریں اور پھر معافی مانگیں۔ کیا کوئی پشتونوں، بلوچوں، سندھیوں، اردو بولنے والے سندھیوں، پنجابیوں، سرائیکیوں ،کشمیریوں ، گلگتیوں اور بنگالیوں سے اب تک قومی اور عالمی سطح پر کی گئی زیادتیوں کی معافی مانگے گا۔ لیکن نیلسن منڈیلا اور بشپ ٹوٹو پیدا ہوں نہ ہوں لیکن منظور پشتین پیدا ہو چکا ہے۔ وہ بھی وزیرستان سے۔ وزیرستان کیا ہے اس کی سب سے بہتر تعریف غلام قادر خان داور سے زیادہ کون کرسکتا ہے بھلا؟
’’ دنیا بھر کیلئے وزیرستان ایک معمہ رہے گا ایک کبھی نہ حل ہونیوالا معمہ۔ خونریزی اور دہشت گردی کی خبریں اکثر اس کے (وزیرستان کے) نام کے ساتھ سننے کو ملتی ہیں۔ لیکن یہاں کے رہنے والوں کیلئےزندگی غیر یقینی کا جہنم بنی ہوئی ہے۔ ہر روز کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کسی دن کوئی ڈرون حملہ ان کو اور انکے خاندان کے کسی فرد کو مار سکتا ہے۔ تو دوسرے دن کوئی خودکش بمبار انکو ختم کرسکتا ہے۔ یا پھر اگلے روز پاکستان کا ریاستی ادارہ۔ کیا یہی وزیرستان ہے؟‘‘
لیکن نہیں۔ وزیرستان یا اس جیسے علاقوں کے لوگ ایسے وزیرستان سے بھاگ کر کہیں اور ملک کے کسی بھی کونے میں جاکر رہیں وزیرستان وہیں آ جا تا ہے۔ یعنی کہ جس طرح فیض صاحب نے کہا تھا:
میں جہاں بھی گیا اے ارض وطن
تیرے تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لئے
اب پورا ملک وزیرستان اور وزیرستان بلوچستان بن چکا ۔ کس نے جانا تھا کہ وہ نقیب اللہ جو اسی وزیرستان کے غیریقینی کے جہنم سے نکل کر کراچی کو جنت سمجھ کر جائے گا وہاں جعلی مقابلے میں مارا جائے گا۔ دہشت گرد گنوا کر۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی نسل اور قوم سے یہی ہو رہا تھا۔ ہو رہا ہے۔ جس قوم کے چھ سو سے زائد مشران مارے جاچکے ہوں۔ اس کے اپنے قبیلے کے اندر جب کوئی مشر نہیں بچا تو پھر اس کے قبیلے کے مقتول مشر کے بارہ سالہ بیٹے کو مشر بنایا گیا۔ نقیب اللہ جانتا تھا کہ اس کی عمر قبیلے اور قوم کے افراد جانتے ہوں گے۔ فراز کے اس شعر کے مصداق کہ:
ہمیں میں کوئی صبح سویرے کھیت میں مردہ پایا گیا
ہمیں سے دہشت گرد تھا کوئی چھپ کے جسے دفنایا گیا۔
راؤ انوار اور اس کی گسٹاپو نے نقیب اللہ کے ساتھ ایک سرائیکی نوجوان کو بھی قتل کیا جس کا تعلق اچ شریف سے تھا۔
زیتون کے باغ تو فلسطینیوں سے چھنتے ہم نے محمود درویش کی شاعری میں پڑھے تھے لیکن پشتونوں کے سیبوں سے لدے درختوں والی تیار فصلیں ان کی آنکھوں کے سامنے اجڑ تی کس نے دیکھی ہیں۔ کس نے دیکھا ہے کہ ان سیبوں کو قریبی مارکیٹ تک نہ پہنچانے کے دکھ میں کون سی بچی مر گئی، کون سے بوڑھے کو غم کھا گیا۔ دھرنے کو لائیو کرنے والوں نے کبھی اس کو بھی کور کیا کہ کونسا درہ اور روڈ کتنے ماہ بند رہا۔ ’’علاقہ غیر‘‘ جو ٹھہرا۔
کون سی چوکی پر طالبان ظالمان تو عزت و احترام سے گزر گئے لیکن شریف مقامی بے عزت ہوتے رہے۔ روز روز سولہ سولہ چوکیوں پر جامہ تلاشیاں اور پھر پشتون عورتوں سے بھی پوچھ گچھ۔ ہر چوکی پہ ایک راؤ انوار بیٹھا ہے۔ راؤ انوار تو شاید کسی اسلام آباد یا دبئی کے سیف ہاؤس میں ہوگا لیکن مقتول کے ورثا اورقوم ہے کہ دربدر۔ لیکن اس دربدری کو بھی پکار مل جاتی ہے۔ جسے پشتو میں ’’چیغا‘‘ کہا جاتا ہے ۔ چیغا (پکار) ۔ کئی دن ہوئے کہ غلام قادرخان داور نے وزیرستان کے ایسی حکایات خونچکاں پر ایک کتاب لکھی تھی اسی نام کی ’’چیغہ‘‘ یعنی پکار۔
اب جب بے آسرا بے نوا اور یتیم لہو کیلئےایک پکار پھر منظور پشتون کے روپ میں اٹھی ہے تو مجھے یاد آیا۔
یہ بائیس تیئس سال کا نوجوان چھا یا ہوا ہے۔ وہ پشتون لانگ مارچ کا سرخیل بنا ہوا ہے۔ جرأت اور خود اعتمادی سے بات کرتا ہے۔باطل کو للکارتا ہے۔ اسی جرأت کے ساتھ جو جرأت اور خود اعتمادی ملالہ یوسف زئی میں ہے۔جو پابہ استقلال اقبال خان لالہ کے لہجے میں ہے۔ پشتون جرگے سے نکل کر لانگ مارچ بن چکے ہیں۔ اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور ایک تحریک۔اور اس تحریک کو زیر کرنے کی ناکام کوششوں میں کبھی انکے نوجوان رہنمائوں اور یہاںتک کہ مقررین پر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ نیز یہ کہ کئی کو غائب بھی کردیا گیا ہے۔ لیکن یہ قدم تو عاشق کے قافلوں کی طرح رکنے کو تھوڑی نکلے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں وہ جو باچا خان کا ایک غیر مسلح پٹھان والا تصور تھا اسکی اکیسویں صدی کی شکل یہ پختون لانگ مارچ اور جوانی منظور پشتین ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ اس میں اور مظلوم بھی مل جائیں کہ بڑا ہے درد کا رشتہ جیسے کوئٹہ سے وہ نوجوان ہزارہ خاتون جلیلہ حیدر بھی جاکر ان سے ملی ہے۔ لیکن وہ پشتو متل یا کہاوت بھی سب نے سنی ہوگی کہ چور کا پیچھا کرتے اس کے گھر تک مت جاؤ!
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ