پاکستان کی ’’مجسمہ آزادی‘‘ اپنے لوگوں سے جسمانی طور پر جدا ہوگئی۔ مر کر زندہ جاوید ہو گئی۔ اک انتقال فرما گئی قوم کی زندہ جاوید عاصمہ جہانگیر۔ امر عاصمہ۔
وہ عظیم سندھی شاعر بھٹائی کی ان سطروں جیسی تھی ’’جاں جاں ہوئی جیئری ورچے نہ ویٹھی‘‘ یعنی کہ جب جب اور جس جس پل تک وہ زندہ رہی وہ جہد مسلسل رہی یا کبھی یک گونہ ہو کر نہ بیٹھی۔ اس کی زندگی کی آخری سرگرمی شاید نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل و پشتونوں کے خلاف دیگر زیادتیوں پر احتجاجی دھرنے سے خطاب تھا۔ جس میں عاصمہ کہہ رہی تھی ’’پشتونوں کی سندھیوں اور بلوچوں سے زیادہ قربانیاں ہیں۔ پشتونوں اور باچا خان کے بغیر پاکستان ایک تنگ نظر پاکستان ہوگا‘‘واقعی اگر پاکستان کو اب بھی مکمل تنگ نظرکہنے سے جو بات روکے کھڑی ہے وہ عاصمہ جیسے لوگ ہیں۔ جو ہزاروں لاکھوں میں نہیں، سینکڑوں میں بھی نہیں اب بمشکل انگلیوںپر گنےجا سکتے ہیں۔ عاصمہ ان سب کی سرتاج تھی۔ جیسے دمکتے چمکتے ماند ہوتے ستاروں کے بیچ روشن چاند ہوتا ہے۔
وہ عورت تھی یا جادو تھی جو سر پر چڑھ کر بولے گی
ہر زنداں کے ہر قفل کو وہ چابی بن کر کھولے گی
کئی برس پہلے میں نے یہ سطریں بینظیر بھٹو کے قتل پر لکھی تھیں لیکن یہ عاصمہ پر بھی سولہ آنے صادق آتی ہیں۔
عاصمہ واقعی کال کوٹھڑیوں اور قید خانوں میں، قید ٹارچر سیلوں میں ٹارچر سہتے بے بس لوگوں کیلئے ایک امید کی کرن اور قفس میں ہر روز نسیم صبح وطن کے برابر تھی۔
میں نے پہلی بار عاصمہ کو تب دیکھا جب انیس سو اسی کی دہائی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے قائم ہونے سے بھی ذرا قبل فوجی آمر ضیا الحق کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت یا ایم آر ڈی میں بھرپور حصہ لینےکی پاداش میں سندھ کے شہروں اور گوٹھوں میں بد ترین ریاستی دہشتگردی ہوئی تھی اور وہ سندھ میں ضیا آمریت کے ہاتھوں ریاستی دہشت گردی کے شکار گوٹھوں اور شہروں میں لوگوں سے ملنے آئی تھی۔ وہ ٹنڈو جام کے پاس کھیسانہ موری کی ان عورتوں سے بھی ملنے آئی تھی جو نوجوان لڑکیاں مایوں بیٹھی غائب کی گئی تھیں۔ وہ طیب تھہم، لاکھاٹ، سکرنڈ، مورو، میہڑ ناتھن شام بھی گئی تھی۔ وہ ہر جگہ پر لال بتی والی گاڑی کی طرح پہنچ جاتی جہاں جہاں بھی انسان اپنے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہوتا۔
بقول فہمیدہ ریاض:
پھاڑ کر سورج کالی دھرتی جہاں جہاں نکلا ہے
آدمیت نے تڑپ تڑپ کر تیرا نام لیا ہے
عاصمہ کے قافلے میں جسٹس دراب پٹیل، ائیر مارشل ریٹائرڈ ظفر چوہدری، آئی اے رحمان، عزیز صدیقی، حنا جیلانی، طاہر خان، زہرہ یوسف، زمان خان، شمس الدین، شکیل پٹھان جسے دلاور لوگ تھے۔ اگر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نہ بھی ہوتا تب بھی عاصمہ اپنی ذات میں بقول شخصے ایمنسٹی انٹرنیشنل تھی۔
یہ اٹھارہ بیس سال کی نوجوان لڑکی جو تھانوں، جیلوں اور کچہریوں میں اپنی بہن حنا جیلانی کیساتھ اپنے والد کی حبس بیجا یا غیر قانونی نظربندیوں کیخلاف لڑتی رہی تھی۔
اکثر ملک جیلانی حبس بیجا میں نظربند رہے جسکے خلاف لڑائی اسکی بیٹی نے لڑی۔ اسی لیے تو اس لڑکی کیلئے اک ایسے ہی کردار (آپ چاہے ان سے کتنے اختلاف کرتے ہوں) شورش کاشمیری نے کہا تھا:
ایک لڑکی دبلی پتلی شبنمی انداز کی
ہیچ اس کے روبرو لیکن پہاڑوں کا جلال
اپنی امی کی جگرداری کا نقش دل پذیر
اپنے ابا کے سیاسی ولولوں سے مالا مال
تب بارہ کروڑ کے ملک میں اسی دبلی پتلی لڑکی نے اپنے ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی معطلی کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں مقدمہ دائر کیا جو عاصمہ جیلانی بنام ریاست پاکستان کے نام سے مشہور ہوا۔ اس تاریخی مقدمے کا فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس میں مقدمہ سننے والے ججوں نے پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے یحییٰ خان اور اسکے حواری ٹولے کو غاصب قرار دیا تھا لیکن تب جب یحییٰ خان اور اسکا حواری ٹولہ اقتدار میں نہیں رہا تھا۔
عاصمہ پنجاب میں بھٹہ مزدوروں کی جبری مشقت کے خلاف بھی جدوجہد کی سورما تھی۔ لاہور ہائیکورٹ میں عاصمہ کی طرف سے ان مزدوروں پر جبری مشقت کے خلاف دائر مقدمے میں تاریخی فیصلہ آیا جس میں جبری مشقت کو غیر قانونی قرادیا گیا جس سے نہ محض پنجاب میں بھٹہ مزدور بلکہ سندھ میں بھی جبری مشقت سہتے ہاریوں کسانوں کا فائدہ ہوا۔
خواتین کے انسانی حقوق کیلئے ویمن ایکشن فورم کے قیام میں بھی وہ آگے آگے تھی اور اسی طرح وہ لاہور کی شاہراہوں پر پولیس کے ڈنڈے کھانے اور گرفتار ہونیوالوں میں بھی ۔ایسے موقع پر جب اس کے ساتھ حبیب جالب کو بھی مار پڑی تھی تو اس نے لکھا تھا:
بڑے سنے تھے جالب صاحب
پٹے سڑک کے بیچ
وہ ضیا الحق کی فوجی آمریت اور عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف بننے والے امتیازی قوانین کیخلاف برسرپیکار رہی۔عاصمہ جہانگیر ہر مظلوم کے گھر میں امید و دلجوئی کا نام اور ہر ظالم کے دل میں ایک خوف کا نام تھا۔ پھر وہ سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں کی نجی جیلوں اور بیگار کیمپوں میں اپنے خاندانوں سمیت نسلوں سے قید ہاری ہوں جن میں بڑی تعداد اقلیت اور انتہائی مسکین ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کی تھی کہ بلوچ اور سندھی گمشدہ افراد، ونی ہوتی بچیاں تھیں کہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہوتی عورتوں کو بچانا تھا، ریپ اور گھریلو تشدد کی شکار بچیاں اور عورتیں کہ توہین کے نام پر جھوٹے مقدمات میں ذاتی عناد پر پھنسائے گئے اقلیتوں کے لوگ، کہ بگٹی مری قبائل۔ کہ دہشتگردی کی جنگ کے نام پر متاثرین و مظلوم پشتون و دیگران، عاصمہ وہاں موجود تھی۔ ایم کیو ایم تھی کہ حسین حقانی کہ اب نواز شریف عاصمہ سڑک پر مار کھاتے پٹتے انسان کے ساتھ تھی۔
وہ ملک میں جمہوریت اور سویلین بالادستی، عدلیہ کی بحالی کے حق میں آخر دم تک اور ہر فورم پر لڑتی رہی۔ پھر وہ ٹی وی چینل تھے کہ عدالتوں کے روسٹرم، بار روم کہ تار کول سے دھوپ زدہ شاہراہیں۔
عاصمہ، آئی اے رحمان ، حسین نقی اور اس کی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سندھ میں ٹاسک فورس کے سربراہ شکیل پٹھان، ساتھیوں کرشن شرما اور اختر بلوچ، ویر جی کولہی، ،بدر سومرو، علی حسن، ناز سہتو، اسحاق منگریو کی جدوجہد سے وڈیروں کی نجی جیلوں اور بیگار کیمپوں سے سینکڑوں خاندانوں پر مشتمل ہزاروں لوگوں کو رہائی ملی۔عاصمہ انسانی حقوق کی دنیا کی لتا منگیشکر یا میڈم نورجہاں تھی جن کی برائی کرتے میں نے برصغیر میں شاذ و نادر ہی کسی کو سنا ہو۔
خطہ لاہور! واقعی تیرے جاں نثاروں کو سلام کہ تو نے اس عظیم خاتون کو اسکے شایان شان الوداع کہا:
وہ جو گمشدہ لوگوں کی آواز تھی
وہ جو کالی پٹی بندھی آنکھوں کیلئے روشنی
وہ جو کال کوٹھڑیوں میں بند لوگوں کیلئے سورج تھی
معدوم ہو گئی
فیس بک کمینٹ